Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 92
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا١ۛۚ اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا شُعَيْبًا : شعیب كَاَنْ : گویا لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا : نہ بستے تھے اس میں وہاں اَلَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا شُعَيْبًا : شعیب كَانُوْا : وہ ہوئے هُمُ : وہی الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
(یہ لوگ) جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے (غرض) جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑگئے
الذین کذبوا شعیبا کان لم یغنوا فیہا الذین کذبوا شعیبا کانوا ہم الخسرین۔ جنہوں نے شعیب کو جھوٹا کہا تھا ان کی ایسی حالت ہوگئی گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے یہ تکذیب کرنے والے ہی سراسر خسارے میں رہے۔ الرجفۃ کلبی نے کہا اس سے مراد ہے زلزلہ۔ فی دارہم یعنی اپنی بستی میں۔ جس میں مردہ مرے رہ گئے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ نے ان پر جہنم کا دروازہ کھول دیا اور ایسی سخت گرمی میں مبتلا کردیا کہ دم گھٹنے لگے نہ سایہ سے فائدہ ہوتا تھا نہ پانی سے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے تہ خانوں میں گھستے تھے اور وہاں اوپر سے زیادہ گرمی پا کر پھر باہر نکل آتے تھے اور بھاگ کر میدانوں میں چلے جاتے تھے ایک بار باہر میدان میں بھاگ کر پہنچے تو اللہ نے ایک بادل بھیج دیا جس کے اندر بڑی خوشگوار ہوا تھی ابر نے ان پر سایہ کرلیا الظلہ (جس کا ذکر دوسری آیت میں آیا ہے) یہی ابر تھا۔ ابر کے نیچے کچھ خنکی اور ہوا محسوس ہوئی تو ایک نے دوسرے کو پکار کر سب کو ابر کے نیچے جمع کرلیا جب سب عورتیں مرد بچے بڑے جمع ہوگئے تو (بادل کے اندر سے) اللہ نے آگ کے شعلے پیدا کردیئے۔ نیچے زمین تپ رہی تھی اور اوپر سے آگ تھی۔ سب بھنی ہوئی ٹڈی کی طرح جل بھن کر رہ گئے۔ یزید جریری کا قول ہے کہ (اوّل) سات روز تک اللہ نے ان پر ہوا کے طوفان کو مسلط رکھا پھر گرمی چھا گئی سامنے دور سے ایک پہاڑ نظر آیا ایک آدمی نے جا کر دیکھا تو وہاں نہریں اور چشمے جاری تھے سب پہاڑ کے نیچے جمع ہوگئے پھر پہاڑ ان پر گرپڑا اسی کو یوم الظلہ کہا گیا ہے (یعنی الظلہ سے مراد ہے پہاڑ کا سایہ) قتادہ ؓ : کا قول ہے اللہ نے شعیب کو اصحاب الایکہ کی ہدایت کے لئے بھی بھیجا تھا اور اصحاب مدین کی طرف بھی ایکہ (بن میں رہنے) والے تو (ابر یا پہاڑ کے) سایہ (میں جمع ہو کر اس) سے ہلاک کئے گئے اور مدین والوں کو زلزلہ نے آپکڑا جبرئیل ( علیہ السلام) نے ایک چیخ ماری جس سے سب ہلاک ہوگئے۔ کان لم یغنوا یعنی بیخ و بن سے ان کی بربادی ہوگئی۔ ایسا معلوم ہونے لگا کہ وہاں رہتے ہی نہ تھے وہاں کوئی آبادی ہی نہ تھی۔ غنیت بالمکان میں نے اس جگہ قیام کیا۔ مَغَانِیَمکانات قیام گاہیں اس کا واحد مغنی ہے۔ ہم الخسرین یعنی دنیا اور آخرت میں خاسر ہوگئے۔ ہاں جن لوگوں نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی تصدیق کی اور آپ کے پیچھے چلے وہ دونوں جہان میں فائدے میں رہے قوم شعیب ( علیہ السلام) کے خاسر ہونے کی علت اور تخصیص خسران کے سبب پر متنبہ کرنے کے لئے الذین کذبوا شعیبا دوبارہ فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ شعیب کی تکذیب ہی خسران کی علت تھی۔
Top