Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ١٘ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّبِعُوْنَ : پیروی کرتے ہیں الرَّسُوْلَ : رسول النَّبِيَّ : نبی الْاُمِّيَّ : امی الَّذِيْ : وہ جو۔ جس يَجِدُوْنَهٗ : اسے پاتے ہیں مَكْتُوْبًا : لکھا ہوا عِنْدَهُمْ : اپنے پاس فِي : میں التَّوْرٰىةِ : توریت وَالْاِنْجِيْلِ : اور انجیل يَاْمُرُهُمْ : وہ حکم دیتا ہے بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی وَيَنْهٰىهُمْ : اور روکتا ہے انہیں عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَيُحِلُّ : اور حلال کرتا ہے لَهُمُ : ان کے لیے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَيُحَرِّمُ : اور حرام کرتا ہے عَلَيْهِمُ : ان پر الْخَبٰٓئِثَ : ناپاک چیزیں وَيَضَعُ : اور اتارتا ہے عَنْهُمْ : ان کے بوجھ اِصْرَهُمْ : ان کے بوجھ وَالْاَغْلٰلَ : اور طوق الَّتِيْ : جو كَانَتْ : تھے عَلَيْهِمْ : ان پر فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ اٰمَنُوْا بِهٖ : ایمان لائے اس پر وَعَزَّرُوْهُ : اور اس کی رفاقت (حمایت کی) وَنَصَرُوْهُ : اور اس کی مدد کی وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی النُّوْرَ : نور الَّذِيْٓ : جو اُنْزِلَ : اتارا گیا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں
الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندہم فی التورۃ والانجیل یامرہم بالمعروف وینہہم عن المنکر ویحل لہم الطیبت ویحرم علیہم الخبآئث . جو لوگ اتباع کرتے ہیں اس رسول نبی امی کا جس (کے صفات و احوال) کو وہ اپنے پاس انجیل و توریت میں لکھا ہوا پاتے ہیں جو ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں کی ممانعت کرتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال بتاتا ہے اور گندی چیزوں کو (بدستور) ان پر حرام قرار دیتا ہے۔ الذین یتبعون مبتداء ہے یَاْمرہمخبر ہے یا مبتدا محذوف ہے اور الذینخبر ہے یعنی وہ وہی لوگ ہیں جو اتباع کرتے ہیں۔ الرسول النبی یعنی اللہ کا پیغمبر اور بندوں کے لحاظ سے نبی الامی مراد رسول اللہ ﷺ ۔ امی ام (ماں) کی طرف منسوب ہے یعنی اسی حالت پر ہے جس حالت پر پیدائش کے وقت تھا مطلب یہ کہ نہ لکھا ہے نہ پڑھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم امی گروہ ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب داں ہیں۔ رواہ البخاری و مسلم عن ابن عمر۔ امی کا وصف ذکر کرنے سے اس بات پر تنبیہ فرمائی کہ باوجودیکہ محمد ﷺ لکھے پڑھے نہیں اس حالت میں ان کا علمی کمال اعلیٰ ترین معجزہ ہے۔ بعض علماء نے کہا امی امت کی طرف منسوب ہے آپ کی امت کثیر ہونے والی تھی اس لئے آپ کو امی فرمایا۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ : ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میرے تابع تمام انبیاء سے زائد ہوں گے میں ہی سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ رواہ مسلم۔ امی اصل میں امتی تھا نسبت کی وجہ سے تاء کو حذف کردیا جیسے مکی اور مدنی میں تاء کو حذف کردیا گیا ہے (مکی مکتی تھی اور مدنی مدینتی) بعض کے نزدیک امی ام القری کی طرف منسوب ہے یعنی مکہ کے رہنے والے اس آیت کی وجہ سے وہ بنی اسرائیل حکم آیت سے خارج ہوگئے جنہوں نے رسول اللہ : ﷺ کا دور نبوت پایا اور ایمان نہ لائے مگر وہ بنی اسرائیل حکم میں داخل رہے جنہوں نے حضور : ﷺ کا عہد رسالت پایا ہی نہیں اور آپ کی نبوت سے پہلے ہی گزر گئے کیونکہ آیت میں صاف صراحت ہے کہ (ما تفرق الذین اوتوا الکتاب الا من بعد ما جاء تہم البینہ) ۔ ابن حبان نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر نبی کے لئے نور کا ایک ممبر ہوگا اور میں سب سے اونچے اور سب سے زیادہ نور والے ممبر پر متمکن ہوں گا کہ ایک منادی ندا دے گا نبی ﷺ امی کہاں ہے۔ انبیاء کہیں گے ہم میں سے ہر ایک نبی امی ہے (یعنی امت والا ہے) پھر کس کے پاس پیام آیا ہے منادی دوبارہ لوٹ کر آئے گا اور کہے گا نبی ﷺ امی عربی کہاں ہے اس پر محمد ﷺ (ممبر سے) اتر کر آئے گا اور جنت کے دروازہ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹائے گا دریافت کیا جائے گا کون ہے جواب ملے گا محمد ﷺ اور احمد ﷺ دریافت کیا جائے گا کیا بلایا گیا تھا جواب ملے گا ہاں دروازہ کھول دیا جائے گا اور رب جلوہ انداز ہوگا اس سے پہلے جلوہ انداز نہ ہوگا۔ تجلی پڑتے ہی محمد ﷺ سجدہ میں گرپڑے گا اور اس طرح سے اللہ کی حمد کرے گا کہ کسی نے نہ کی ہوگی حکم ہوگا سر اٹھا بات کر اور شفاعت کر تیری شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امی کا لفظ امت کی طرف منسوب ہے اسی لئے ہر پیغمبر اپنے کو امی کہے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے لئے لفظ امی کی خصوصیت اس لئے ہوگئی کہ آپ کی امت ہر پیغمبر کی امت سے زیادہ ہے (بڑی امت والا) یجدونہجس کو بنی اسرائیل پاتے ہیں۔ مکتوبًا لکھا ہوا نام بھی اور خصوصی اوصاف بھی۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسول اللہ : ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوگیا رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اس کا باپ اس کے سرہانے توریت پڑھ رہا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہودی میں تجھے اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ ( علیہ السلام) پر توریت اتاری تھی اور پوچھتا ہوں کیا تجھے توریت میں میرے اوصاف حالات اور مقام خروج (بعثت) کا ذکر ملتا ہے یہودی نے کہا نہیں لیکن اس لڑکے نے کہا کیوں نہیں (ضرور موجود ہے) خدا کی قسم یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ کے اوصاف خصوصیات اور مقام خروج کا ذکر توریت میں پاتے ہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ آپ اللہ کے رسول ہیں رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ ؓ سے) فرمایا اس (یہودی) کو اس کے سرہانے سے اٹھا دو اور اپنے بھائی کی خود کفالت کرو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ فلاں یہودی کی رسول اللہ ﷺ پر کچھ اشرفیاں قرض تھیں اس نے حضور ﷺ پر تقاضا کیا حضور ﷺ نے فرمایا میرے پاس (اس وقت) کچھ نہیں ہے کہ میں دے سکوں یہودی بولا محمد ﷺ جب تک دے نہ دو گے میں تم کو نہیں چھوڑوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو میں تمہارے پاس بیٹھا رہوں گا چناچہ آپ اس کے پاس بیٹھ گئے اور (وہیں) حضور ﷺ نے ظہر ‘ عصر ‘ مغرب ‘ عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھیں۔ صحابہ کرام ؓ یہودی کو دھمکانے لگے اور کچھ وعدے کرنے لگے صحابہ کی حرکت کو رسول اللہ ﷺ سمجھ گئے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ایک یہودی آپ کو روکے ہوئے ہے (ہم سے یہ بات برداشت نہیں ہوتی) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے میرے رب نے حق تلفی کرنے سے منع فرمایا دیا ہے۔ کسی معاہد کی ہو یا غیر معاہد کی۔ جب دن چڑھ گیا تو (اچانک یہودی بولا میں شہادت دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ ﷺ بلاشبہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور میرا آدھا مال اللہ کے لئے (وقف) ہے۔ خدا کی قسم میں نے جو معاملہ آپ کے ساتھ کیا وہ صرف اس وجہ سے کیا کہ میں نے توریت میں دیکھا تھا محمد بن عبداللہ ﷺ کی پیدائش مکہ میں ہوگی اور طیبہ اس کا مقام ہجرت ہوگی اس کی حکومت شام میں ہوگی وہ بدخو درشت مزاج نہ ہوگا۔ بازاروں میں چیخ و پکارنہ کرے گا فحش کلام اور بےحیائی کی باتیں نہیں کرے گا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں یہ میرا مال موجود ہے آپ جیسا مناسب ہو اس میں تصرف کریں۔ یہ یہودی بڑا مالدار تھا۔ مذکورۂ بالا دونوں حدیثیں بیہقی نے دلائل النبوۃ میں بیان کی ہیں۔ عطاء بن یسار کا بیان ہے میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا مجھے رسول اللہ ﷺ کے وہ اوصاف بتائیے جن کا ذکر توریت میں آیا ہے فرمایا اچھا خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ کی جو صفات قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں ان کا کچھ حصہ توریت میں بھی ذکر کیا گیا ہے توریت میں آیا ہے۔ اے نبی ہم نے تجھ کو (حق و باطل کی) شہادت دینے والا (نیکوں کو جنت کی) خوشخبری دینے والا (نافرمان کافروں کو دوزخ سے) ڈرانے والا اور امیوں (یعنی عربوں) کا محافظ بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ ہے میرا رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے جو بدخو درشت مزاج نہ ہوگا بازاروں میں پکارتا غل مچاتا نہ پھرے گا۔ برائی کو برائی سے دفع نہیں کرے گا بلکہ عفو اور مغفرت سے کام لے گا ہم اس کی روح اس وقت تک قبض نہ کریں گے جب تک اس کے ذریعہ سے ٹیڑھی امت کو سیدھا نہ کردیں گے یعنی جب تک لوگ لا الہ الا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں گے ہم اس کے ذریعہ سے اندھی آنکھوں کو بہرے کانوں کو اور بند دلوں کو کھول دیں گے۔ رواہ البخاری۔ دارمی نے حضرت عبداللہ بن سلام کی روایت بھی اسی جیسی نقل کی ہے۔ حضرت کعب احبار نے توریت سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہم (توریت میں) لکھا ہوا پاتے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ میرا منتخب بندہ ہوگا۔ درشت خو بدمزاج نہ ہوگا بازاروں میں شوروغل نہیں کرے گا۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گا بلکہ معاف کر دے گا اور بخش دے گا۔ اس کی پیدائش مکہ میں ہجرت طیبہ میں اور حکومت شام میں ہوگی اس کی امت بکثرت حمد کرنے والی ہوگی دکھ سکھ ہر حال میں اللہ کی حمد کرے گی ہر فرود گاہ میں حمد کرے گی اور ہر ٹیلہ پر تکبیر کہے گی وہ لوگ سورج (کے طلوع غروب اور چڑھاؤ اتار) کو تکتے رہیں گے۔ جب نماز کا وقت آئے گا تو نمازیں پڑھیں گے وہ وضو میں ہاتھ پاؤں دھوئیں گے۔ ان کا مؤذن خلاء ‘ سماوی میں (یعنی منارہ پر چڑھ کر) اذان دے گا۔ ان کے میدان قتال کی صف بندی اور نماز کی صف بندی ایک ہی طرح کی ہوگی رات میں ان کی (نمازوں کی) گونج ایسی ہوگی جیسی شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ۔ رواہ البغوی فی معالم التنزیل۔ وذکرہ فی المصابیح۔ دارمی نے بھی یہ حدیث کسی قدر تغیر کے ساتھ نقل کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا توریت میں محمد ﷺ کے اوصاف لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ عیسیٰ بن مریم کو ان کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔ رواہ الترمذی۔ ابوداؤد نے کہا حجرہ میں ایک قبر کی جگہ چھوٹی ہوئی ہے۔ یامرہم بالمعروف یعنی ان باتوں کا حکم دیتا ہے جو شریعت الٰہیہ میں اچھی بتائی گئی ہیں دینہہم عن المنکر یعنی ان باتوں کی ممانعت کرتا ہے جو شرع ‘ عقل سلیم اور سنجیدہ غیر جذباتی ہوش رکھنے والوں کے نزدیک بری ہیں جیسے شرک۔ محسن کی ناشکری اور نافرمانی۔ قرابت داروں سے رشتہ قرابت کو توڑ لینا۔ ویحل لہم اور بنی اسرائیل کے لئے حلال کرتا ہے۔ الطیباتوہ پاکیزہ چیزیں جو نافرمانی کی سزا میں توریت کے اندر ان کے لئے حرام کردی گئی تھیں جیسے چربی اور اونٹ کا گوشت اور ان چیزوں کو بھی حلال کرتا ہے جو اہل جاہلیت نے خود اپنے لئے حرام قرار دے رکھی تھیں جیسے بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ ‘ حام (ان چاروں اقسام کے اونٹوں کی تفصیل کئی جگہ گزر چکی ہے) ویحرم علیہم الخبائث اور گندی چیزوں کو ان کیلئے حرام کرتا ہے۔ جیسے خون ‘ شراب ‘ خنزیر ‘ مردار ‘ سود ‘ رشوت۔ ویضع عنہم اصرہم والاغلل التی کانت علیہم اور ان پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتا ہے (یعنی اتار پھینکتا ہے) اصرلغت میں اس بوجھ کو کہتے ہیں جو حرکت کرنے سے روک دے۔ حضرت ابن عباس ؓ ‘ حسن ‘ ضحاک ‘ سدی اور مجاہد کے نزدیک اصر سے مراد وہ عہد ہے جو بنی اسرائیل سے توریت کے کل احکام کی پابندی رکھنے کے لئے لیا گیا تھا۔ قتادہ کے نزدیک وہ دینی تشدد مراد ہے جس کے بنی اسرائیل مکلف تھے۔ والاظل یعنی وزنی بار جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں تھے جیسے توبہ قبول ہونے کے لئے قتل کئے جانے کا ضروری حکم۔ گناہ کرنے والے عضو کو کاٹ ڈالنے کا حکم ‘ کپڑے پر نجاست لگ جائے تو اس کو قینچی سے قطع کردینے کا حکم قتل عمداً ہو یا خطاً بہرحال قصاص کا وجوبی حکم اور خون بہا لینے دینے کی ممانعت ‘ سینچر کے دن کوئی دنیوی کام نہ کرنے کا حکم ‘ گرجا کے علاوہ کہیں اور کسی جگہ نماز کی ادائیگی نہ ہونے کا حکم یہ اور اسی طرح کے دوسرے سخت احکام تھے جو طوق کی طرح یہودیوں کی گردنوں میں پڑے ہوئے تھے۔ فالذین امنوا بہ عزروہ ونصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ہم المفلحون . سو جو لوگ اس (نبی امی) پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے ایسے ہی لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔ عزروہ اس کی تعظیم کی ‘ یعنی قوت پہنچا کر (اس کی عملی) تعظیم کی۔ ونصروہ اور دشمنوں کے خلاف اس کی مدد کی۔ النور یعنی قرآن مجید۔ مَعَہٗیعنی اس کی نبوت کے ساتھ جو قرآن بھیجا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔ قرآن کو نور کہنے کی وجہ یہ ہے کہ (نور اس چیز کو کہتے ہیں جو خود بالکل ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو بھی ظاہر کردینے والی ہو) قرآن اپنے معجزہ ہونے کی وجہ سے خود ظاہر الصداقت ہے اور اس کا کلام اللہ ہونا پوشیدہ نہیں ہے اور (افکارو اعمال کو روشن کرنے والے) احکام کو ظاہر کرنے والا بھی ہے یا یوں کہا جائے کہ قرآن حقائق کے چہرہ سے پردہ اٹھا دینے والا ہے اس لئے اس کو نور کہا گیا۔ مَعَہٗکا تعلق اتبعوا سے ہو (انزل سے نہ ہو) اس وقت یہ مطلب ہوگا کہ نازل شدہ نور یعنی قرآن کا بھی اتباع کرو اور نبی کا بھی اتباع کرو قرآن اور سنت دونوں کی پیروی کرو۔ المفلحون یعنی ابدی فلاح پانے والے اور لازوال دائمی رحمت سے سرفراز ہونے والے۔ المفلحونتک حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی دعا کا جواب تھا۔ نوف بکائی حمیری کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستّر آدمی چھانٹے پھر اللہ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے فرمایا میں تم لوگوں کے لئے تمام زمین کو عبادت گاہ اور پاک قرار دوں گا جہاں نماز کا وقت ہوجائے تم نماز پڑھ سکو گے ہاں پاخانہ یا غسل خانہ یا قبر کے پاس پڑھنے کی ممانعت ہوگی اور تمہارے دلوں میں ٹھہراؤ (اطمینان ایمانی) پیدا کردوں گا تم تہ دل سے (یعنی حفظ) توریت پڑھا کرو گے مرد عورت آزاد غلام چھوٹا بڑا ہر شخص توریت حفظ کرے گا۔ حضرت موسیٰ نے یہ فرمان اپنی قوم کو سنایا وہ لوگ کہنے لگے ہم نہیں چاہتے کہ گرجا کے علاوہ کہیں اور نماز پڑھیں نہ ہم تہ دل سے توریت پڑھنے کی طاقت رکھتے ہیں ہم تو صرف دیکھ کر پڑھنا چاہتے ہیں اس پر اللہ نے فرمایا (فساکتبہا للذین یتقون۔۔ سے۔۔ المفلحون) تک۔ چنانچہ اس امت کے لئے اللہ نے یہ بات مخصوص کردی ‘ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے رب مجھے اس امت کا پیغمبر بنا دے اللہ نے فرمایا ان کا نبی انہی میں سے ہوگا ‘ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے عرض کیا تو مجھے اس امت میں سے ہی کر دے اللہ نے فرمایا تم ان کے زمانہ کو نہیں پہنچ سکتے (یعنی وہ امت آخری زمانہ میں آئے گی تم اس وقت تک زندہ نہیں رہو گے) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب میں بنی اسرائیل کا وفد لے کر حاضر ہوا تھا اور ان کی نمائندگی کا فائدہ دوسروں کو تو نے عطا کیا (یہ محروم رہ گئے) اس پر اللہ نے نازل فرمایا : (ومن قوم موسیٰ امۃ یہدون بالحق وبہ یعدلون) حضرت موسیٰ اس پر خوش ہوگئے نوف بکائی کی یہ تشریح اور تفصیل آیت کے صریحی الفاظ اور کلام کی رفتار کے خلاف ہے آیت : (الذین یتبعون الرسول النبی الامی۔۔ فی التوراۃ والانجیل) صراحت کے ساتھ بتارہی ہے کہ یہ آیت صرف مؤمنین اہل کتاب کے حق میں ہے (ان مؤمنوں سے اس کا تعلق نہیں جو پہلے مشرک تھے) بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ ‘ قتادہ اور ابن جریح نے فرمایا جب آیت (وسعت رحمتی کل شء) نازل ہوئی تو ابلیس کہنے لگے میں بھی کل شئی میں داخل ہوں (میں بھی رحمت سے محروم نہیں روہوں گا) اس پر اللہ نے فرمایا (فساکتبہا للذین یتقون ویوتون الزکٰوۃ والذین ہم بایتنا یؤمنون) یہ آیت سن کر یہودی اور عیسائی بھی آرزومند ہوگئے اور کہنے لگے ہم بھی تقویٰ رکھتے ہیں اور اللہ پر ہمارا ایمان ہے اس پر اللہ نے رحمت کو محض اس امت کے لئے محدود کردیا اور فرمایا : (الذین یتبعون الرسول النبی والامی) ۔ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں خطاب کا رخ رسول اللہ ﷺ : کی طرف ہے حالانکہ آیت کا سیاق چاہتا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی دعا کے جواب میں اللہ نے ان الفاظ سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو خطاب فرمایا اور رسول اللہ : ﷺ پر اس آیت کا نزول بطور نقل ہوا (گویا رسول اللہ : ﷺ کو اطلاع دی گئی کہ موسیٰ ( علیہ السلام) نے یہ دعا کی تھی اور ہم نے ان کی دعا کا یہ جواب دیا) واللہ اعلم۔
Top