Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 154
وَ رَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِهِمْ وَ قُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَرَفَعْنَا : اور ہم نے بلند کیا فَوْقَھُمُ : ان کے اوپر الطُّوْرَ : طور بِمِيْثَاقِهِمْ : ان سے عہد لینے کی غرض سے وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا لَهُمُ : ان کیلئے (ان سے) ادْخُلُوا : تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے وَّقُلْنَا : اور ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے لَا تَعْدُوْا : نہ زیادتی کرو فِي : میں السَّبْتِ : ہفتہ کا دن وَاَخَذْنَا : اور ہم نے لیا مِنْهُمْ : ان سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : مضبوط
اور ان سے عہد لینے کو ہم نے ان پر کوہ طور اٹھا کھڑا کیا اور انہیں حکم دیا کہ (شہر کے) دروازے میں (داخل ہونا تو) سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور یہ بھی حکم دیا کہ ہفتے کے دن (مچھلیاں پکڑنے) میں تجاویز (یعنی حکم کے خلاف) نہ کرنا۔ غرض ہم نے ان سے مضبوط عہد لیا
ورفعنا فوقہم الطور بمیثاقہم یعنی چونکہ انہوں نے قبول کرنے کا پختہ وعدہ کیا تھا اس لئے طور کو ہم نے ان کے اوپر اٹھا لیا۔ وقلنا لہم اور ہم نے ان سے کہا یعنی جب طور ان کے سروں پر سایہ افگن تھا اس وقت موسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان سے ہم نے کہلوایا۔ ادخلوا الباب سجدا کہ (ایلیا کے) دروازہ میں سر جھکائے داخل ہو۔ وقلنا لہم اور ہم نے ان سے کہا یعنی حضرت داؤد کی زبانی کہلوایا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ آئندہ کلام بھی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی زبانی اس وقت کہلوایا جب پہاڑ بنی اسرائیل کے سروں پر جھکا ہوا تھا کیونکہ سنیچر (کے روز کی عبادت) کی مشروعیت اسی دور میں ہوچکی تھی البتہ اس حکم کی خلاف ورزی اور عذاب مسخ حضرت داؤد کے زمانہ میں ہوا۔ لا تعدوا فی السبت سنیچر کے معاملہ میں زیادتی نہ کرو یعنی سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑ کر اپنے نفوس پر ظلم نہ کرو۔ واخذنا منہم میثاق غلیظا اور ہم نے ان سے پکا وعدہ لے لیا کہ وہ تورات کے حکم کو قبول کریں گے اور سنیچرکے معاملہ میں زیادتی نہیں کریں گے یہاں تک کہ انہوں نے بسر و چشم اس حکم کی تعمیل کا وعدہ کیا۔
Top