Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 30
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ١ۖ٘ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا : اور ہم نے پیدا کیے لِجَهَنَّمَ : جہنم کے لیے كَثِيْرًا : بہت سے مِّنَ : سے الْجِنِّ : جن وَالْاِنْسِ : اور انسان لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھتے نہیں بِهَا : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَعْيُنٌ : آنکھیں لَّا يُبْصِرُوْنَ : نہیں دیکھتے بِهَا : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کیلئے اٰذَانٌ : کان لَّا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے بِهَا : ان سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ كَالْاَنْعَامِ : چوپایوں کے مانند بَلْ : بلکہ هُمْ : وہ اَضَلُّ : بدترین گمراہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْغٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں۔ ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بھٹکے ہوئے۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
ولقد ذرانا لجہنم کثیرا من الجن والانس لہم قلوب لا یفقہون بہا ولہم اعین لا یبصرون بہا ولہم اذان لا یسمعون بہا اولئک کالانعام بل ہم اضل اولئک ہم الغفلون ہم نے بلاشبہ جہنم کے لئے ایسے بہت سے جنات اور انسان پیدا کئے ہیں جن کے پاس دل ہیں (مگر) وہ ان سے سمجھتے نہیں ان کی آنکھیں ہیں (مگر) وہ ان سے دیکھتے نہیں ان کے کان ہیں (مگر) وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں۔ بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بےراہ ہیں ایسے سب لوگ غافل ہیں (حقیقت اور انجام سے بیخبر ) ذراناہم نے پیدا کئے۔ کثیرابکثرت جنات و انسان۔ یعنی وہ لوگ جن کی پیدائش کے بعد کفر پر جما رہنا اللہ کو پہلے سے ہی معلوم ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ : ﷺ نے فرمایا اللہ نے جنت پیدا کی اور اس کے مستحق بھی پیدا کردیئے جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں ہی تھے (یعنی حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت میں) اور جہنم کو پیدا کردیا اور اس کے مستحق بھی پیدا کردیئے جبکہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے (یعنی دنیا میں آئے بھی نہ تھے) رواہ مسلم۔ اسی مضمون کی حدیث اوپر گزر گئی جس میں حضرت آدم کی پشت سے سب کا برآمد ہونا بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ راوی ہیں کہ ایک روزہ رسول اللہ ﷺ دو تحریریں دونوں ہاتھوں میں لئے ہوئے برآمد ہوئے اور فرمایا جانتے ہو یہ دو تحریریں کیسی ہیں ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم کو کچھ نہیں معلوم البتہ آپ بیان فرما دیں تو معلوم ہوجائے گا حضور : ﷺ نے دائیں ہاتھ والی تحریر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ رب العلمین کی طرف سے تحریر ہے اس میں جنتیوں کے نام ان کے باپ اور قبائل کے نام درج ہیں اور آخر میں اس کو ختم کردیا گیا ہے۔ آئندہ کبھی اس میں کمی ہوگی نہ بیشی۔ پھر بائیں ہاتھ والی تحریر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ رب العلمین کی طرف سے تحریر ہے اس میں تمام دوزخیوں کے اور ان کے باپوں کے اور قبائل کے نام درج ہیں اور آخر میں اس کو ختم کردیا گیا ہے آئندہ کبھی اس میں اضافہ ہوگا نہ کمی۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ پھر عمل کس غرض سے ہے جب کہ یہ (اہل جنت و اہل جہنم کا) معاملہ ختم ہوچکا فرمایا سیدھی چال چلتے رہو۔ جنتی کا خاتمہ اہل جنت کے عمل پر ہوگا خواہ اس نے (زندگی میں) کوئی عمل کیا ہو اور دوزخی کا خاتمہ دوزخیوں کے عمل پر ہوگا خواہ اس نے (زندگی میں) کیسا ہی عمل کیا ہو۔ پھر حضور : ﷺ نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اور دونوں (تحریروں) کو (گویا) پھینک دیا پھر فرمایا تمہارا رب بندوں (کے فیصلہ) سے فارغ ہوگیا ایک گروہ جنت میں اور ایک گروہ دوزخ میں کردیا گیا۔ رواہ الترمذی۔ ایک شبہ آیت (وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون) میں اور اس آیت میں تضاد ہے اس جگہ کی آیت بتارہی ہے کہ اللہ نے کچھ لوگوں کو گمراہ کردیا ہے کفر و معصیت کے لئے ہی ان کو پیدا کیا ہے جن کو کوئی ہدایت یاب نہیں کرسکتا اور آیت وما خلقتبتا رہی ہے کہ انسان کی تخلیق عبادت اور معرفت کے لئے ہوئی ہے۔ ہر انسان کو معرفت اور عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے ‘ دونوں میں موافقت کیسے ہوسکتی ہے۔ جواب نفس تخلیق اور اصل حکمت پیدائش تو یہی ہے کہ انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا نفس تخلیق کا تقاضا یہی ہے اصل تخلیق کے لحاظ کے وقت اس بات کا کوئی لحاظ نہیں کہ اللہ کا علم بندہ کے متعلق کیا ہے اور وہ بندہ کو جنتی جانتا ہے یا دوزخی (یعنی واقع میں بندہ دوزخی ہے یا جنتی اس کا علم تو اللہ کو ہے تخلیق کا تقاضا اور مصلحت تو یہی ہے کہ ہر شخص عبادت گزار اور صاحب معرفت ہو) رہی یہ بات کہ بہت انسانوں اور جنوں کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ (ان کی تخلیق کی غرض یہ ہے کہ وہ جہنمی ہوں بلکہ مقصد یہ ہے کہ) اللہ پہلے سے واقف ہے کہ وہ کفر اختیار کریں گے اور اس طرح اللہ کی بات پوری ہو کر رہے گی کہ لا ملئن جہنم من الجنۃ والناس اجمعین۔ بعض علماء تفسیر نے یہ جواب دیا ہے کہ آیت (وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون) اگرچہ عام ہے لیکن اس سے مراد خاص ہے یعنی صرف وہی لوگ معرفت و عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں جن کے متعلق اللہ جانتا تھا کہ یہ ایماندار اور اطاعت گزار ہوں گے یہ جواب بےدلیل اور غلط ہے۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ لجہنم میں لام عاقبت کا ہے یعنی کثیر مخلوق کی پیدائش کا نتیجہ جہنمی ہونا ہے اور جس کی پیدائش کا نتیجہ جہنمی ہونا ہے وہ گویا جہنم کے لئے پیدا ہی کیا گیا ہے۔ معتزلہ نے یہ تاویل اس لئے اختیار کی کہ وہ گناہوں کو اللہ کی مشیت و ارادہ کے تحت نہیں مانتے مگر یہ تاویل ظاہر کلام کے خلاف ہے۔ لا یفقہون بہا یعنی حق کو شناخت کرنے اور دلائل پر غور کرنے کی ان میں استعداد و صلاحیت ہی نہیں ہے لا یبصرون بہا یعنی آنکھیں تو ہیں مگر دلائل کو عبرت اندوز نظر سے نہیں دیکھتے۔ لا یسمعون بہا یعنی ان کے کان تو ہیں مگر آیات و مواعظ کو گوش قبول سے نہیں سنتے۔ اولئک کالانعام یعنی کھانے پینے جماع کرنے اور اسباب تعیش میں مشغول رہنے کے لئے ہی ان کی ساری قوتیں اور احساسات وقف ہیں وہ بےسمجھی میں اور عبرت اندوز نظر نہ رکھنے میں اور گوش قبول و تامل کے فقدان میں جانوروں کی طرح ہیں۔ بل ہم اضلبل کہ وہ جانوروں سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں جانوروں میں تو کسی قدر ضرر رساں اور فائدہ بخش چیزوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہے اور وہ منافع کو حاصل کرنے اور مضرات کو دفع کرنے کی اپنی انتہائی کوشش کرتے ہیں لیکن کافروں میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو محض عناد کی وجہ سے دوامی دوزخ کی طرف دوڑے جاتے ہیں باوجودیکہ جانتے ہیں کہ یہ راستہ یقینی ہلاکت کا ہے اللہ نے انہی کے متعلق فرمایا ہے (یعرفون کما یعرفون ابناء ہم وجحدوا بہا واستیقنتہا انفسہم ظلماو علوا) اور بعض کافر ایسے ہیں کہ فطری دانش و شعور کو ضائع کردیتے ہیں۔ تقاضئے عقل کا مقابلہ وہم سے کرتے ہیں یہ دونوں گروہ مکلف ہیں مامور ہیں اور جانور نہ مکلف ہیں نہ مامور فطری مجبور ہیں اس لئے کافر زیادہ گمراہ ہیں قابل مواخذہ اور جانور گم کردہ راہ ہیں معذور و مجبور۔ اُولٰءِکُ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ یعنی کامل طور پر یہی غافل ہیں کوئی دوسرا کامل غفلت کا حامل نہیں ہے اس آیت (اور حصر) سے معلوم ہو رہا ہے کہ جانوروں کو بلکہ جمادات کو بھی اپنے خالق کا کسی قدر شعور ہے وہ کامل طور پر اپنے رب سے غافل نہیں ہیں اسی کی تائید دوسری آیات سے بھی ہوتی ہے فرمایا ہے (وان من شی الا یسبح بحمدہ) دوسری آیت ہے (الم تر ان اللّٰہ یسجد لہ من فی السمٰوٰت ومن فی الارض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدواب وکثیر من الناس وکثیر حق علیہم العذاب) ۔ مقاتل کی روایت ہے کہ ایک شخص نے اللہ کا نام لے کر بھی نماز میں دعا کی اور رحمن کا لفظ کہہ کر بھی اس پر کافر کہنے لگے ان مسلمانوں کا تو یہ دعویٰ ہے کہ ہم ایک ہی رب کی عبادت کرتے ہیں پھر اس شخص کو کیا ہوگیا کہ دو کو پکار رہا ہے اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top