Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 81
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَاْتُوْنَ : جاتے ہو الرِّجَالَ : مرد (جمع) شَهْوَةً : شہوت سے مِّنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) النِّسَآءِ : عورتیں بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ مُّسْرِفُوْنَ : حد سے گزر جانے والے
یعنی خواہش نفسانی پورا کرنے کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر لونڈوں پر گرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے نکل جانے والے ہو
انکم لتاتون الرجال شہوۃ من دون النسآء بل انتم قوم مسرفون۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو۔ حقیقتاً تم حد (انسانیت) ہی سے گزر گئے۔ لوط بن ہارس (یا ہاران) بن تارخ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ قوم لوط سے مراد سدوم والے ہیں۔ لُوْطًا۔ اَرْسَلْنَا محذوف کا مفعول ہے اور اذقالَاس کا ظرف ہے یا اُذْکُرْمحذوف ہے (یاد کرو) اور اذقال اس سے بدل ہے۔ اتاتون میں زجر آمیز انکار استفہامی ہے۔ الفاحشۃ یعنی مردوں سے لواطت بہا میں ب تعدیہ کی ہے من احد میں من زائد ہے مگر نفی میں تاکید اور عموم پیدا کر رہا ہے۔ من العلمین میں منتبعیضیہ ہے۔ عمرو بن دینار کا قول ہے کہ دنیا میں کوئی نر کسی نر پر نہیں دیکھا گیا قوم لوط سے ہی اس فعل کی ابتدا ہوئی انکم سے اتاتون الفاحشۃ کے انکار و زجر کی مزید کامل تاکید ہو رہی ہے۔ لتاتون الرجال یعنی مردوں سے جماع کرتے ہو۔ اَتَی المرء ۃ اس عورت سے جماع کیا یہ عرب کا محاورہ ہے۔ شہوۃً مفعول لہ ہے یعنی محض شہوت رانی کے لئے بغیر کسی مصلحت و خوبی کے۔ یا مفعول مطلق ہے جو بجائے حال کے واقع ہوا ہے یعنی ناکارہ بےسود شہوت رانی کے طور پر۔ من دون النساء۔ دونبمعنی غَئرٌہے یعنی عورتوں کو چھوڑ کر دوسروں سے مراد یہ ہے کہ عورتوں سے قربت میں تو حکمت ہے اولاد کی پیدائش اور نسل کا بقاء وغیرہ اور مردوں سے قربت میں کچھ فائدہ نہیں اس ٹکڑے میں قوم لوط کی انتہائی مذمت ہے کہ تم (انسانی فکر و دانش سے بالکل خالی) محض (بےعقل) جانور ہو۔ اس آیت سے بطور دلالتِ نص ثابت ہو رہا ہے کہ عورتوں سے لواطت بھی حرام ہے کیونکہ گندم اور بےسود ہونا دونوں کا ایک ہی طرح ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل سورة بقر کی آیت (فاتوا حرثکم انی شئتم) کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ بل انتم قوم مسرفون یعنی تمہاری عادت ہی ہے کہ شریعت و دانش کی حدود سے نکل جاتے ہو کہ حدود نکاح سے تجاوز کر کے تم نے ایسے فعل کی طرف توجہ کی جو انسانی عادت کے خلاف اور فائدہ سے خالی ہے۔ اس آیت میں انکار سے اعراض اور اخبار کی طرف کلام کا رخ پھیر دیا گیا ہے یا انکار سے مذمت کی طرف اعراض ہے یا اصل کلام اس طرح تھا کہ اس قبیح فعل کا تمہارے پاس کوئی عذر نہیں صرف یہی نہیں بلکہ تمہاری عادت ہی حد انسانیت سے تجاوز کرنے کی ہے۔
Top