Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 6
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ١ؕ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِكُمْ مَّعْرُوْفًا١ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
اَلنَّبِيُّ : نیی اَوْلٰى : زیادہ (حقدار) بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے مِنْ : سے اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں وَاَزْوَاجُهٗٓ : اور اس کی بیبیاں اُمَّهٰتُهُمْ ۭ : ان کی مائیں وَاُولُوا الْاَرْحَامِ : اور قرابت دار بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلٰى : نزدیک تر بِبَعْضٍ : بعض (دوسروں سے) فِيْ : میں كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور مہاجرین اِلَّآ اَنْ : مگر یہ کہ تَفْعَلُوْٓا : تم کرو اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَوْلِيٰٓئِكُمْ : اپنے دوست (جمع) مَّعْرُوْفًا ۭ : حسن سلوک كَانَ : ہے ذٰلِكَ : یہ فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مَسْطُوْرًا : لکھا ہوا
پیغمبر مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔ اور رشتہ دار آپس میں کتاب الله کے رُو سے مسلمانوں اور مہاجروں سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حقدار ہیں۔ مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو۔ (تو اور بات ہے) ۔ یہ حکم کتاب یعنی (قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے
النبی اولی بالمومنین من انفسھم . نبی مؤمنوں کے ساتھ خود ان کے نفسوں سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی مؤمنوں کا جو تعلق ایک دوسرے کے ساتھ ہے ‘ ان سب سے زیادہ نبی کا مؤمنوں سے تعلق ہے۔ اسی تعلق کی وجہ سے نبی کا حکم مؤمنوں پر نافذ ہے اور پیغمبر کی اطاعت سب پر واجب ہے۔ ماں باپ کا حکم بھی اگر نبی کے حکم کے خلاف ہو تو اس کی مخالفت بھی لازم ہے۔ پس پیغمبر کو ہی جہاد پر بھیجنے اور راہ خدا میں جان خرچ کرنے کا حکم دینے کا حق حاصل ہے۔ حضرت ابن عباس اور عطاء نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ جب نبی کسی کو کسی کام کی دعوت دیں اور اس کا نفس کسی دوسری بات کا خواہش مند ہو تو نفس کی اطاعت سے نبی کی اطاعت اولیٰ ہے کیونکہ نبی تمما مسلمانوں کے مصالح اور مفاسد سے بوحی الٰہی خوب واقف ہیں۔ نبی مؤمنوں کیلئے اسی بات کو پسند کرتے اور اسی کام کا حکم دیتے ہیں جس میں مؤمنوں کی بہبودی اور کامیابی ہوتی ہے۔ اللہ نے فرمایا : حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَحِیْمٌ۔ انسان کا نفس ہمیشہ بدی کا حکم دیتا ہے سوائے اس کے جس پر اللہ کا کرم ہو۔ انسان کا نفس بڑا ناحق کوش اور بہت ہی نادان ہے ‘ اس لئے ضروری ہے کہ مؤمنوں کو اللہ کے رسول ﷺ کی محبت اپنے نفسوں سے بھی زیادہ ہو ‘ اللہ کے رسول ﷺ کا حکم نفس کی حکومت پر غالب ہو اور رسول خدا کی مؤمنوں پر شفقت اتنی ہو کہ خود ان کو اپنے نفوس پر نہ ہو۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ میں اس کی نظر میں اس کے باپ ‘ اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ رواہ البخاری و مسلم فی صحیحیھما عن انس۔ حضرت ابوہریرہ روای ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : ہر مؤمن سے دنیا و آخرت میں میرا تعلق سب سے زیادہ ہے۔ اگر اس کا ثبوت چاہتے ہو تو پڑھو آیت النَّبِیُّ اَوْلٰی بالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ پس جو مؤمن مال چھوڑ کر مرے تو اس کے مال کے وارث اس کے عصبات ہوں گے ‘ جو بھی ہوں اور جو مؤمن نادار بیوی بچوں کو چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آجائیں ‘ میں ان کا متولی ہوں۔ وازواجہ امھتھم . اور نبی ﷺ کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔ یعنی ان کا حق (ماؤں کی طرح) بڑا ہے ‘ ان سے ہمیشہ کیلئے (ہر مؤمن کا) نکاح حرام ہے۔ مطلب یہ نہیں ہے کہ جس طرح ماؤں کو دیکھنا اور ان کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا جائز ہے ‘ اسی طرح پیغمبر ﷺ کی بیبیوں کو دیکھنا اور ان کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا جائز ہے۔ امہات المؤمنین کو دیکھنا اور خلوت میں ان کے ساتھ بیٹھنا تو ایسا ہی ناجائز ہے جیسے اجنبی عورتوں کے ساتھ۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَاِذَا سَأَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْءَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ اگر امہات المؤمنین سے تم کو کوئی سامان مانگنا ہو تو پردہ کی اوٹ سے مانگو۔ امہات المؤمنین کی بیٹیوں کو امت کی بہنیں نہیں کہا جاتا ‘ نہ ان کے بہن بھائی امت کی خالائیں اور ماموں ہیں (نسبی رشتہ نہیں ہے) ۔ امام شافعی نے فرمایا : حضرت زبیر نے حضرت اسماء سے نکاح کی اور حضرت اسماء حضرت عائشہ کی بہن تھیں لیکن کسی نے نہیں کہا کہ حضرت اسماء مؤمنوں کی خالہ تھیں۔ اسی طرح رسول اللہ نے اپنی لڑکیوں کا نکاح حضرت عثمان اور حضرت علی سے کیا تھا (اگر حضور ﷺ کی صاحبزادیاں امت کی بہنیں ہوتیں تو ان سے کسی کا نکاح نہیں ہوتا) ۔ شعبی نے مسروق کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ کو اماں کہا ‘ آپ نے فرمایا : میں تمہاری ماں نہیں ہوں ‘ تمہارے مردوں کی ماں ہوں۔ بیہقی نے سنن میں بھی یہ روایت نقل کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ اللہ نے جو حضور ﷺ کی بیویوں کو مؤمنوں کی مائیں قرار دیا ہے ‘ اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کی طرح ازواج مطہرات سے امت کا نکاح حرام ہے۔ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں آیا ہے : وَاَزْوَاجُہٗ اُمَّھٰتُھُمْ وَھُوَ اَبٌ لَھُمْ یعنی رسول اللہ مؤمنوں کے دینی باپ تھے ‘ ہر پیغمبر اپنی امت کا دینی بات ہوتا ہے۔ سب کی ابدی زندگی کی جڑ پیغمبر ہی ہوتا ہے اسی لئے سب مؤمن آپس میں دینی بھائی ہیں۔ واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ من المؤمنین والمھٰجرین . اور اللہ کی کتاب میں (دوسرے) مؤمنوں اور مہاجروں کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ کتاب اللہ سے مراد ہے فیصلۂ خداوندی ‘ یا لوح محفوظ ‘ یا قرآن کی یہی آیت ‘ یا آیت میراث۔ بَعْضُْھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ کا یہ مطلب ہے کہ میراث کے زیادہ مستحق ہیں ‘ اسی لئے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جس نے مال چھوڑا تو اس کے وارث اس کے عصبات ہوں گے ‘ جو بھی ہوں۔ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ میں مِنْ تفضیلیہ ہے ‘ ابتداء اسلام میں مہاجر ‘ مہاجر کا وارث ہوتا یا دینی موالات (انصار و مہاجرین کی اخوت دینی) موجب میراث تھی۔ اس آیت سے وہ حکم منسوخ ہوگیا (اور دوسرے مہاجرین و مؤمنین کے مقابلہ میں قرابتدار اپنے قرابتدار کی میراث کا مستحق قرار دیا گیا) قتادہ نے کہا : مسلمان ہجرت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ (بغوی) کلبی کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے مسلمانوں میں باہم رشتۂ اخوت قائم کرا دیا تھا۔ حضور ﷺ دو دو مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیتے تھے ‘ آخر یہ آیت نازل ہوئی (تو پچھلا دستور منسوخ ہوگیا) ۔ اُولُوا الْاَرْحَام یعنی وہ قرابتدار جو ذوی الفروض بھی نہیں اور عصبات بھی نہیں ہیں ‘ امام شافعی کے نزدیک کسی حال میں وارث نہیں ہوتے۔ ہمارے نزدیک ذوی الفروض اور عصبات کے موجود نہ ہونے کی صورت میں ترکہ کے وارث ذوی الارحام ہوتے ہیں۔ آیت مذکورہ سے ہمارے قول کا ثبوت ملتا ہے (ذوی الفروض وہ قرابتدار ہوتے ہیں جن کا میراثی حصہ قرآن میں مقرر کردیا گیا ہے اور عصبات وہ لوگ ہیں جو ذوی الفروض کے موجود نہ ہونے کی صورت میں کل ترکہ کے وارث ہوجاتے ہیں اور ذوی الفروض موجود ہوں تو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد اگر کچھ مال بچتا ہو تو اس کے وارث یہ عصبات ہوجاتے ہیں ‘ ان کے بعد اولوا الارحام کا درجہ ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اولوا الارحام وارث ہی نہیں ہوتے ‘ اگر عصبات موجود نہ ہوں تو ترکہ کا مال بیت المال میں داخل کردیا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ آیت میں اولوا الارحام کو دوسرے مؤمنوں کے مقابلہ میں ترجیح دی گئی ہے ‘ اس لئے اگر عصبات نہ ہوں تو دوسرے رشتہ داروں کو ترکہ تقسیم کردیا جائے اور کوئی رشتہ دار نہ ہو تو مجبوراً بیت المال میں داخل کیا جائے۔ مترجم) ۔ الا ان تفعلوا الی اولیاء کم معروفا . مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے (یعنی مہاجر بھائیوں سے یا کسی مؤمن سے) یہ سلوک کرنا چاہو (تو جائز ہے) ۔ معروف سے مراد وصیت ہے۔ جس دوست کے متعلق وصیت کی جائے ‘ اس کا حق وارثوں سے مقدم ہے۔ فعل معروف کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن سنت اور اجماع نے اس عموم کو کل ترکہ کے ایک تہائی کے ساتھ مخصوص کردیا ہے یعنی صرف ایک تہائی ترکہ کی وصیت کرنے کا حق میت کو ہے۔ اولوا الارحام کو میراث کا سب سے زیادہ مستحق قرار دیا گیا۔ اس سے وصیت والے دوستوں کو مستثنیٰ کرلیا گیا (یعنی جن دوستوں کو مال دینے کی وصیت کی ہو ‘ ان پر قرابتدار ترجیح نہیں رکھتے) ۔ یا استثناء منقطع ہے موالات اور ہجرت کو پہلے استحقاق میراث کا موجب قرار دیا گیا تھا ‘ اب اس کو منسوخ قرار دیا اور حسب منشاء دوستوں کیلئے ایک تہائی مال کی وصیت کرنے کو جائز کردیا۔ بعض علماء نے من المؤمنین و المہاجرین میں لفظ مِنْ کو بیانیہ کہا ہے یعنی جو مؤمن اور مہاجر (میت کے) رشتہ دار ہوں ‘ وہ میراث کے زیادہ مستحق ہیں۔ مطلب یہ کہ کافر و مسلم اور مہاجر وغیرہ کے درمیان سلسلۂ توارث قائم نہیں ہوگا۔ ہاں اگر کافر یا غیر مہاجر قرابتدار ہوں تو ان کیلئے وصیت کی جاسکتی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : یہ قول قتادہ ‘ عطاء اور عکرمہ کا ہے۔ میں کہتا ہوں : اگر مِنْ کو بیانہ قرار دیا جائے گا تو اولیٰ (جو اسم تفضیل کا صیغہ ہے) اس کا ستعمال عام افعل التفضیل کے خلاف ہوجائے گا ‘ کیونکہ اولیٰ پر نہ تو الف لام ہے ‘ نہ یہ مضاف ہے ‘ نہ اس کی کے صلہ میں مِنْہے اور استعمال اسم تفضیل کے یہی تین طریقے ہیں۔ اس کے علاوہ مِنْکو بیانیہ قرار دینے سے مسلم و کافر کے درمیان توارث کی نفی پر نہ صراحۃً کوئی لفظ دلالت کر رہا ہے ‘ نہ معنوی مفہوم کے طور پر ہی یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ مؤمن کے اولیٰ بالمیراث ہونے سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر مؤمن وارث موجود نہ ہو تو مؤمن کی میراث کافر کو (اس صورت میں بھی) نہ دی جائے۔ کان ذلک فی الکتب مسطورا . یہ (حکم) کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ یعنی لوح محفوظ میں ‘ یا قرآن میں۔ بعض علماء کے نزدیک الکتاب سے مراد توریت ہے۔
Top