Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 92
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا١ۛۚ اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا شُعَيْبًا : شعیب كَاَنْ : گویا لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا : نہ بستے تھے اس میں وہاں اَلَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا شُعَيْبًا : شعیب كَانُوْا : وہ ہوئے هُمُ : وہی الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا (وہ ایسے مٹے) کہ گویا ان (گھروں) میں کبھی بسے ہی نہ تھے، جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا نقصان اٹھانے والے وہی رہے،126 ۔
126 ۔ منکرین ومستکبرین دعوی کے ساتھ پیشین گوئی مومنین کے نقصان اٹھانے کی کررہے تھے۔ واقعۃ وعملا خود ہی سب سے زیادہ نقصان میں رہے۔ اور دنیا نے اس کا مشاہدہ کرلیا۔ یہی مآل آخرکار اور ایک مدت کے مقابلہ کے بعد ہر سرکش و خدا فراموش قوم کا ہوتا رہا ہے۔ (آیت) ” فیھا “۔ میں ضمیر (آیت) ” دارھم “۔ کی طرف ہے۔ (آیت) ” لم یغنوا فیھا “۔ غنی فی مکان کے معنی محاورہ میں یہ آتے ہیں کہ کوئی شخص فلاں مکان میں اپنے دوسرے مکانات سے بےنیاز ہوگیا۔ اسی سے ایک مجازی معنی بسنے اور آباد ہونے کے بھی پیدا ہوگئے اور وہی یہاں مراد ہیں۔ ای لم یقیموا فیھا یقال غنینا بمکان کذا ای اقمنا فیہ (ابن قتیبہ) آیت سے ظاہر ہے کہ ہلاکت وتباہی ہمیشہ مادی ہی اسباب سے نہیں آئی بلکہ کثرت معاصی بھی باعث ہوجاتی ہے۔ (آیت) ” الذین کذبوا “۔ کی تکرار اور (آیت) ” کانوا ھم الخسرین “ کی ترکیب واقعہ کے اظہار اہمیت کے لیے ہیں وللتنبیہ علی ھذا والمبالغۃ فیہ کرر الموصول (بیضاوی) العرب تکرر مثل ھذا فی التفخیم والتعظیم (کبیر) وفیہ معنی الاختصاص ایاھم المخصوصون بالخسران العظیم دون اتباعہ (کشاف)
Top