Mazhar-ul-Quran - Al-Kahf : 75
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا اَ لَمْ : کیا نہیں اَقُلْ : میں نے کہا لَّكَ : تجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
ان بزرگ (یعنی خضر) نے کہا :'' کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا بیشک تم ہرگز میرے ساتھ صبر نہ کرسکوگے ''
حضرت موسیٰ و حضرت خضر (علیہما السلام) کے علم کا نتیجہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پھر وہی فرمایا کہ میں نہیں کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کریں گے، اور معالملات میں دخیل ہوں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آئندہ اگر میں آپ کے معاملہ کے متعلق کچھ اعتراض کروں تو پھر مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ اس کے بعد دونون ایک گاؤں میں پہنچے۔ اور اس گا ؤن والوں کہ یہ دستور تھا کہ شام کے وقت سے گاؤں کا دروازہ بند کردیتے تھے تو پھر کسی کے واسطے ہرگز نہ کھولتے تھے۔ یہ شام کے بعد پہنچے اور گاؤں والوں سے کہا کہ دروازہ کھولو۔ کسی نے نہ کھولا پھر حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ اچھا اگر دروازہ نہیں کھولتے تو ہم کو کھانا دو ، ہم مسافر ہیں، اور اس وقت یہاں قیام ہے۔ ان گاؤں والوں نے کھانا دینے سے انکار کردیا۔ دونوں صاحب بھوکے رہے، اور گاؤں کے باہر ہی قیام پذیر رہے۔ اور صبح کو حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک دیوار جو کہ منہدم ہونے کے قریب تھی، سارے دن میں بناکر کھڑی کردی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ حضرت گاؤں والوں نے تو ہمارے ساتھ ایسی بدسلوکی کی، اور آپ نے بلا اجرت کے ان کی دیوار بنادی۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا :'' بس اب میری اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ یعنی اب تو میری ہمراہی سے جدا ہوجاؤ، کیونکہ تم نے خود کہ دیا تھا کہ اگر میں اب سوال کروں تو جدا کردینا۔ لہذا اب میں تم کو اب تمام باتوں کا جو گزری ہیں، ان کی تاویلات (مطللب) بتاتا ہوں ''۔ حاصل کلام یہ ہے کہ چڑیا کے پانی پینے کے قصہ سے اس سفر کا نتیجہ تو موسیٰ (علیہ السلام) سمجھ چکے تھے اور دوسرے اعتراض کے وقت جدائی کی شرط کو ظاہر کردیا۔
Top