Tafseer-e-Madani - An-Najm : 28
وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ١ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًاۚ
وَمَا لَهُمْ : اور نہیں ان کے لیے بِهٖ : ساتھ اس کے مِنْ عِلْمٍ ۭ : کوئی علم اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ ۚ : مگر گمان کی وَاِنَّ الظَّنَّ : اور بیشک گمان لَا : نہیں يُغْنِيْ : کام آتا مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا : حق سے کچھ بھی۔ کوئی چیز
حالانکہ ان کو اس بارے میں کچھ بھی علم نہیں ایسے لوگ تو محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان یقینی طور پر حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا
[ 35] علم حق سے محرومی، محرومیوں کی محرومی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو اس بارے کچھ بھی علم نہیں، سوائے ظن وتخمین اور اٹکل پچو باتوں کے۔ یہاں پر اس ارشاد کی تعیم ملاحظہ ہو کہ اول تو یہاں نکرہ تحت النفی وارد ہوا ہے جو کہ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ پھر من استغراقیہ سے اس کی مزید تاکید و استغراق کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، یعنی ان لوگوں کے پاس اپنی اس بات کیلئے کسی بھی طرح کا علم نہیں اور کوئی علم ہو بھی کیسے سکتا ہے، جب کہ واقع میں اللہ پاک کیلئے بیٹیاں یا اولاد ہونے کا سرے سے کوئی سوال و امکان ہی نہیں، وہ اس سے لحاظ و اعتبار سے پاک ہے۔ { یاہل الکتب لاتغلوا فی دینکم ولا تقولوا علی اللّٰہ الا الحق ط انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللّٰہ وکلمتہٗ ج القھا الیٰ مریم وروحٌ منہ فامنوا باللّٰہ ورسلہٖ ج ولا تقولوا ثلثۃٌ ط انتھوا خیرًا لکم ط انما اللّٰہُ الہٌ واحدٌ ط سبحنہٗ ان یکون لہ ولدٌ ما فی السمٰوٰت وما فی الأرض ط وکفیٰ باللّٰہِ وکیلاً ۔ [ سورة النسائ : 171 پ 6] یعنی وہ اس سے پاک ہے کہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو اور ولد کا لفظ بیٹا اور بیٹی دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس لفظ کے معنی ہوتے ہیں کل مایولد یعنی جو بھی اولاد ہو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ سو ان کے پاس علم کی کوئی اساس و بنیاد نہیں، یہ لوگ تو اپنی خواہشات کی پیروی کے لئے محض اٹکل پچو باتوں کا سہارا لیتے اور ظن و گمان کے تیر تکے چلاتے ہیں، اور یہ نہیں جانتے کہ اس طرح یہ اپنا نقصان کرتے ہیں، اور اتنا نقصان کہ اس کی پھر تلافی وتدارک کی کوئی صورت بھی ان کیلئے ممکن نہ ہوگی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو اللہ تعالیٰ اولاد کے ہر تصور سے پاک اور اس سے کہیں اعلیٰ وبالا ہے۔ اور جو لوگ اس کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں وہ سراسر جھوٹ بولتے اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے تصریح فرمائی گئی ہے اور حرف تنبیہ کے ساتھ تصریح فرمائی گئی۔ { الا انھم من افکہم لیقولون۔ ولد اللّٰہُ وانھم لکاذبون } [ الصّٰفّٰت : 151-152] یعنی خبردار یہ لوگ اپنے جھوٹ اور افتراء پر کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے اور یہ لوگ قطعی طور پر جھوٹے ہیں۔ سو علم حق کی روشنی سے محرومی، محرومیوں کی محرومی ہے، کیونکہ ایسا شخص اندھیروں میں ڈوب کر رہ جاتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب۔ [ 36] منکرین کی ظن وتخمین کی پیروی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور اندازہ حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ تو محض گمان کی پیروی کرتے ہیں۔ یعنی ان لوگوں کے پاس ظن وتخمین اور محض وہم و گمان کے سوا اور کوئی اصل و اساس اپنے اس طرح کے عقائد و نظریات کیلئے سرے سے موجود ہی نہیں۔ اور طاہر ہے کہ اس طرح کی من گھڑت اور خود ساختہ خیالات کی کوئی اساس و بنیاد ہی کیسے سکتی ہے ؟ اور یہی حال دور حاضر کے اہل بدعت اور دوسرے باطل پرستوں کا ہے کہ ان کی گاڑی بھی ظن وتخمین اور اٹکل پچو کے پہیوں ہی پر چلتی ہے، کہ دیکھو ناں جی یہ ہستیاں جن کو ہم پوجتے پکارتے ہیں، یہ کوئی معمولی ہستیاں نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کی محبوب اور پیاری ہستیاں اور بڑی پہنچی ہوئی سرکاریں ہیں، ان کو خاص اختیارات ملے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے، کیونکہ وہ ہماری سنتا نہیں اور ان کی رد نہیں کرتا، وغیرہ وغیرہ، اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے ظن و گمان کو سب سے بڑا جھوٹ [ اکذب الحدیث ] قرار دے کر اس سے بچنے کی تعلیم و تلقین فرمائی، جیسا کہ مشہور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث [ خبر دار ظن و گمان سے بچ کر رہنا کہ ظن و گمان سب سے بڑا جھوٹ ہے ] اس کے علاوہ اور بھی کئی ارشادات موجود ہیں، مگر آج کا جاہل مسلمان اس سے سب کے باوجود اسی مرض میں مبتلا ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ ان لوگوں کے اس شرکیہ افسانے اور ان دیو مالائی خرافات کی بنیاد کسی علم و آگہی پر نہیں بلکہ محض ظن وتخمین پر ہے، اور انہی بےبنیاد سہاروں کے آسرے پر یہ لوگ نچنت اور بےفکر ہو کر اپنی ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، بکل حال من الاحوال، [ 37] ظن وتخمین کی بےحقیقتی کا اظہار وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ ظن و گمان یقینا حق کی جگہ کچھ کام نہیں دے سکتا۔ کہ گمان اور ظن و ٹکمین کی کوئی حقیقی اور ٹھوس بنیاد ہوتی ہی نہیں، اور نہ ہو ہی سکتی ہے، کہ وہ تو محض اندازوں اور تخمینوں کی بیساکھیوں کے سہاروں پر قائم ہوتا ہے، تو وہ حق کے لئے سند اور دلیل کس طرح بن سکتا ہے ؟ اور ان نادانوں کو اس کی خبر نہیں کہ اٹکل بہرحال اٹکل ہے، یہ کسی بھی طرح اور کسی بھی درجے میں حق اور حقیقت کا بدل نہیں ہوسکتی، اٹکل پچو کے تیر تکے چلانے کی کوئی انتہاء نہیں ہوگی، مگر بےوقت کے اس پچھتاوے سے ان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا، سوائے یاس و حسرت میں اضافے کے۔ والعیاذ باللّٰہ یہاں پر حقیقت بھی واضح رہنی چاہئے کہ ظن کا لفظ یہاں پر علم کے مقابل کی حیثیت سے بھی استعمال ہوا ہے اور حق کے مقابل حیثیت سے بھی اور انسان کو علم اس کی عقل و فطرت کی راہ سے بھی ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے ذریعے بھی اور جو علم وحی کے ذریعے ملتا ہے اور الہدی کا مصداق اور ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں پر اس کو حق سے تعبیر فرمایا گیا۔ سو ظن وتخمین سراسر باطل اور بنیادی چیز ہے۔ نہ اس کی تائید میں عقل و فطرت کی کوئی گواہی موجود ہوتی ہے اور وحی و دین کی کوئی شہادت۔ قرآن حکیم نے یہاں پر { ومالہم بہٖ من علمٍ } کی تصریح سے واضح فرماد یا کہ مشرکین کی یہ سب دیومالا بالکل من گھڑت اور بےبنیاد افسانہ ہے، اس کی نہ کوئی اصل ہے نہ اساس، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے اور ہمیشہ راہ حق و صواب پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، جل شانہ وعم نوالہ،
Top