Tafseer-e-Saadi - Al-Kahf : 75
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا اَ لَمْ : کیا نہیں اَقُلْ : میں نے کہا لَّكَ : تجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
(خضر) نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ؟
(آیت 75) پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اعتراض ان کے نسیان کا نتیجہ تھا۔ دوسری مرتبہ اعتراض نسیان کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کا سبب عدم صبر تھا، اس لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے عتاب کرتے ہوئے اور ان کو یاد دلاتے ہوئے کہا : (الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا) ” کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے “ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : (ان اسلتک عن شیء بعدھا) ” اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی چیز کی بابت پوچھا “ یعنی اس مرتبہ کے بعد (فلا تصحبنی) ” تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں “ یعنی آپ مجھے مصاحبت میں نہ رکھنے پر معذور ہیں۔ (قد بلغت من لدنی عذرا) ” آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے “ یعنی آپ میری طرف سے معذور ہیں اور آپ نے کوتاہی نہیں کی۔ (فانطلقا حتی اذا اتیا اھل قریٓ استطعما اھلھا) ” پس وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب آئے وہ ایک بستی کے لوگوں تک، تو کھانا مانگا بستی کے لوگوں سے “ یعنی بستی والوں سے مہمان کے طور پر ٹھہرانے کی استدعا کی۔ (فابوا ان یضیفوھما فوجدا فیھا جدارا یرید ان ینقض) ” پس انہوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا، تو انہوں نے ایک دیوار کو دیکھا جو گرا چاہتی تھی “ یعنی وہ منہدم ہوا چاہتی تھی : (فاقامہ) ” پس اس کو سیدھا کردیا “ یعنی خضر (علیہ السلام) نے اسے تعمیر کر کے دوبارہ نیا بنادیا۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا : (لو شئت لتخذت علیہ اجرا) ” اگر آپ چاہتے تو اس بستی والوں سے اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔ “ بستی والوں نے ہمیں مہمان نہیں ٹھہرایا تھا اور آپ ہیں کہ بغیر کسی اجرت کے ان کی دیوار تعمیر کر رہے ہیں، حالانکہ آپ ان سے اجرت طلب کرسکتے ہیں۔ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) وہ شرط پوری نہ کرسکے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ اس پر حضرت خضر نے ان کی رفاقت سے معذرت کرلی اور ان سے کہا : (ھذا فراق بینی و بینک) ” اب جدائی ہے میرے اور آپ کے درمیان “ کیونکہ جو شرائط آپ نے خود اپنے آپ پر عائد کی تھیں (ان کو آپ پورا نہ کرسکے) اب کوئی عذر باقی نہیں رہا اور نہ مصاحبت کی کوئی وجہ۔ (اسنبئک بتاویل ما لم تستطع علیہ صبرا) ” اب میں آپ کو بتاؤں گا ان چیزوں کی حقیقت، جن پر آپ صبر نہ کرسکے “ یعنی میں ان امور کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا جن کے بارے میں آپ نے مجھ پر نکیر کی اور آپ کو بتاؤں گا کہ ان تمام کاموں کے پیچھے کچھ مقاصد تھے جن پر معاملہ مبنی تھا۔ (اما السفینٓ) یعنی وہ کشتی جس میں میں نے سوراخ کردیا تھا (فکانت لمسکین یعملون فی البحر) ” وہ مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے “ ان پر ترس اور ان کے ساتھ مہربانی اس فعل کی مقتضی تھی۔ (فاردت ان اعیبھا و کان وراء ھم ملک یاخذ کل سفینٓ غصبا) ” تو میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں اور ان کے ورے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو لے لیتا تھا چھین کر “ یعنی ان کا راستہ اس ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرتا تھا، لہٰذا اگر کشتی صحیح اسلم ہوتی اور اس میں کوئی عیب نہ ہوتا تو ظلم کی بنا پر اسے پکڑ لیتا اور غصب کرلیتا۔ میں نے اس کشتی میں اس لئے سوراخ کردیا تھا تاکہ یہ کشتی عیب دار ہوجائے اور اس ظالم کی دست برد سے بچ جائے۔ (واما الغلم) ” رہا وہ لڑکا “ یعنی وہ لڑکا جس کو میں نے قتل کیا تھا : (فکان ابوہ موٓمنین فخشینا ان یرھقھما طغیانا وکفرا) ” پس اس کے ماں باپ مومن تھے، پھر ہم کو اندیشہ ہوا کہ وہ ان کو مجبور کر دے گا سرکشی اور کفر اختیار کرنے پر۔ “ یعنی اس لڑکے کے بارے میں یہ مقدر تھا کہ اگر وہ بالغ ہوجاتا تو اپنے والدین کو کفر اور سرکشی پر مجبور کرتا۔ یا تو ان دونوں کی اس سے محبت کی بنا پر یا اس سبب سے کہ دونوں اس کے ضرورت مند ہوں گے اور ضرورت ان کو ایسا کرنے پر مجبور کر دے گی، یعنی میں اس بچے کے بارے میں مطلع تھا اس لئے میں نے اس کے والدین کے دین کی حفاظت کے لئے اس کو قتل کردیا۔ اس جلیل القدر فائدے سے بڑھ کر اور کون اس فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس بچے کے قتل کرنے میں ان کے لئے تکلیف اور ان کی نسل کا انقطاع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو اور اولاد عطا کرے گا جو اس سے بہتر ہوگی بناء بریں فرمایا : (فاردنا ان یبد لھما ربھما خیرا منہ زکوٓ و اقرب رحما) ” پس ہم نے چاہا کہ بدلہ دے ان کو ان کا رب اس سے بہتر پاکیزگی میں اور نزدیک تر شفقت میں “ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایسا بیٹا عطا کرے گا جو نیک، پاک اور صلہ رحمی کرنے والا ہوگا کیونکہ وہ بچہ جس کو قتل کردیا گیا تھا اگر بالغ ہوجاتا تو وہ والدین کا سخت نافرمان ہوتا اور وہ ان کو کفر اور سرکشی پر مجبور کردیتا۔ (واما الجدار) ” وہ دیوار “ جس کو میں نے سیدھا کردیا تھا (فکان لغلمین یتیمین فی المدینٓ و کان تحتہ کنز لھما و کان ابوھما صالحا) ” تو وہ دو یتیموں کی تھی اس شہر میں اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا “ یعنی ان کا حال ان پر رافت و رحمت کا تقاضا کرتا تھا کیونکہ وہ دونوں بہت چھوٹے تھے اور باپ سے محروم تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کی نیکی کی بنا پر ان دونوں کی حفاظت فرمائی۔ (فارادربک ان یبلغا اشدھما و یستخرجا کنزھما) ” پس آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا مدفون خزانہ نکالیں “ یعنی اس لئے میں نے دیوار منہدم کردی اور اس کے نیچے سے ان کا خزانہ نکال لیا اور خزانے کو دوبارہ دفن کرکے دیوار کو بغیر کسی اجرت کے دوبارہ تعمیر کردیا۔ (رحآ من ربک) یعنی یہ جو میں نے افعال سرانجام دیئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جس سے اس نے اپنے بندے خضر کو نوازا ہے۔ (وما فعلتہ عن امری) ” اور میں نے اسے اپنی طرف سے نہیں کیا “ یعنی میں نے ان میں سے کوئی کام اپنی طرف سے مجرد اپنے ارادے سے نہیں کیا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا حکم تھا۔ (ذلک) یعنی یہ جو میں نے آپ کے سامنے وضاحت کی ہے (تاویل ما لم تسطع علیہ صبرا) ” یہ حقیقت ہے ان تمام واقعات کی جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ “ اس تعجب خیز اور جلیل القدر قصے میں بہت سے فوائد، احکام اور قواعد ذکر کئے گئے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں : (1) اس قصے سے علم اور طلب علم کے لئے رحلت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے نیز یہ کہ طلب علم اہم ترین معاملہ ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے طلب علم کے لئے طویل سفر کیا اور تکالیف برداشت کیں۔ بنی اسرائیل کو تعلیم دینے اور ان کی راہنمائی کے لئے ان کے پاس بیٹھنا ترک کر کے علم میں اضافے کے لئے سفر اختار کیا۔ (2) اس قصے سے مستفاد ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اہم کام سے ابتداء کی جائے۔ اناسن کا علم اور اس علم میں اضافہ کرنا اس کو ترک کرنے اور علم حاصل کئے بغیر تعلیم میں مشغول رہنے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ مگر دونوں امور کا یکجا ہونا زیادہ کامل اور افضل ہے۔ (3) سفر و حضر میں، کام کاج اور راحت کے حصول کے لئے خادم رکھنا جائز ہے جی اس کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کیا تھا۔ (4) اگر کوئی شخص طلب علم یا جہاد وغیرہ کے لئے سفر کرتا ہے اور مصلحت کے تقاضے کے مطابق اگر وہ اپنے مقصد اور منزل کے بارے میں بتاتا ہے تو یہ اس کو چھپانے سے بہتر ہے کیونکہ اس کو ظاہر کرنے میں بہت سے فوائد ہیں، مثلاً اس سفر کی تیاری، اسمان مہیا کرنے، اس کام کو دیکھ بھال کر احسن طریقے سے سرانجام دینے کا اہتمام اور اس جلیل القدر عبادت کے لئے شوق کا اظہار وغیرہ۔ جی اس کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا : (لا ابرح حتی ابلغ مجمع البحرین او امضی حقبا) (الکھف : 81/06) ” میں اس وقت تک سفر کرتا رہوں گا جب تک کہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں برسوں چلتا رہوں گا۔ “ اور جیسے نبی اکرآ نے جب غزوہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کرام ؓ عہنم کو اس کے بارے میں آگاہ فرما دیا تھا حالانکہ ایسے امور میں تو ریہ کرنا آپ کی عادت مبارکہ تھی۔ یہ چیز مصلحت کے تابع ہے۔ (5) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شر اور اس کے اسباب کو اس لحاظ سے شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ وہ بہکاتا ہے اور شر کو مزین کرتا ہے اگرچہ خیر و شر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے واقع ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم نے کہا : (وما انسنیہ الا الشیطن ان اذکرہ) (الکھف : 81 /36) ” شیطان نے مجھے اس کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ “ (6) اناسن کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی طبیعت کے تقاضوں، مثلاً تھکاوٹ، بھوک اور پیاس وغیرہ کے بارے میں اطلاع دے، جبکہ اس میں صداقت ہو اور اس میں (اللہ تعالیٰ اور تقدیر پر) ناراضی کے اظہار کا کوئی پہلو نہ ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا) (الکھف : 81 /26) ” ہمیں اپنے اس سفر میں بہت تھکاوٹ لاحق ہوئی ہے۔ “ (7) خادم کا ذہین و فطین اور سمجھ دار ہونا پسندیدہ ہے تاکہ اناسن اپنے مطلوبہ ارادوں کی بہتر طریقے سے تکمیل کرسکے۔ (8) اناسن کا اپنے خادم کو اپنے کھانے سے اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھلانا مستحب ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول سے یہی ظاہر ہوتا ہے فرمایا : (اتنا غداءنا) (الکھف : 81 /26) ” لاؤ ہمارے پاس ہمارا کھانا “ یہ اضافت سب کی طرف ہے، کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ (9) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندے پر، اللہ تعالیٰ کے احکام کو قائم کرنے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت کرنے والے کی جو مدد کی جاتی ہے وہ کسی اور کی نہیں کی جاتی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا) (الکھف : 81 /26) ” اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی۔ “ یہ دریاؤں کے سنگم سے متجاوز سفر کی طرف اشارہ ہے۔ دریاؤں کے سنگم سے ماقبل سفر کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تھکاوٹ کی شکایت نہیں کی، حالانکہ وہ بہت طویل سفر تھا کیونکہ یہی حقیقی سفر تھا۔ (لیکن اللہ کی مدد کی وجہ سے وہ محسوس نہیں ہوا) رہا دریاؤں کے سنگم کے بعد والا سفر تو ظاہر ہے کہ وہ سفر کا کچھ حصہ یعنی دن کا ایک حصہ تھا کیونکہ جب انہوں نے چٹان پر بیٹھ کر آرام کیا تھا وہاں مچھلی غائب ہوئی تھی، ظاہر ہے وہاں چٹان کے پاس ہی انہوں نے رات بسر کی پھر اگلی صبح سفر پر روانہ ہوئے۔ حتیٰ کہ جب صبح کے کھانے کا وقت ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا : (اتنا غدآء نا) (الکھف : 81 /26) ” ہمارے لئے کھانا لاؤ۔ “ یہاں آ کر خادم کو یاد آیا کہ اسے اس مقام پر مچھلی کے غائب ہونے کے بارے میں ذکر کرنا بھول گیا جو ان کی منزل اور مقصودسفر تھا۔ (لیکن اس تھوڑے سے سفر میں انہیں تھکاوٹ ہوگئی تھی) (01) اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ جس سے ان دونوں نے ملاقات کی تھی، نبی نہیں تھا بلکہ ایک صالح بندہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عبودیت کی صفت سے موصوف کیا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رحمت اور علم سے نوازا تھا مگر راسلت اور نبوت کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر جناب خضر نبی ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی نبوت کا ضرور ذکر کرتا جی اس کہ دوسرے انبیاء ومرسلین کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ جہاں تک قصے کے آخر میں ان کے اس قول (وما فعلتہ عن امری) (الکھف : 81 /28) کا تعلق ہے تو یہ ان کے نبی ہونے کی دلیل نہیں۔ یہ تو الہام اور تحدیث کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ غیر انبیا کو الہام سے نوازا جاتا ہے۔ جی اس کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (واوحینا الی ام موسیٰ ان ارضعیہ) (القصص : 82 /7) ” ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف الہام کیا کہ اس کو دودھ پلا۔ “ اسی طرح ارشاد ہے : (واوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا) (النحل : 61 /86) ” آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ وہ پہاڑوں میں اپنے چھتے بنائے۔ “ (11) وہ علم جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے، اس کی دو اقاسم ہیں : (i علم اکتاسبی : جسے بندہ اپنی جدوجہد اور اجتہاد سے حاصل کرتا ہے۔ (ii علم لدنی : اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر کرم نوازی کرتا ہے اسے یہ علم عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وعلمنہ من لدنا علما) (الکھف : 81 /56) ” ہم نے انہیں اپنی طرف سے ایک خاص علم سے نوازا تھا۔ “ (21) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ معلم کے ساتھ ادب کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور متعلم کو چاہیے کہ وہ نہایت لطیف طریقے سے معلم سے مخاطب ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر سے اس طرح عرض کی تھی : (ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا) (الکھف : 81 /66) ” کیا میں آپ کے پیچھے آسکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم و دانش سکھائیں جو آپ کو عطا کی گئی ہے۔ “ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ملاطفت اور مشاورت کے اسلوب میں بات کی گویا عرض کی کہ کیا آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں گے یا نہیں اور ساتھ ہی یہ اقرار کیا کہ وہ متعلم ہیں۔ بےادب اور متکبر لوگوں کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے جو معلم پر یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ اس کے علم کے محتاج ہیں بلکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حصول علم میں وہ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں بلکہ باس اوقات ان میں سے بعض تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے معلم کو تعلیم دے رہے ہیں۔ ایسا شخص سخت جاہل ہے۔ معلم کے سامنے تذلل اور انکساری اور معلم کے علم کا محتاج ہونے کا اظہار متعلم کے لئے بہت فائدہ مندہ چیز ہے۔ (31) اس قصہ سے مستفادہ ہوتا ہے کہ ایک عالم اور صاحب فضیلت شخص کو بھی علم حاصل کرتے وقت تواضع اور انکساری کا اظہار کرنا چاہیے، چاہے اس کا استاذ اس سے درجے میں کمتر ہی ہو کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بلاشبہ حضرت خضر (علیہ السلام) سے افضل تھے۔ (41) اس واقعے سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ عالم فاضل شخص کسی علم میں مہارت حاصل کرنے کے لئے جس میں وہ ماہر نہیں، اس شخص سے علم حاصل کرے جو اس علم میں مہارت رکھتا ہے اگرچہ وہ علم و فضل میں اس سے بدرجہا کمتر کیوں نہ ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اولوالعزم رسولوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وہ علم عطا کیا جو دوسروں کو عطا نہیں کیا مگر یہ خاص علم جو حضرت خضر کے پاس تھا، آپ اس سے محروم تھے اس لئے اس علم کو سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ بناء بریں ایک محدث وفقیہ کے لئے مناسب نہیں۔۔۔. جبکہ وہ علم صرف و نحو وغیرہ میں کم مایہ ہو۔۔۔. کہ وہ اس شخص سے یہ علم سیکھنے کی کوشش نہ کرے جو اس میں ماہر ہے اگرچہ وہ محدث اور فقیہ نہ ہو۔ (51) ان آیات کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ علم اور دیگر فضائل کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے، اس کا اقرار کرنا چاہیے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (تعلمن مماعلمت) (الکھف : 81 /66) ” آپ مجھے سکھائیں اس میں سے جو آپ کو سکھایا گیا ہے “ یعنی اس علم سے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے۔ (61) علم نافع وہ علم ہے جو خیر کی طرف راہنمائی کرے، ہر وہ علم جس میں رشد و ہدایت اور خیر کے راستے کی طرف راہنمائی ہو، شر کے راستے سے ڈرایا گیا، یا ان مقاصد کے حصول کا وسیلہ ہو، وہ علم نافع ہے۔ اس کے علاوہ دیگر علوم، وہ یا تو نقصان دہ ہوتے ہیں یا ان میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جیسے فرمایا : (ان تعلمن مما علمت رشدا) (الکھف : 81 /66) (71) اس واقعے سے مستفاد ہوتا ہے کہ جس شخص میں عالم اور علم کی صحبت کے لئے قوت صبر اور حسن ثبات نہیں وہ علم حاصل کرنے کا اہل نہیں۔ جو صبر سے محروم ہے وہ علم حاصل نہیں کرسکتا۔ جو شخص صبر کو کام میں لاتا اور اس کا التزام کرتا ہے وہ جس امر میں بھی کوشش کرے گا اس کو حاصل کرلے گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معذرت کرتے ہوئے اس مانع کا ذکر کیا تھا جو ان کے لئے حصول علم سے مانع تھا اور وہ تھا جناب خضر کی معیت میں ان کا عدم صبر۔ (81) اس قصے سے ثابت ہوا کہ حصول صبر کا سب سے بڑا سبب، اس امر میں اس کا علم و آگہی ہے جس میں صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس وہ شخص جو اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، نہ اس کے غرض وغایت، اس کے نتیجہ، اس کے فوائد وثمرات کا اسے علم ہے وہ صبر کے اسباب سے بےبہرہ ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وکیف تصبر علی ما لم تحط بہ خبرا) (الکھف : 81 /86) ” جس چیز کے بارے میں آپ کو کوئی خبر نہ ہو آپ اس بارے میں کیسے صبر کرسکتے ہیں۔ “ پس جناب خضر نے اس چیز کے بارے میں عدم علم کو بےصبری کا سبب قرار دیا۔ (91) اس قصے سے مستنبط ہوتا ہے کہ جب تک کسی چیز کے مقصد اور اس بات کی معرفت حاصل نہ ہوجائے کہ اس سے کیا مراد ہے تو اس وقت تک اس پر خوب غور و فکر کیا جائے اور اس پر حکم لگانے میں جلدی نہ کی جائے۔ (02) اس قصے سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستقبل میں واقع ہونے والے بندوں کے افعال کو مشیت الٰہی سے معلق کیا جائے۔ جب بندہ کسی چیز کے بارے میں کہے کہ وہ مستقبل میں یہ کرے گا تو اس کے ساتھ انشاء اللہ ” اگر اللہ نے چاہا “ ضرور کہے (12) کسی چیز کے فعل کا عزم، اس فعل کے قائم مقام نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا : (ستجدنی انشاء اللہ صابرا) (الکھف : 81 /96) ” اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔ “ پس انہوں نے اپنے نفس کو صبر پر مجبور کیا مگر صبر نہ کرسکے۔ (22) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اگر معلم اس امر میں مصلحت سمجھتا ہو کہ متعلم بعض چیزوں کے متعلق سوال میں ابتدا نہ کرے جب تک کہ معلم خود اسے ان چیزوں سے واقف نہ کرائے۔۔۔. تو مصلحت ہی کی پیروی جائے، مثلاً : اگر معلم سمجھے کہ متعلم کم فہم ہے یا معلم متعلم کو زیادہ باریک سوال کرنے سے روک دے جبکہ اس کے علاوہ دیگر امور زیادہ اہم ہوں یا متعلم کا ذہن اس کا ادراک نہ کرسکتا ہو یا وہ کوئی ایسا سوال کرے جو زیر بحث موضوع سے متعلق نہ ہو۔ (32) اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں سمندر میں سفر کرنا جائز ہے جبکہ خوف نہ ہو۔ (42) اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ بھول جانے والے شخص کا اس کے نسیان کی بنا پر حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوئی مواخذہ نہیں اور اس کی دلیل موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول ہے : (لاتوٓا خذنی بما نسیت) (الکھف : 81 /37) ” میری بھول پر مجھے نہ پکڑیئے۔ “ (52) اناسن کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے اخلاق اور معاملات میں عفو سے کام لے۔ ان کے ساتھ رویہ نرم رکھے ان کو ایسے امور کا مکلف نہ کرے جن کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں، یا ان پر شاق گزرتے ہوں یا ایسا کرنا ان پر ظلم کا باعث ہو کیونکہ یہ چیز نفرت اور اکتاہٹ کا باعث بنتی ہے بلکہ وہ طریقہ اختیار کرے جو آسان ہو تاکہ اس کا کام آسان ہوجائے۔ (62) تمام معاملات میں ان کے ظاہر پر حکم لگایا جاتا ہے، مال اور خون وغیرہ کے دنیاوی معاملات میں ان کے ظاہر کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے، اس لئے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کے کشتی میں سوراخ کرنے اور بچے کے قتل کرنے پر نکیر فرمائی کیونکہ یہ دونوں ایسے امور ہیں جو بظاہر منکر ہیں۔ جناب خضر کی مصاحبت کے علاوہ کوئی اور صورت حال ہوتی تو موسیٰ (علیہ السلام) خاموش نہ رہ سکتے تھے۔ اس لئے آنجناب نے اس پر عام معاملات کے مطابق حکم لگانے میں جلدی کی اور اس عارض کی طرف التفات نہ کیا جو آپ پر صبر اور انکار میں عدم عجلت کو واجب کرتا ہے۔ (72) اس قصے سے ایک نہایت جلیل القدر قاعدہ مستنبط ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ” چھوٹی برائی کے ارتکاب کے ذریعے سے بڑی برائی کا سدباب کیا جائے “ اور چھوٹی مصلحت کو ضائع کر کے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی جائے۔ معصوم بچے کا قتل یقیناً بہت بڑی برائی ہے مگر اس کے زندہ رہنے سے ماں باپ کا دین کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونا اس سے زیادہ بڑی برائی ہے، بچے کا قتل نہ ہونا اور اس کا باقی رہنا اگرچہ بظاہر نیکی ہے مگر اس کے والدین کے دین و ایمان کا باقی رہنا زیادہ بڑی نیکی ہے اسی وجہ سے خضرعلیہ السلام نے اس بچے کو قتل کیا تھا۔ اس قاعدے کے بہت سے فوائد اور بہت سی فروع ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ پس تمام مصالح اور مفاسد جو ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں سب اسی زمرے میں آتے ہیں۔ (82) اس واقعے سے ایک اور جلیل القدر قاعدہ مستفاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ” کسی شخص کے مال میں کسی دوسرے شخص کا ایسا عمل جو کسی مصلحت یا ازالہ مفسدہ کی خاطر ہو وہ جائز ہے، خواہ وہ بغیر اجازت ہی کیوں نہ ہو، خواہ اس سے کسی کے مال میں کچھ اتلاف ہی کیوں نہ واقع ہو۔ “ جیسے جناب خضر (علیہ السلام) نے کشتی میں سوراخ کر کے اس میں عیب ڈال دیا تھا اور اس طرح وہ اس ظالم بادشاہ کے ہاتھوں غصب ہونے سے بچ گئی۔ اسی طرح کسی شخص کے گھر یا مال کے ڈوبنے یا آگ لگنے کی صورت میں اگر کچھ مال کو تلف کر کے باقی مال یا گھر کے کچھ حصہ کو منہدم کر کے باقی گھر کو بچایا جاسکتا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے بلکہ دوسرے کے مال کو بچانے کے لئے ایسا کرنا مشروع ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم شخص کسی دوسرے کے مال کو غصب کرنا چاہتا ہے، کوئی دوسرا شخص جو مال کا مالک نہیں، اصل مالک کی اجازت کے بغیر، مال کا کچھ حصہ ظالم اور غاصب شخص کو دے کر باقی مال کو بچا لے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (92) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سمندر میں کام کرنا اسی طرح جائز ہے جس طرح خشکی میں۔ ارشاد فرمایا : (یعملون فی البحر) (الکھف : 81 /97) اور یہ فرمانے کے بعد ان کے عمل پر نکیر نہیں فرمائی۔ (03) کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مسکین کچھ مال رکھتا ہے مگر وہ اس کے لئے کافی نہیں ہوتا اس لئے وہ ” مسکین “ کے نام کے اطلاق سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان ماسکین کے پاس ایک کشتی تھی۔ (13) اس واقعے سے مستفاد ہوتا ہے کہ قتل بہت بڑا گناہ ہے۔ اس بچے کے قتل کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (لقد جئت شیئا نکرا) (الکھف : 81 /47) ” آپ نے ایک بہت برا کام کیا۔ “ (23) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قصاص کے طور پر قتل کرنا برائی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (بغیر نفس) الکھف : 81 /47) (33) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی جان اور اولاد کی حفاظت کرتا ہے۔ (43) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ صالحین یا ان کے متعلقین کی خدمت کرنا کسی اور کی خدمت کرنے سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان یتیموں کے مدفون خزانہ کو باہر نکالنے اور پھر ان کی دیوار تعمیر کردینے میں یہ علت بیان فرمائی ہے کہ ان کا باپ ایک صالح شخص تھا۔ (53) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں الفاظ استعمال کرتے وقت ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیے، چناچہ جناب خضر (علیہ السلام) نے کشتی کو عیب دار کرنے کے فعل کی اضافت اپنی طرف کی : (فاردت ان اعیبھا) الکھف : 81 /97) ” میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں “ اور خیر کی اضافت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کی۔ فرمایا : (فاراد ربک ان یبلغا اشدھما و یستخرجا کنزھما رحآ من ربک) الکھف : 81 /28) اور جی اس کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : (واذا مرضت فھو یشفین) (الشعراء : 62 /08) ” جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا عطا کرتا ہے۔ “ اور جنات نے کہا تھا : (وانا لا نذری اشر ارید بمن فی الارض ام اراد بھم ربھم رشدا) (الجن : 27 /01) ” اور ہم نہیں جانتے کہ زمین پر رہنے والوں کے لئے کوئی برا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے بارے میں ان کے رب نے اچھا ارادہ کیا ہے۔ “ حالانکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضاء و تقدیر سے ہوتا ہے۔ (63) کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی حال میں اپنے ساتھی سے علیحدہ ہوجائے اور اس کی صحبت کو ترک کر دے جب تک کہ اس کی سرزنش نہ کرے اور اس کا عذر نہ سن لے جی اس کہ خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا تھا۔ (73) ان امور میں جو ناجائز نہیں، ایک ساتھی کی دوسرے ساتھی سے موافقت کرنا مطلوب اور دوستی کی بقا کا سبب ہے۔ اسی طرح عدم موافقت رشتہٓ دوستی کے منقطع ہونے کا سبب ہے۔
Top