Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 99
فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ١۫ وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
فَكَيْفَ : سو کیا اِذَا : جب جَمَعْنٰھُمْ : انہیں ہم جمع کرینگے لِيَوْمٍ : اس دن لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَوُفِّيَتْ : پورا پائے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : حق تلفی نہ ہوگی
تو اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ان کو جمع کریں گے (یعنی) اس روز جس (کے آنے) میں کچھ بھی شک نہیں اور ہر نفس اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
فَكَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ : پس ان کا کیا حال ہوگا اس وقت جبکہ ہم ان کو ایک یقینی دن کے حساب اور جزاء سزاء کے لیے جمع کریں گے۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ : اور ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ : اور کسی کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ ھُم ضمیر جمع کل کی طرف راجع ہے کیونکہ لفظ کل معنی کے لحاظ سے جمع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کی نہ نیکی میں کمی کی جائے گی نہ بدی میں اضافہ۔ قتادہ نے کہا ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ نے اللہ سے دعا کی تھی کہ فارس اور روم کا ملک میری امت کو عطا فرما دے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا : جب رسول اللہ نے مکہ فتح کر لیاتو آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے فارس اور روم کی حکومت کا وعدہ فرمایا منافق اور یہودی کہنے لگے ارے ارے کہاں محمد اور کہاں فارس اور روم کی حکومتیں وہ ان سے کہیں طاقتور اور مضبوط ہیں کیا محمد ﷺ کے لیے مکہ اور مدینہ کافی نہیں کہ فارس اور روم کی حکومت کا لالچ کرنے لگے۔ اس پر اللہ نے آیت : قُلْ اللّٰھُم مالک المُلْکِ ۔۔ نازل فرمائی دونوں روایتوں میں اختلاف ہے مگر نزول آیت پر اتفاق ہے (کہ آنحضرت نے فارس اور روم کی فتح کی بشارت دی تھی یا اللہ سے دعا کی تھی) دونوں روایتوں میں تطبیق ممکن ہے۔ اس طرح کہ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ نے دعا کی ہو اور دعا قبول ہوگئی ہو اور وحی سے دعا کی قبولیت معلوم ہوگئی ہو اور آپ ﷺ نے لوگوں کو بشارت دیدی ہو) بیضاوی نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ نے جب (مدینہ کی حفاظت کے لیے) خندق کھودنے کے خطوط ڈالے اور ہر دس آدمیوں کے لیے بیس ہاتھ زمین کھودنا طے کردی اور لوگوں نے کھدائی شروع کردی تو کھودنے کے دوران زمین کے اندر ایک بڑی چٹان نمودار ہوئی جس پر کدال اثر نہیں کرتی تھی لوگوں نے حضرت سلمان ؓ کو اس بات کی اطلاع دینے کے لیے رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا آپ ﷺ تشریف لے آئے اور کدال ہاتھ میں لے کر ایک ایسی ضرب لگائی کہ پتھر پھٹ گیا اور ایک چمک پیدا ہوئی جس سے مدینہ کے دونوں کناروں کا درمیانی حصہ چمک اٹھا گویا تاریک کوٹھری میں چراغ روشن ہوگیا۔ حضور ﷺ نے تکبیر کہی مسلمانوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نعرۂ تکبیر لگایا حضور ﷺ نے فرمایا : اس ضرب سے میرے سامنے حیرہ (عراق علاقۂ فارس) کے محلات نمودار ہوگئے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کتوں کے دانت پھر آپ ﷺ نے دوسری ضرب لگائی اور فرمایا : اس ضرب سے میرے سامنے سر زمین روم کی سرخ کوٹھیاں نمو دار ہوگئیں پھر تیسری ضرب لگائی اور فرمایا : (اس ضرب سے) میرے سامنے صنعاء (تخت گاہ یمن) کے محل نمو دار ہوگئے اور جبرئیل نے مجھے بتایا کہ میری امت ان سب (ممالک) پر غالب آئے گی پس تم کو بشارت ہو۔ منافق کہنے لگے کیا تم کو اس بات سے تعجب نہیں ہوتا کہ محمد تم کو امیدیں دلا رہے ہیں ‘ تم سے جھوٹے وعدے کر رہے ہیں اور تم کو بتا رہے ہیں کہ مجھے یثرب سے حیرہ سر زمین فارس کے محل نظر آرہے ہیں تم ان کو فتح کرو گے حالانکہ تم دشمن کے خوف سے (مدینہ کی حفاظت کے لیے) خندق کھود رہے ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بیہقی اور ابو نعیم نے دلائل میں یہ قصہ بیان کیا ہے مگر آیت کے نزول کا ذکر نہیں کیا۔ ابن خزیمہ نے قتادہ کی مختصر روایت نقل کی ہے اور اس میں نزول آیت کا ذکر کیا ہے۔
Top