Tafseer-al-Kitaab - Al-Furqaan : 72
وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ١ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًاۚ
وَمَا لَهُمْ : اور نہیں ان کے لیے بِهٖ : ساتھ اس کے مِنْ عِلْمٍ ۭ : کوئی علم اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ ۚ : مگر گمان کی وَاِنَّ الظَّنَّ : اور بیشک گمان لَا : نہیں يُغْنِيْ : کام آتا مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا : حق سے کچھ بھی۔ کوئی چیز
حالانکہ ان کو اس کا کچھ بھی علم نہیں وہ تو بس گمان پر چلتے ہیں اور گمان حق کے مقابلہ میں کسی کام نہیں آتا
علم نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں وہ ظن و گمان پر سارا کاروبار کرتے ہیں 28 ؎ افسانے بیان کرنے والے اور مفروضے تراشنے والے داستان گو جو کچھ کرتے ہیں سب کو معلوم ہے کہ ان کا تعلق علم سے نہیں بلکہ ظن و گمان سے ہوتا ہے۔ ظن و گمان کیا ہے ؟ یہ وہی کچھ ہے جس کو انکل پچو کے لفظ سے تعبیر کی اجاتا ہے۔ حقیقی علم کا سرچشمہ اللہ رب کریم کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم کا مظہر انبیاء و رسل ہیں جن کو بارگاہ صدی سے براہ راست علم و عرفان کی دولت عطا فرمائی جاتی ہے اور نبوت و رسالت کو یہ لوگ ماننے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں پھر یہی نہیں کہ ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ اس سے خواہ مخواہ کا برا ہے اور اس کو راستے سے ہٹانے کے درپے ہیں اور وہی الٰہی کے چشمہ علم و عرفان سے سیراب ہونے کے لئے نہ تو ان کو توفیق ہے اور نہ ہی اس کے لئے وہ تیار ہیں۔ ان کے پاس علم کی بجائے ظن وتخمین ہے اور اس گھوڑے کے وہ سوار ہیں اور وہم و گمان کے ریگ زاروں میں خاک اڑاتے اور گھوڑے دوڑاتے پھرتے ہیں۔ اس لئے زندگی کی بنیادی سچائیوں تک ان کی رسائی ہی نہیں ہے وہ آوارہ گرد ہیں اور آوارہ گردی ہی کو پسند کرتے ہیں اسی میں ان کے پہلوئوں نے عمریں کھپائی ہیں اور اسی میں وہ خود کھپ رہے ہیں۔ پہلوں کی عمر بھی اسی طرح برباد ہوئی اور ان کی بھی ہو رہی ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ اللہ رب کریم کا اصول بھی یہ ہے کہ جو بندہ ہی یابندہ ہوتا ہے جو تلاش نہیں کرتا اس کو کبھی نہیں ملتا اور اس طرح جو شخص جس کی تلاش کرتا ہے وہ کچھ اس کو ملتا ہے یہ لوگ جس غلط فہمی میں مبتلا ہیں اس سے نکلنے کی نہ کبھی انہوں نے کوشش کی اور نہ ہی یہ نکل سکیں گے۔ ظن وتخمین حق کا مقابلہ نہ پہلے کبھی کرسکا اور نہ ہی آئندہ کبھی کرے گا۔ پھر آزمودہ را آزمو ون جہل است کے تحت ان کے پیچھے پڑھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنا کام اپنے منہ و دھیان کرنے کی ضرورت ہے جس کو طلب ہوگی وہ خود اس علم کی طرف متوجہ ہوگا۔ خیال رہے کہ یہ ظن و گمان اور انکل پچو اور وہمی مفروضے خالصتاً دنیوی زندگی کے لئے کارآمد ہیں کہ لگ گیا تو تیر ورنہ تکہ۔ اس لئے دنیوی زندگی کے لئے ان سے کام لینے کی نہ تو ممانعت ہے اور نہ ہی کوئی ناجائز اور حرام ہے بلکہ مے نویس و مے نویس و مے نویس ہی ہوتا ہے اور اس کو آج کل کی زبان میں Try Try Again کا نام دیا جاتا ہے لیکن عقیدہ ٔ آخرت کی مضبوطی کے لئے خالصتاً اس روحانی علم کی ضرورت ہے جو انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) ہی کے ذریعہ سے اللہ نے اپنے بندوں تک پہنچایا ہے اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) نے دنیوی ترقیوں اور ایجادات کے خلاف کبھی اشارہ تک بھی نہیں کیا بلکہ ان کو اچھی نگاہ سے دیکھا ہے ‘ ان کی ترغیب دی ہے اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگر کہیں ظن و گمان اور وہمی مفروضوں کی مذمت کی ہے تو وہ وہی ہے جہاں ان وہمی مفروضوں کو آخرت کے اعمال میں دخل انداز ہوتے یا کرتے دیکھا ہے کیونکہ آخرت کے معاملات میں حقیقی علم سے کام لینے کی ہدایت کے لئے ہی تو انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا دنیوی زندگی کی نئی نئی ایجادات کی طاقت و قوت جو انسان کے ساتھ ودیعت کی گئی ہے اس کا ذکر کہیں کہیں انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) کی تعلیم میں تذکر تاً کیا گیا ہے اور یہی بات قرآن کریم میں اختیار کی گئی ہے کہ جو کچھ بیان کیا ہے محض اشارات و استعارات میں کیا ہے تاکہ ہر دور کا انسان اپنی اپنی بساط کے مطابق جدوجہد جاری رکھتے ہوئے ان استعارات و اشارات سے کام لے کر اپنی دنیوی زندگی کے سنوارنے میں جدوجہد کرتا رہے اور آخرت کو سنوارنے کے لئے علوم الٰہی کی پیروی میں کے جو کچھ کرے تاکہ اس طرح اس کی دنیوی زندگی بھی سنورے اور آخرت کی زندگی بھی اور اسی نظریہ کے مطابق ہدایت دیئے ہوئے اپنی طلب اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی ہدایت فرمائی کہ اللہ سے اپنی طلب اس طرح مانگوں ۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ و فی الاخرۃ وحسنۃ وقنا عذاب النار۔
Top