Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 117
مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْهَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُ١ؕ وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
مَثَلُ : مثال مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِيْ : میں ھٰذِهِ : اس الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا كَمَثَلِ : ایسی۔ جیسے رِيْحٍ : ہوا فِيْھَا : اس میں صِرٌّ : پالا اَصَابَتْ : وہ جا لگے حَرْثَ : کھیتی قَوْمٍ : قوم ظَلَمُوْٓا : انہوں نے ظلم کیا اَنْفُسَھُمْ : جانیں اپنی فَاَھْلَكَتْهُ : پھر اس کو ہلاک کردے وَمَا ظَلَمَھُمُ : اور ظلم نہیں کیا ان پر اللّٰهُ : اللہ وَلٰكِنْ : بلکہ اَنْفُسَھُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے ہیں
یہ جو مال دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال ہوا کی سی ہے جس میں سخت سردی ہو اور وہ ایسے لوگوں کی کھیتی پر جو اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے چلے اور اسے تباہ کر دے اور خدا نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں
مثل ما ینفقون فی ھذہ الحیوۃ الدنیا ما مصدری ہے یعنی خرچ کرنا مراد یہ ہے کہ رسول اللہ کی دشمنی میں یا شیخی اور فخر کا مظاہرہ کرنے کے لیے خرچ کرنا جیسے کفار قریش لڑائیوں میں کرتے ہیں یا ثواب کی امید میں خرچ کرنا جیسے یہودی اپنے علماء کے لیے اور کفار قریش بتوں کے لیے کرتے تھے یا دکھاوٹ کے لیے خرچ کرنا جیسے منافق کرتے تھے اس کی حالت ایسی ہے۔ کمثل ریح فیھا صر جیسے وہ ہوا جس میں سخت سردی ہے۔ صِرٌّ سخت سردی۔ (قاموس) ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہصرسخت گرم اور ہلاک کردینے والی لو کو کہتے ہیں۔ اصابت حرث قوم ظلموا انفسھم فاھلکتہ کسی ایسے گروہ کی کھیتی کو لگ جائے جس نے کفر و معصیت و بد کاری کی وجہ سے خود اپنے پر ظلم کیا ہو پھر اس کھیتی کو تباہ کردے۔ مطلب یہ کہ جس طرح سخت سرد ہوا یا جلا ڈالنے والی لو، ظالموں کی کھیتی کو تباہ کردیتی ہے اسی طرح کافروں کا مال خرچ کرنا بھی تباہی کا موجب ہے کیونکہ ایسا خرچ اللہ کے عذاب کو لاتا ہے یا مال کو بالکل برباد کردیتا ہے کہ نہ دنیا میں اس کا کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے نہ آخرت کے لیے ذخیرہ ہوتا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما ینفقون میں ما موصولہ ہو اور تشبیہ مرکب ہو ایک قصہ کو دوسرے قصہ سے تشبیہ دی ہے اس لیے حرف تشبیہ کو حرف پر داخل کرنے کے بجائے ریح پر داخل کردیا (حالانکہ ریح مشبہ بہ نہیں ہے) یہ بھی جائز ہے کہ ضائع کردہ مال کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہو لیکن اس طرح ریح سے پہلے لفظ مہلک محذوف قرار دیا جائے گا یعنی وہ کھیتی جو ریح کی وجہ سے تباہ ہوگئی ہو۔ و ما ظلمھم اللہ اور اس صرف کو ناکارہ یا کھیتی کو تباہ کرکے اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ و لکن انفسھم یظلمون بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے کہ مال کو ایسے طریقہ پر صرف کرتے تھے جو اللہ کے ہاں فائدہ رساں نہیں تھا یا کھیتی والے ایسے کام کرتے تھے کہ سزا کے مستحق ہوگئے۔ ابن جریر اور ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ کچھ مسلمانوں کا میل ملاپ یہودیوں کے ساتھ تھا کیونکہ دونوں ہمسائے تھے اور جاہلیت کے زمانہ میں حلیف (ہم عہد) بھی تھے۔ اس سلسلہ میں ذیل کی آیت نازل ہوئی۔
Top