Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 75
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا اَ لَمْ : کیا نہیں اَقُلْ : میں نے کہا لَّكَ : تجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
(خضر (علیہ السلام) نے) کہا میں نے آپ سے کہہ دیا تھا ناکہ آپ سے میرے ساتھ نباہ نہ ہوسکے گا،109۔
109۔ (اور اب اس کا ظہور پوری طرح ہونے لگا ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہلا سوال تو غالبا بےخیالی سے کر گزرے تھے جیسا کہ ان کے عذر (آیت) ” لا تؤاخذنی بما نسیت “ سے متبادر ہورہا ہے۔ لیکن یہ دوسرا سوال عمدا تھا چناچہ اب کی وہ اپنے سہوانسیان کا عذر بالکل نہیں پیش کرتے۔ احکام شریعت کی خلاف ورزی پر تحمل جب عام صالحین سے نہیں ہوسکتا تو موسیٰ (علیہ السلام) تو ظاہر ہے کہ پیغمبر برحق تھے۔ اور آپ کا کام ہی ہر قسم کی بدی کو روکنا اور نیکی کو پھیلانا تھا۔” موسیٰ (علیہ السلام) نے وعدہ کرکے پھر جو اعتراض فرمایا تو وجہ یہ کہ وہ وعدہ معنی مقید تھا عدم مخالفت شریعت کے ساتھ گوصورۃ مطلق تھا۔ پس اس کو خلف لازم نہیں آتا “۔ تھانوی (رح) ۔
Top