Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 5
فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ
فَاَمَّا : تو رہے ثَمُوْدُ : ثمود فَاُهْلِكُوْا : پس وہ ہلاک کہے گئے بِالطَّاغِيَةِ : اونچی آواز سے
سو ثمود تو کڑک سے ہلاک کردیئے گئے
فاما ثمود فاھلکوا بالطاغیۃ . یہ جملہ کذبت پر معطوف ہے۔ فاء سببی ہے اور اما سے مجمل کی تفصیل کی گئی ہے۔ اصل کلام یوں تھا کہ ثمود و عاد نے قیامت کی تکذیب کی۔ اس لیے تباہ کردیئے گئے۔ ثمود تو طاغیہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ طاغیہ غیر معمولی چیخ سے بالاتر۔ قتادہ نے یہی فرمایا ‘ یہی صحیح بھی ہے۔ صورت یہ ہوئی کہ حضرت جبرئیل نے ایک اتنی بلند چیخ ماری کہ سب مر کر رہ گئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آسمان کی طرف سے ایک ایسی چیخ پیدا ہوئی تھی جس میں ہر تڑک ہر کڑک اور ہر زمینی چیز کی آواز تھی ‘ جس سے سینوں کے اندر دل پارہ پارہ ہوگئے۔ بعض نے کہا کہ طاغیۃٌ عافیۃٌ کی طرح مصدر ہے۔ طغیان کا ہم معنی ہے۔ یعنی ثمود اپنے طغیان (گناہوں میں حد سے آگے بڑھ جانے) کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ پیغمبر کی تکذیب کی ‘ اونٹنی کو قتل کیا ‘ وغیرہ۔ یہ بھی کہا گیا کہ طاغیۃ میں تاء مبالغہ کی ہے ‘ بڑا سرکش اس سے مراد ہے۔ حضرت صالح کی اونٹنی کا قاتل قذار بن سالف۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ (طاغیۃ میں تاء تانیث ہے اور) اس سے مراد وہ جماعت ہے جس نے اونٹنی کے قتل پر اتفاقِ رائے کر کے قذار کو اس فعل پر آمادہ کیا تھا۔ یہی جماعت سب قوم کی تباہی کا سبب بنی۔ قصہ یوں ہوا کہ ثمود کی ہدایت کے لیے اللہ نے حضرت صالح کو مامور فرمایا۔ حضرت صالح نے احکام الٰہی کی دعوت دی۔ لوگوں نے انکار کیا اور درخواست کی کہ (بطور معجزہ) ایک دس ماہ کی حاملہ اونٹنی پتھر کی چٹان سے برآمد کرو ‘ اگر ایسا ہوگیا تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ صالح ( علیہ السلام) نے دعا کی۔ آپ کی دعا سے ایک بڑی قد آور اونٹنی جس کی چوڑائی کا قطر ایک سو بیس ہاتھ تھا اور دس ماہ کی گابھن تھی ‘ پتھر کی چٹان سے برآمد ہوئی اور فوراً ہی ایک بچہ بیاہ گئی جو اسی کی طرح تھا لیکن لوگوں نے تب بھی آپ کی نبوت کا یقین نہیں کیا اور کہنے لگے : یہ جادو ہے۔ اللہ نے اس اونٹنی کو ان کے لیے عذاب بنا دیا۔ اس خطہ میں پانی کم تھا۔ ایک روز تمام پانی اونٹنی پی جاتی تھی اور ایک روز ان کیلئے چھوڑ دیتی تھی۔ گھاس کی بھی یہی صورت تھی۔ آخر ایک جماعت نے اونٹنی کو قتل کرنے پر اتفاق کرلیا اور سب سے بڑے بدبخت یعنی قذار بن سالف کو قتل پر مامور کیا۔ سب نے اونٹنی کو قتل کردیا اور اللہ سے سرکشی کرنے میں حد سے بڑھ گئے اور حضرت صالح سے کہنے لگے : اگر تو سچا ہے تو جس عذاب کی تو ہم کو دھمکی دیتا ہے اس کو لے آ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا : تین روز تک اپنے گھروں میں مزے اڑا لو۔ پہلے روز تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے۔ دوسرے روز سرخ اور تیسرے روز سیاہ ‘ پھر چوتھے روز صبح کو تم پر عذاب آجائے گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ ایک چیخ نے ان ظالموں کو آپکڑا اور گھروں میں زمین پر چپکے رہ گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہاں بستی ہی نہ تھی۔ یہ تاویل یعنی طاغیہ کو مصدر کہنا یا جماعت مراد لینا یا صرف قذار مراد لینا اور تاء کو مبالغہ کے لیے قرار دینا آئندہ آیت کے مناسب نہیں کیونکہ آئندہ آیت میں فرمایا ہے : فاھلکوا بریح کہ عاد کو طوفان ہوا سے ہلاک کیا گیا (یعنی ذریعہ ہلاکت بیان فرمایا ہے باعث ہلاکت نہیں فرمایا۔ پس طاغیہ سے مراد بھی ذریعہ ہلاکت یعنی ہولناک چیخ ہونی چاہیے) ۔
Top