Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 28
وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ١ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًاۚ
وَمَا لَهُمْ : اور نہیں ان کے لیے بِهٖ : ساتھ اس کے مِنْ عِلْمٍ ۭ : کوئی علم اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ ۚ : مگر گمان کی وَاِنَّ الظَّنَّ : اور بیشک گمان لَا : نہیں يُغْنِيْ : کام آتا مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا : حق سے کچھ بھی۔ کوئی چیز
، حالانکہ اس باب میں ان کو کوئی علم نہیں، وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور گمان کسی درجے میں بھی حق کا بدل نہیں ،
(وما لھم بہ من علم ان یتبعون الا الظن وان الظن لا یغنی من الحق شیاء) (28) (شرک کی تمام تر بنیاد ظن پر ہے)۔ فرمایا کہ آخرت کی ذمہ داریوں سے اپنے کو بچانے کے یلے انہوں نے یہ افسانہ ایجاد تو کر ڈالا لیکن اس کی بنیاد کسی علم پر نہیں، بلکہ محض ظن پر ہے۔ محض اپنی خواہش نفس کو حقیقت بنانے کے لیے یہ اٹکل کے تیر تکے چلائے گئے ہیں۔ ان نادانوں کو خبر نہیں کہ اٹکل بہر حال اٹکل ہے، یہ حق و حقیقت کا بدل کسی درجے میں نہیں ہو سکتی۔ جب حقیقت ظاہر ہوگی تب ان کو پتہ چلے گا کہ یہ عمر بھر محض خواب دیکھتے رہے ہیں۔ (ظن اور علم میں فرق)۔ لفظ ظن آیت 23 میں الھدی کے مقابل میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ علم کے مقابل کی حقیقت سے بھی استعمال ہوا ہے اور حق کے مقابل کی حیثیت سے بھی، علم انسان کو اس کی فطرت اور عقل کی راہ سے بھی حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی سے بھی، جو علم اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے وہ دراصل الھدی کا درجہ رکھتا ہے اس لیے کہ وہ ہر شبہ سے بالا تر ہوتا ہے چناچہ یہاں اس کو حق سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جس بات کے حق میں نہ فطرت اور عقل کی گواہی موجود ہو نہ وحی کی شہادت وہ سر تا سرظن ہے اور یہ بالکل باطل ہے۔ قرآن نے یہاں وما لھو بہ من علمہ فرما کر ان مشرکین کے اس ساری دیو مالا کو علم کے ہر سہارے سے محروم، ایک بالکل من گھڑت فساد قرار دیا ہے، یعنی (اس کی تائید میں ان کے پاس عقل کی کوئی دلیل ہے اور نہ وحی کی، اہل عرب اس حقیت سے اچھی طرح واقف تھے کہ جس بات کے حق میں کوئی دلیل نہ ہو وہ علم نہیں بلکہ ظن ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ ایک شاعر نے ظن اور علم کے اس فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (واعلم علما لیس بالظن انہ) (اور میں ایک علم پر مبنی بات جانتا ہوں جو ظن نہیں کہ۔۔۔۔) لفظ ظن کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ہم آیت (انی ظنت انی ملق حسابیہ) (الحاقۃ : 20) کے تحت کریں گے۔
Top