Mazhar-ul-Quran - An-Nahl : 28
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١۪ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ١ؕ بَلٰۤى اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَتَوَفّٰىهُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ظَالِمِيْٓ : ظلم کرتے ہوئے اَنْفُسِهِمْ : اپنے اوپر فَاَلْقَوُا : پس ڈالیں گے السَّلَمَ : پیغام اطاعت مَا كُنَّا نَعْمَلُ : ہم نہ کرتے تھے مِنْ سُوْٓءٍ : کوئی برائی بَلٰٓى : ہاں ہاں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
وہ کہ جن کی جان فرشتوں نے قبض کی اس حال پر کہ وہ اپنا برا کر رہے تھے (یعنی کفر میں مبتلا تھے) پھر کافر لوگ اطاعت کا پیغام ڈالیں گے (اور کہیں گے) کہ ہم تو کچھ برائی نہ کرتے تھے۔ (فرشتے کہیں گے) : ہاں بیشک اللہ خوب جانتا ہے تم جو کچھ کرتے تھے۔
بد لوگوں کی جان قبض کرنے کی خوفناک حالت اس آیت میں بد لوگوں کی اور اس سے آگے کی آیت میں نیک لوگوں کی قبض روح کا حال ہے کہ بد لوگوں کی قبض روح کے لئے خوفناک صورت کے فرشتے آتے ہیں۔ اور عذاب قبر اور عذاب قیامت کا حال اس قریب المرگ شخص کی روح کو سناتے ہیں۔ اس کو سن کر وہ روح ڈرتی ہے اور جگہ بدن میں چھپتی ہے۔ وہ فرشتے روح کو بدن سے نکالنے کی غرض سے اس بد شخص کے منہ اور اس کی پیٹھ پر بڑی بری طرح مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خبیث جان اب بدن سے نکل، اللہ کا غضب اور عذاب تیرے لئے تیار ہے۔ روگٹے رونگٹے کو تکلیف پہنچ کر بد آدمی کی روح نکلتی ہے اور روح کے نکلتے ہی زمین پر ایک طرح کی بدبو پھیلتی ہے۔ اس بدبو کے پھیلنے سے آسمان کے فرشتوں کو ایک طرح کی اذیت ہوتی ہے اور بہت برا کہتے ہیں اور یہ قبض روح والے فرشتے اس روح کو ایک ٹاٹ کے ٹکڑے میں لپیٹ کر خدا تعالیٰ کے روبرو لے جانا چاہتے ہیں مگر آسمان کے دروازے کھلنے کا حکم نہیں ہوتا اور اس روح کو پھر جسم میں لا کر منکر نکیر کا سوال ہوتا ہے اور جواب پورا نہ ہونے سے سجین مقام میں جو ساتوں زمین کے نیچے ہے اس روح کا نام لکھ لیا جاتا ہے اور طرح طرح کا عذاب قبر شروع ہوجاتا ہے اللہ ہر ایک مسلمان کو اس عذاب سے محفوظ رکھے۔ پھر ایک بدصورت قبر میں آن کر مردے سے کہتا ہے کہ آج وعدہ کا دن ہے، مردہ کہتا ہے : تجھ کو خدا کی مار تو کون ہے وہ کہتا ہے : میں تیرا برا عمل ہوں غرض یہ مردہ ہمیشہ عذاب قبر میں مبتلا رہتا ہے اور دعا مانگتا رہتا ہے کہ قیامت دیر میں قائم ہو تاکہ اس سے زیادہ عذاب میں نہ پھنسوں۔ پھر حکم ہوگا کہ جہنم کے دروازے میں تم داخل ہوجاؤ اور ہمیشہ ہمیشہ کو بس اسی میں رہو اور یہی برا ٹھکانا تکبر اور غرور کرنے والوں کا ہے جو خدا اور رسول کی باتوں کو جھٹلایا کرتے تھے اور اپنی مالداری کے گھمنڈ میں رہے اور بت پرستی سے باز نہ آئے۔
Top