Tafseer-e-Mazhari - Ash-Sharh : 5
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ
فَاِنَّ : پس بیشک مَعَ : ساتھ الْعُسْرِ : دشواری يُسْرًا : آسانی
ہاں ہاں مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے
فان مع العسر یسرا . یعنی جس دشواری میں آپ ہیں ‘ اسکے ساتھ بڑی سہولت بھی ہے۔ یسرًا میں تنوین یسر کی عظمت کو ظاہر کر رہی ہے۔ یہ جملہ گویا کلام محذوف کی علت ہے۔ گویا اصل کلام یوں تھا کہ آپ ﷺ پر جو دشواری پڑی ہے اس سے آپ ﷺ رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ عسر کے ساتھ یسر بھی آئے گا۔ بعض لوگوں نے دوسری آیت میں یسرًا کی تنوین کو وعدہ کی تاکید اور امید کی تعظیم کے لیے قرار دیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ از سر نو وعدہ ہے (وعدۂ سابقہ کی تاکید نہیں ہے) مطلب یہ ہے کہ عسر کے ساتھ ایک دوسرا یسر بھی آئے گا۔ عبدالرزاق نے اپنی تفسیر میں اور حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں مرسل حدیث نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم کو بشارت ہو۔ یُسر تمہارے لیے آپہنچا۔ ایک دشواری دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہ آسکے گی۔ اس حدیث کو ابن مردویہ نے بھی ضعیف سند کے ساتھ حضرت جابر کی روایت سے نقل کیا ہے۔ امام مالک (رح) نے موطا میں اور حاکم نے (مستدرک میں) اس حدیث کی شاہد ایک اور حدیث نقل کی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : اگر عسر کسی سوراخ کے اندر بھی ہوگی تو یسر اس کی تلاش میں سوراخ کے اندر بھی جا گھسے گی۔ ایک عسر دو یسر پر کبھی غالب نہیں ہوگی۔ علماء لغت عربی کا قول ہے کہ اگر کسی لفظ کو بصورت معرفہ دوبارہ ذکر کیا جائے تو وہ بعینہٖ اوّل لفظ ہی ہوتا ہے (یعنی دوسرے لفظ سے مراد پہلے لفظ کے معنی کی تاکید ہوتی ہے) خواہ پہلا لفظ معرفہ ہو یا نکرہ کیونکہ اصل لغت میں الف لام عہدی ہی ہوتا ہے (جنسی اور استغراقی اور ذہنی ثانوی حیثیت رکھتے ہیں) اور اگر پہلے کلمہ کو بصورت نکرہ دوبارہ ذکر کیا جائے تو دوسرا پہلے سے غیر ہوتا ہے۔ (یعنی دو سرے لفظ سے اوّل لفظ کے معنی کی تاکید نہیں ہوتی بلکہ کوئی جدید معنی مراد ہوتا ہے) خواہ اوّل لفظإ معرفہ ہو یا نکرہ ہو کیونکہ کلام کو تکرار اور تاکید پر محمول کرنے سے نئے معنی مراد لینا اولیٰ ہے۔ تنقیح الاصول میں آیا ہے کہ اگر ہزار روپیہ (اپنے ذمہ ہونے) کا کسی نے اقرار کیا اور دو مرتبہ اقرار کیا مگر مندرجۂ دستاویز کی قید لگا دی ‘ تو صرف ایک ہزار روپیہ اس کے ذمہ ثابت ہوں گے اور اگر بلا قید لگائے دوسری مرتبہ اقرار کیا تو دو ہزار واجب ہوجائیں گے۔ یہ امام اعظم (رح) کا مسلک ہے۔ مگر مجلس اگر ایک ہی ہو (تو قید لگانے یا نہ لگانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ‘ بہرحال ایک ہی ہزار کا اقرار مانا جائیگا) ۔ میں کہتا ہوں دوسرے اقرار کو اوّل اقرار کی تاکید اس وقت کہا جائے گا کہ اس کا قرینہ موجود ہو (ورنہ اصل کلام میں استیناف ہی ہے ‘ جتنی مرتبہ اقرار کرے گا ‘ ہر مرتبہ کا کلام مستقل اقرار مانا جائے گا) ۔ ایک شبہ مذکورۂ بالا ضابطہ پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ : ان مع الفارس سیفا ان مع الفارس سیفًا میں دونوں جگہ الفارس ایک ہی سوار اور دونوں جگہ سیف سے الگ الگ دو تلواریں مراد نہیں ہوتیں (بلکہ دوسرا کلام پہلے کلام کی تاکید ہوتا ہے) ۔ ازالہ ہم کہتے ہیں کہ اگر تاکید کا قرینہ موجود ہو تو دونوں لفظوں سے مراد ایک ہی معنی ہوتا ہے (اور قرینہ نہ ہو تو تاکید نہیں استیناف ہوتا ہے) اور پیش کردہ مثال میں قرینہ (اتحاد مجلس ‘ سیاق ! عبارت وغیرہ) موجود ہے (اس لیے دونوں جگہ ایک ہی معنی مراد ہے) لیکن آیت میں (لغت کے اعتبار سے) دونوں تاویلیں درست ہیں (تاکید بھی اور استیناف بھی) مگر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ نے جو تفسیر فرمائی ‘ اس نے صحیح تاویل کی تعیین کردی (اس لیے العسر سے مراد وہی عسر اوّل ہے اور یسر اً سے مراد دوسرا یسر ہے) ۔ بغوی نے ایک اور تشریح کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت میں ایک عسر کے ساتھ دو یسر کا مراد ہونا اس وجہ سے نہیں کہ نکرہ بصورت نکرہ مکرر آیا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق گزشتہ کلام سے ہے۔ گزشتہ کلام میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی تھی اور خصوصیت کے ساتھ دنیا میں یسر اور غنا عطا کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ چناچہ اس وعدہ کو اللہ نے پورا بھی کیا۔ رسول اللہ ﷺ کو فراخ دست بنا دیا۔ مختلف بستیاں آپ ﷺ کے زیر اقتدار کردیں ‘ یہاں تک کہ (بعض حالات میں) آپ ﷺ نے دو ‘ دو سو اونٹ ایک ایک شخص کو عطا کیے اور بیش قیمت چیزیں عنایت فرمائیں۔
Top