Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 28
وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ١ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًاۚ
وَمَا لَهُمْ : اور نہیں ان کے لیے بِهٖ : ساتھ اس کے مِنْ عِلْمٍ ۭ : کوئی علم اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ ۚ : مگر گمان کی وَاِنَّ الظَّنَّ : اور بیشک گمان لَا : نہیں يُغْنِيْ : کام آتا مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا : حق سے کچھ بھی۔ کوئی چیز
حالانکہ ان کو اس کی کچھ خبر نہیں۔ وہ صرف ظن پر چلتے ہیں۔ اور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا
ومالھم بہ من علم ان یتبعون الا الظن وان الظن لا یغنی من الحق شیئا حالانکہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں۔ صرف بےاصل خیالات پر چل رہے ہیں اور بیشک بےاصل خیالات امر حق کے (اثبات) میں ذرا بھی مفید نہیں ہوتے۔ مَالَھُمْ بِہٖ : حالانکہ ان کو اس بات کا علم نہیں ہے۔ اِلاَّ الظَّنَّ : یعنی یہ جاہل کافر صرف گمان غالب پر جو تقلید آباء سے حاصل ہوا ہے چلتے ہیں یا ظن سے مراد ہیں بےاصل خیالات جن کی کوئی دلیل نہیں۔ حق سے مراد ہے علم (اصطلاح شرع میں) علم کا معنی ہے ایسا عقیدہ جو پختہ ‘ ناقابل رشک اور واقع کے مطابق (یعنی صحیح) ہو اور امر واقعی ہی کو حق کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ غالب گمان صحیح علم کے لیے مفید نہیں ہوتا ‘ یعنی جو ظن تقلید آباء وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے وہ اس علم کے قائم مقام نہیں ہوسکتا جو قطعی ‘ ناقابل شک دلیل سے حاصل ہوتا ہے۔ دلیل شرعی مسموع ہو یا عقلی برہان۔ اس لیے دانشمندوں کے لیے اتباع ظن جائز نہیں بلکہ یقین اور علم کی طلب لازم ہے۔ اِنَّ الظَّنَّ.... جملۂ معترضہ ہے اور کافروں کے اتباع ظن کرنے کی قباحت کو اس میں ظاہر کیا گیا ہے لیکن کافر تقلید آباء اور اتباع ظن میں چونکہ غرق تھے اور یہ صلابت خیال علامت تھی اس بات کی کہ وہ اتباع ظن کو علم کے قائم مقام جانتے ہیں اور ظن کے غیر مفید ہونے کے منکر ہیں اس لیے جملہ کو (لفظ اِنَّ سے) مؤکد کیا۔ ایک عظیم شبہ عملیات میں اتباع ظن شرعاً جائز ہے اکثر مسائل فقہیّہ کا استنباط ظنی دلائل سے ہی کیا جاتا ہے۔ نیز احادیث آحاد وغیرہ سے گزشتہ اقوام و انبیاء کے قصّے ‘ جنت کی نعمتوں اور دوزخ کی تکلیفوں کا بیان اور واقعات حشر کی : تفصیلیں بتائی گئی ہیں اگر ظن کو مفید علم نہ مانا جائے تو اکثر فقہی استنباط اور اوہام پارینہ کا بیان اور واقعات قیامت کا اظہار بیکار ہوجائے گا ‘ نہ ان کا سیکھنا ‘ سکھانا جائز ہوگا ‘ نہ ان پر عمل کرنا ‘ نہ ان کو بیان کرنا ‘ نہ ان پر عقیدہ رکھنا۔ ازالۂ شبہ اتباع ظن جائز نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ظن اس علم کے خلاف ہو جو دلیل قطعی یقینی سے حاصل ہوا ہو تو ایسے ظن کا اتباع ناجائز ہے۔ اس قسم کا ظن مفید علم نہیں ہوسکتا۔ علم قوی ہے اور ظن کا درجہ کمزور۔ باہم تقابل کے وقت ضعیف پر قوی کو ترجیح ضروری ہے۔ آیت کا مقتضی یہ ہے کہ جن یقینی قطعی عقائد کا ثبوت صحیح عقلی براہین یا آیات محکمات یا متواتر احادیث سے ہو رہا ہو ان کو ترک کرنا ‘ ان کے مخالف ظنیات کے پیچھے پڑجانا جائز نہیں۔ جہاں تک ممکن ہو قطعی دلائل سے علم حاصل کرنا واجب ہے لیکن اگر قطعی دلیل نہ مل سکے تو عقل فیصلہ کن ہوگی اور دلیل ظنی سے جو حکم مستفاد ہو (یا خبر معلوم ہو) اس پر احتیاطاً عمل کرنا واجب ہوگا۔ دلیل ظنی سے مراد ہے ایسی دلیل جو صحیح طریق سے غلبہ ظن پیدا کر دے۔ مثلاً دلیل ظنی سے ثابت ہوگیا ہے کہ وتر واجب ہے اور چاشت کی نماز سنت ہے اور بھنگ حرام ہے اور بیع کو اگر فاسد شرط کے ساتھ مشروط کردیا جائے تو ایسی بیع ممنوع ہے اور اس کے خلاف حکم دینے والی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے لہٰذا بنظر احتیاط عقل کا بالجزم فیصلہ ہے کہ وتر کو چھوڑا نہ جائے ‘ بھنگ نہ پی جائے۔ بشرط فاسد بیع نہ کی جائے اور بامید ثواب چاشت کی نماز پڑھی جائے کیونکہ جب تعمیل حکم میں ضرر نہ ہونے کا یقین ہو تو حصول نفع کا احتمال بھی اس حکم کی تعمیل کے لیے کافی ہے اور اگر مضرت کا احتمال ہو تو اس عمل سے پرہیز رکھنے کے لیے یہ احتمال بھی کافی ہے۔ کسی سوراخ میں سانپ کے موجود ہونے کا احتمال اس میں انگلیاں نہ ڈالنے کا موجب ہے۔ اگر کوئی قطعی دلیل معارض نہ ہو یعنی احادیث آحاد اور قیاس سے ٹکرانے والی کوئی بھی قطعی دلیل موجود نہ ہو تو جو حکم احادیث آحاد یا قیاس سے مستفاد ہو رہا ہے اس پر عمل کرنا اور تفقہ سے کام لینا ان احادیث سے بھی ثابت ہے جو باجماع امت متواتر المعنی ہیں اور قرآنی آیات سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : فلو لا نفر من کل فرقۃٍ منھم طائفۃٌ لیتفقھو فی الدین۔ دوسری آیت ہے : فاعتبروا یاولی الابصار۔ (تفقہ اور اعتبار کے معنی ہی قیاس کرنے کے ہیں) ۔ مسائل فقہیہ میں دراصل ظن طریق (استنباط) میں ہوتا ہے لیکن جب ظن کا صحیح ہونا ثابت ہوجائے تو پھر بدلیل قطعی اس پر عمل واجب ہے ‘ اسی طرح مبداء اور معاد کے متعلق جو خبریں اخبار آحاد میں آئی ہیں وہ اگرچہ ظنی ہیں لیکن تمام آحاد ہیں۔ یہ قدر مشترک ہے ‘ اتنی حد تک تو وہ قطعی اور موجب علم ہیں ‘ رہی ان کی تفصیل تو اگر زیادہ قوی دلیل یعنی نص قطعی سے اس کا تصادم نہ ہوتا ہو تو اس سے ترغیب و ترہیب کا استفادہ جائز ہے (کیونکہ اس صورت میں مؤعظت و نصیحت سے فائدہ حاصل ہونے کی امید ہے اور کسی نص کی مخالفت نہیں ہے) ‘ واللہ اعلم۔ بعض اہل تفسیر کا قول ہے کہ آیت میں حق سے عذاب مراد ہے (علم مراد نہیں ہے) اور الظن میں الف لام عہدی ہے یعنی کافروں کا ظن جو باپ دادا کی تقلید سے حاصل ہوا ہے یا ان کا خود تو ہم اور بےاصل خیال ہے وہ واقعی عذاب کو دفع نہیں کرسکتا۔
Top