Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 88
وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاکیزہ وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس اَنْتُمْ : تم بِهٖ : اس کو مُؤْمِنُوْنَ : مانتے ہو
اور جو حلال طیّب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو
وکلوا مما رزقکم اللہ حللا طیبا ” اور اللہ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال دل پسند چیزیں کھاؤ “۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا حلال وہ رزق ہے جو شرعی طریقوں سے حاصل کیا گیا ہو اور طیب وہ رزق ہے جو غذا بخش اور نمو آفریں ہو باقی غیر نباتی جامد چیزیں جیسے کیچڑ مٹی وغیرہ اور وہ چیزیں جو غذا بخش نہیں ہیں صرف دوا کے لئے تو ان کو کھانا جائز ہے اور بغیر دوا کے مکروہ ہے۔ حَلاَلاً ۔ کُلُوْا کا مفعول ہے اور مِمَّا رَزْقَکُمْ حال ہے جس کو حلالاً کے نکرہ ہونے کی وجہ سے مقدم کردیا گیا ہے اور مِمَّا میں منتبعیضیہ ہے مما میں اس امر کی صراحت ہے کہ کچھ رزق حلال ہوتا ہے اور کچھ حلال نہیں ہوتا۔ اہل حق کا یہی قول ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ منابتدائیہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مِمَّا : مفعول ہو اور حلالاً حال ہو اور موصول کی طرف لوٹنے والی ضمیر محذوف ہو یا حلالاً کا موصوف محذوف ہو بہرحال ترکیب عبارت کچھ بھی قرار دی جائے اگر حرام کو رزق نہ کہا جائے (اور معتزلہ کے قول کو اختیار کیا جائے کہ حرام رزق نہیں ہوتا) تو پھر خصوصاً لفظ حلالاً : کو ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ واتقوا اللہ ” اور اللہ سے ڈرو یہ امر سابق کی تاکید ہے “۔ الذی انتم بہ مومنون جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ اس فقرہ میں مزید تاکید ہے کیونکہ تمام اوامرو نواہی میں تقویٰ کو ملحوظ رکھنا تقاضائے ایمان ہے۔ بغوی نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ شیرینی یا شہد رسول اللہ ﷺ کو مرغوب خاطر تھا۔ رواہ البخاری۔ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ : ﷺ کو سب سے زیادہ مرغوب روٹی کا ثرید اور دلیے کا ثرید تھا رواہ ابو داؤد۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ : ﷺ نے فرمایا کھانا کھا کر شکر ادا کرنے والا صابر روزہ دار کی طرح ہے۔ رواہ الترمذی۔ ابن ماجہ اور دارمی نے یہ حدیث سنان بن سنہ کی روایت سے بیان کی ہے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ جب آیت (لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتٍ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ ) نازل ہوئی تو صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم ان قسموں کا کیا کریں جو حلال چیزوں کے سلسلے میں ہم کھاچکے ہیں۔ صحابہ ؓ نے مذکورۂ بالا (تین) امور کو ترک کرنے کے متعلق آپس میں بقسم معاہدہ کرلیا تھا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top