Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 26
جَزَآءً وِّفَاقًاؕ
جَزَآءً : بدلہ ہے وِّفَاقًا : پورا پورا
(یہ) بدلہ ہے پورا پورا
جزاء و فاقا . جزاءً ا فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے اور وفاق بمعنی وافق ہے (اگر اس کو صیغۂ صفت قرار دیا جائے) یا بمعنی موافق ہے (اگر اس کو باب مفاعلت کا مصدر کہا جائے) یعنی ان کو ایسا بدلہ دیا جائے گا جو ان کے اعمال اور بیہودگیوں کے موافق ہوگا۔ مقاتل نے کہا وفاقًا کا یہ مطلب ہے کہ عذاب گناہ کے مطابق ہوگا اور شرک سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں (لہٰذا جزآءً ا وفاقًا کا معنی ہوا سخت ترین عذاب) یہ اس تقدیر پر ہوگا کہ الطاغین سے کفار مراد ہوں ‘ جیسی کہ دوسرے علماء نے تفسیر کی ہے۔ پس ان جھنّم کانت .... پورا جملہ جزاء پر ہی دلالت کر رہا ہے کسی دوسرے معنی کا اس میں احتمال ہی نہیں ہے ‘ اس کے بعد جزاء وفاقا مفہوم جملہ کی تاکید ہوگئی اور یہ تاکید لنفسہٖ ہوئی جیسے کوئی کہے : لہ علی الف درھم اعترافًا کہ اس کے مجھ پر ہزا ردرہم ہیں۔ میں اس کا پختہ اقرار کرتا ہوں (لہ علی الف درھم کا مفہوم سوائے اعتراف قرض کے اور کچھ نہیں ‘ اس کے بعد اعترافاً کہنا محض مفہوم سابق کی تاکید ہے اور کچھ نہیں۔ اسی طرح ان جھنم کانت .... یعنی غساقًا تک پورا جملہ سوائے سزا کے اور کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ پھر اس کے بعد جزاءً وفاقا کا فائدہ سوائے مفہوم سابق کی تاکید کے اور کچھ نہیں) ہاں ! ہماری رائے کے موافق اگر الطاغین سے مراد اہل بدعت ہوں تو جزاءً ا وفاقًا پہلے جملے کی تاکید لنفسہٖ نہ ہوگی بلکہ تاکید لغیرہ ہوجائے گی اور نئے معنی کا فائدہ دے گی اور تاسیس (نئے معنی کی افادیت) تاکید محض سے اولیٰ ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ اہل بدعت کے عقائد جس قدر حق سے دور ہوں گے اسی کے موافق ان کے عذاب کی نوعیت اور کیفیت ہوگی اور جہنم کے اندر بعض کا قیام زیادہ ہوگا اور بعض کا کم۔ بعض کا عذاب شدید تر ہوگا ‘ بعض کا ان سے خفیف اور یہ قیام جہنم اور عذاب (زیادہ سے زیادہ) احقاب کی میعاد تک پہنچے گا اور کم سے کم ایک حقب ہوگا۔
Top