Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Saadi - Al-Kahf : 75
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ
: اس نے کہا
اَ لَمْ
: کیا نہیں
اَقُلْ
: میں نے کہا
لَّكَ
: تجھ سے
اِنَّكَ
: بیشک تو
لَنْ تَسْتَطِيْعَ
: ہرگز نہ کرسکے گا
مَعِيَ
: میرے ساتھ
صَبْرًا
: صبر
(خضر) نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ؟
(آیت 75) پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اعتراض ان کے نسیان کا نتیجہ تھا۔ دوسری مرتبہ اعتراض نسیان کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کا سبب عدم صبر تھا، اس لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے عتاب کرتے ہوئے اور ان کو یاد دلاتے ہوئے کہا : (الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا) ” کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے “ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : (ان اسلتک عن شیء بعدھا) ” اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی چیز کی بابت پوچھا “ یعنی اس مرتبہ کے بعد (فلا تصحبنی) ” تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں “ یعنی آپ مجھے مصاحبت میں نہ رکھنے پر معذور ہیں۔ (قد بلغت من لدنی عذرا) ” آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے “ یعنی آپ میری طرف سے معذور ہیں اور آپ نے کوتاہی نہیں کی۔ (فانطلقا حتی اذا اتیا اھل قریٓ استطعما اھلھا) ” پس وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب آئے وہ ایک بستی کے لوگوں تک، تو کھانا مانگا بستی کے لوگوں سے “ یعنی بستی والوں سے مہمان کے طور پر ٹھہرانے کی استدعا کی۔ (فابوا ان یضیفوھما فوجدا فیھا جدارا یرید ان ینقض) ” پس انہوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا، تو انہوں نے ایک دیوار کو دیکھا جو گرا چاہتی تھی “ یعنی وہ منہدم ہوا چاہتی تھی : (فاقامہ) ” پس اس کو سیدھا کردیا “ یعنی خضر (علیہ السلام) نے اسے تعمیر کر کے دوبارہ نیا بنادیا۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا : (لو شئت لتخذت علیہ اجرا) ” اگر آپ چاہتے تو اس بستی والوں سے اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔ “ بستی والوں نے ہمیں مہمان نہیں ٹھہرایا تھا اور آپ ہیں کہ بغیر کسی اجرت کے ان کی دیوار تعمیر کر رہے ہیں، حالانکہ آپ ان سے اجرت طلب کرسکتے ہیں۔ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) وہ شرط پوری نہ کرسکے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ اس پر حضرت خضر نے ان کی رفاقت سے معذرت کرلی اور ان سے کہا : (ھذا فراق بینی و بینک) ” اب جدائی ہے میرے اور آپ کے درمیان “ کیونکہ جو شرائط آپ نے خود اپنے آپ پر عائد کی تھیں (ان کو آپ پورا نہ کرسکے) اب کوئی عذر باقی نہیں رہا اور نہ مصاحبت کی کوئی وجہ۔ (اسنبئک بتاویل ما لم تستطع علیہ صبرا) ” اب میں آپ کو بتاؤں گا ان چیزوں کی حقیقت، جن پر آپ صبر نہ کرسکے “ یعنی میں ان امور کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا جن کے بارے میں آپ نے مجھ پر نکیر کی اور آپ کو بتاؤں گا کہ ان تمام کاموں کے پیچھے کچھ مقاصد تھے جن پر معاملہ مبنی تھا۔ (اما السفینٓ) یعنی وہ کشتی جس میں میں نے سوراخ کردیا تھا (فکانت لمسکین یعملون فی البحر) ” وہ مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے “ ان پر ترس اور ان کے ساتھ مہربانی اس فعل کی مقتضی تھی۔ (فاردت ان اعیبھا و کان وراء ھم ملک یاخذ کل سفینٓ غصبا) ” تو میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں اور ان کے ورے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو لے لیتا تھا چھین کر “ یعنی ان کا راستہ اس ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرتا تھا، لہٰذا اگر کشتی صحیح اسلم ہوتی اور اس میں کوئی عیب نہ ہوتا تو ظلم کی بنا پر اسے پکڑ لیتا اور غصب کرلیتا۔ میں نے اس کشتی میں اس لئے سوراخ کردیا تھا تاکہ یہ کشتی عیب دار ہوجائے اور اس ظالم کی دست برد سے بچ جائے۔ (واما الغلم) ” رہا وہ لڑکا “ یعنی وہ لڑکا جس کو میں نے قتل کیا تھا : (فکان ابوہ موٓمنین فخشینا ان یرھقھما طغیانا وکفرا) ” پس اس کے ماں باپ مومن تھے، پھر ہم کو اندیشہ ہوا کہ وہ ان کو مجبور کر دے گا سرکشی اور کفر اختیار کرنے پر۔ “ یعنی اس لڑکے کے بارے میں یہ مقدر تھا کہ اگر وہ بالغ ہوجاتا تو اپنے والدین کو کفر اور سرکشی پر مجبور کرتا۔ یا تو ان دونوں کی اس سے محبت کی بنا پر یا اس سبب سے کہ دونوں اس کے ضرورت مند ہوں گے اور ضرورت ان کو ایسا کرنے پر مجبور کر دے گی، یعنی میں اس بچے کے بارے میں مطلع تھا اس لئے میں نے اس کے والدین کے دین کی حفاظت کے لئے اس کو قتل کردیا۔ اس جلیل القدر فائدے سے بڑھ کر اور کون اس فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس بچے کے قتل کرنے میں ان کے لئے تکلیف اور ان کی نسل کا انقطاع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو اور اولاد عطا کرے گا جو اس سے بہتر ہوگی بناء بریں فرمایا : (فاردنا ان یبد لھما ربھما خیرا منہ زکوٓ و اقرب رحما) ” پس ہم نے چاہا کہ بدلہ دے ان کو ان کا رب اس سے بہتر پاکیزگی میں اور نزدیک تر شفقت میں “ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایسا بیٹا عطا کرے گا جو نیک، پاک اور صلہ رحمی کرنے والا ہوگا کیونکہ وہ بچہ جس کو قتل کردیا گیا تھا اگر بالغ ہوجاتا تو وہ والدین کا سخت نافرمان ہوتا اور وہ ان کو کفر اور سرکشی پر مجبور کردیتا۔ (واما الجدار) ” وہ دیوار “ جس کو میں نے سیدھا کردیا تھا (فکان لغلمین یتیمین فی المدینٓ و کان تحتہ کنز لھما و کان ابوھما صالحا) ” تو وہ دو یتیموں کی تھی اس شہر میں اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا “ یعنی ان کا حال ان پر رافت و رحمت کا تقاضا کرتا تھا کیونکہ وہ دونوں بہت چھوٹے تھے اور باپ سے محروم تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کی نیکی کی بنا پر ان دونوں کی حفاظت فرمائی۔ (فارادربک ان یبلغا اشدھما و یستخرجا کنزھما) ” پس آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا مدفون خزانہ نکالیں “ یعنی اس لئے میں نے دیوار منہدم کردی اور اس کے نیچے سے ان کا خزانہ نکال لیا اور خزانے کو دوبارہ دفن کرکے دیوار کو بغیر کسی اجرت کے دوبارہ تعمیر کردیا۔ (رحآ من ربک) یعنی یہ جو میں نے افعال سرانجام دیئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جس سے اس نے اپنے بندے خضر کو نوازا ہے۔ (وما فعلتہ عن امری) ” اور میں نے اسے اپنی طرف سے نہیں کیا “ یعنی میں نے ان میں سے کوئی کام اپنی طرف سے مجرد اپنے ارادے سے نہیں کیا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا حکم تھا۔ (ذلک) یعنی یہ جو میں نے آپ کے سامنے وضاحت کی ہے (تاویل ما لم تسطع علیہ صبرا) ” یہ حقیقت ہے ان تمام واقعات کی جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ “ اس تعجب خیز اور جلیل القدر قصے میں بہت سے فوائد، احکام اور قواعد ذکر کئے گئے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں : (1) اس قصے سے علم اور طلب علم کے لئے رحلت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے نیز یہ کہ طلب علم اہم ترین معاملہ ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے طلب علم کے لئے طویل سفر کیا اور تکالیف برداشت کیں۔ بنی اسرائیل کو تعلیم دینے اور ان کی راہنمائی کے لئے ان کے پاس بیٹھنا ترک کر کے علم میں اضافے کے لئے سفر اختار کیا۔ (2) اس قصے سے مستفاد ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اہم کام سے ابتداء کی جائے۔ اناسن کا علم اور اس علم میں اضافہ کرنا اس کو ترک کرنے اور علم حاصل کئے بغیر تعلیم میں مشغول رہنے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ مگر دونوں امور کا یکجا ہونا زیادہ کامل اور افضل ہے۔ (3) سفر و حضر میں، کام کاج اور راحت کے حصول کے لئے خادم رکھنا جائز ہے جی اس کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کیا تھا۔ (4) اگر کوئی شخص طلب علم یا جہاد وغیرہ کے لئے سفر کرتا ہے اور مصلحت کے تقاضے کے مطابق اگر وہ اپنے مقصد اور منزل کے بارے میں بتاتا ہے تو یہ اس کو چھپانے سے بہتر ہے کیونکہ اس کو ظاہر کرنے میں بہت سے فوائد ہیں، مثلاً اس سفر کی تیاری، اسمان مہیا کرنے، اس کام کو دیکھ بھال کر احسن طریقے سے سرانجام دینے کا اہتمام اور اس جلیل القدر عبادت کے لئے شوق کا اظہار وغیرہ۔ جی اس کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا : (لا ابرح حتی ابلغ مجمع البحرین او امضی حقبا) (الکھف : 81/06) ” میں اس وقت تک سفر کرتا رہوں گا جب تک کہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں برسوں چلتا رہوں گا۔ “ اور جیسے نبی اکرآ نے جب غزوہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کرام ؓ عہنم کو اس کے بارے میں آگاہ فرما دیا تھا حالانکہ ایسے امور میں تو ریہ کرنا آپ کی عادت مبارکہ تھی۔ یہ چیز مصلحت کے تابع ہے۔ (5) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شر اور اس کے اسباب کو اس لحاظ سے شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ وہ بہکاتا ہے اور شر کو مزین کرتا ہے اگرچہ خیر و شر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے واقع ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم نے کہا : (وما انسنیہ الا الشیطن ان اذکرہ) (الکھف : 81 /36) ” شیطان نے مجھے اس کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ “ (6) اناسن کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی طبیعت کے تقاضوں، مثلاً تھکاوٹ، بھوک اور پیاس وغیرہ کے بارے میں اطلاع دے، جبکہ اس میں صداقت ہو اور اس میں (اللہ تعالیٰ اور تقدیر پر) ناراضی کے اظہار کا کوئی پہلو نہ ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا) (الکھف : 81 /26) ” ہمیں اپنے اس سفر میں بہت تھکاوٹ لاحق ہوئی ہے۔ “ (7) خادم کا ذہین و فطین اور سمجھ دار ہونا پسندیدہ ہے تاکہ اناسن اپنے مطلوبہ ارادوں کی بہتر طریقے سے تکمیل کرسکے۔ (8) اناسن کا اپنے خادم کو اپنے کھانے سے اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھلانا مستحب ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول سے یہی ظاہر ہوتا ہے فرمایا : (اتنا غداءنا) (الکھف : 81 /26) ” لاؤ ہمارے پاس ہمارا کھانا “ یہ اضافت سب کی طرف ہے، کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ (9) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندے پر، اللہ تعالیٰ کے احکام کو قائم کرنے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت کرنے والے کی جو مدد کی جاتی ہے وہ کسی اور کی نہیں کی جاتی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا) (الکھف : 81 /26) ” اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی۔ “ یہ دریاؤں کے سنگم سے متجاوز سفر کی طرف اشارہ ہے۔ دریاؤں کے سنگم سے ماقبل سفر کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تھکاوٹ کی شکایت نہیں کی، حالانکہ وہ بہت طویل سفر تھا کیونکہ یہی حقیقی سفر تھا۔ (لیکن اللہ کی مدد کی وجہ سے وہ محسوس نہیں ہوا) رہا دریاؤں کے سنگم کے بعد والا سفر تو ظاہر ہے کہ وہ سفر کا کچھ حصہ یعنی دن کا ایک حصہ تھا کیونکہ جب انہوں نے چٹان پر بیٹھ کر آرام کیا تھا وہاں مچھلی غائب ہوئی تھی، ظاہر ہے وہاں چٹان کے پاس ہی انہوں نے رات بسر کی پھر اگلی صبح سفر پر روانہ ہوئے۔ حتیٰ کہ جب صبح کے کھانے کا وقت ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا : (اتنا غدآء نا) (الکھف : 81 /26) ” ہمارے لئے کھانا لاؤ۔ “ یہاں آ کر خادم کو یاد آیا کہ اسے اس مقام پر مچھلی کے غائب ہونے کے بارے میں ذکر کرنا بھول گیا جو ان کی منزل اور مقصودسفر تھا۔ (لیکن اس تھوڑے سے سفر میں انہیں تھکاوٹ ہوگئی تھی) (01) اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ جس سے ان دونوں نے ملاقات کی تھی، نبی نہیں تھا بلکہ ایک صالح بندہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عبودیت کی صفت سے موصوف کیا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رحمت اور علم سے نوازا تھا مگر راسلت اور نبوت کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر جناب خضر نبی ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی نبوت کا ضرور ذکر کرتا جی اس کہ دوسرے انبیاء ومرسلین کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ جہاں تک قصے کے آخر میں ان کے اس قول (وما فعلتہ عن امری) (الکھف : 81 /28) کا تعلق ہے تو یہ ان کے نبی ہونے کی دلیل نہیں۔ یہ تو الہام اور تحدیث کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ غیر انبیا کو الہام سے نوازا جاتا ہے۔ جی اس کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (واوحینا الی ام موسیٰ ان ارضعیہ) (القصص : 82 /7) ” ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف الہام کیا کہ اس کو دودھ پلا۔ “ اسی طرح ارشاد ہے : (واوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا) (النحل : 61 /86) ” آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ وہ پہاڑوں میں اپنے چھتے بنائے۔ “ (11) وہ علم جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے، اس کی دو اقاسم ہیں : (i علم اکتاسبی : جسے بندہ اپنی جدوجہد اور اجتہاد سے حاصل کرتا ہے۔ (ii علم لدنی : اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر کرم نوازی کرتا ہے اسے یہ علم عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وعلمنہ من لدنا علما) (الکھف : 81 /56) ” ہم نے انہیں اپنی طرف سے ایک خاص علم سے نوازا تھا۔ “ (21) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ معلم کے ساتھ ادب کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور متعلم کو چاہیے کہ وہ نہایت لطیف طریقے سے معلم سے مخاطب ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر سے اس طرح عرض کی تھی : (ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا) (الکھف : 81 /66) ” کیا میں آپ کے پیچھے آسکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم و دانش سکھائیں جو آپ کو عطا کی گئی ہے۔ “ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ملاطفت اور مشاورت کے اسلوب میں بات کی گویا عرض کی کہ کیا آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں گے یا نہیں اور ساتھ ہی یہ اقرار کیا کہ وہ متعلم ہیں۔ بےادب اور متکبر لوگوں کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے جو معلم پر یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ اس کے علم کے محتاج ہیں بلکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حصول علم میں وہ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں بلکہ باس اوقات ان میں سے بعض تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے معلم کو تعلیم دے رہے ہیں۔ ایسا شخص سخت جاہل ہے۔ معلم کے سامنے تذلل اور انکساری اور معلم کے علم کا محتاج ہونے کا اظہار متعلم کے لئے بہت فائدہ مندہ چیز ہے۔ (31) اس قصہ سے مستفادہ ہوتا ہے کہ ایک عالم اور صاحب فضیلت شخص کو بھی علم حاصل کرتے وقت تواضع اور انکساری کا اظہار کرنا چاہیے، چاہے اس کا استاذ اس سے درجے میں کمتر ہی ہو کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بلاشبہ حضرت خضر (علیہ السلام) سے افضل تھے۔ (41) اس واقعے سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ عالم فاضل شخص کسی علم میں مہارت حاصل کرنے کے لئے جس میں وہ ماہر نہیں، اس شخص سے علم حاصل کرے جو اس علم میں مہارت رکھتا ہے اگرچہ وہ علم و فضل میں اس سے بدرجہا کمتر کیوں نہ ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اولوالعزم رسولوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وہ علم عطا کیا جو دوسروں کو عطا نہیں کیا مگر یہ خاص علم جو حضرت خضر کے پاس تھا، آپ اس سے محروم تھے اس لئے اس علم کو سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ بناء بریں ایک محدث وفقیہ کے لئے مناسب نہیں۔۔۔. جبکہ وہ علم صرف و نحو وغیرہ میں کم مایہ ہو۔۔۔. کہ وہ اس شخص سے یہ علم سیکھنے کی کوشش نہ کرے جو اس میں ماہر ہے اگرچہ وہ محدث اور فقیہ نہ ہو۔ (51) ان آیات کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ علم اور دیگر فضائل کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے، اس کا اقرار کرنا چاہیے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (تعلمن مماعلمت) (الکھف : 81 /66) ” آپ مجھے سکھائیں اس میں سے جو آپ کو سکھایا گیا ہے “ یعنی اس علم سے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے۔ (61) علم نافع وہ علم ہے جو خیر کی طرف راہنمائی کرے، ہر وہ علم جس میں رشد و ہدایت اور خیر کے راستے کی طرف راہنمائی ہو، شر کے راستے سے ڈرایا گیا، یا ان مقاصد کے حصول کا وسیلہ ہو، وہ علم نافع ہے۔ اس کے علاوہ دیگر علوم، وہ یا تو نقصان دہ ہوتے ہیں یا ان میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جیسے فرمایا : (ان تعلمن مما علمت رشدا) (الکھف : 81 /66) (71) اس واقعے سے مستفاد ہوتا ہے کہ جس شخص میں عالم اور علم کی صحبت کے لئے قوت صبر اور حسن ثبات نہیں وہ علم حاصل کرنے کا اہل نہیں۔ جو صبر سے محروم ہے وہ علم حاصل نہیں کرسکتا۔ جو شخص صبر کو کام میں لاتا اور اس کا التزام کرتا ہے وہ جس امر میں بھی کوشش کرے گا اس کو حاصل کرلے گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معذرت کرتے ہوئے اس مانع کا ذکر کیا تھا جو ان کے لئے حصول علم سے مانع تھا اور وہ تھا جناب خضر کی معیت میں ان کا عدم صبر۔ (81) اس قصے سے ثابت ہوا کہ حصول صبر کا سب سے بڑا سبب، اس امر میں اس کا علم و آگہی ہے جس میں صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس وہ شخص جو اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، نہ اس کے غرض وغایت، اس کے نتیجہ، اس کے فوائد وثمرات کا اسے علم ہے وہ صبر کے اسباب سے بےبہرہ ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وکیف تصبر علی ما لم تحط بہ خبرا) (الکھف : 81 /86) ” جس چیز کے بارے میں آپ کو کوئی خبر نہ ہو آپ اس بارے میں کیسے صبر کرسکتے ہیں۔ “ پس جناب خضر نے اس چیز کے بارے میں عدم علم کو بےصبری کا سبب قرار دیا۔ (91) اس قصے سے مستنبط ہوتا ہے کہ جب تک کسی چیز کے مقصد اور اس بات کی معرفت حاصل نہ ہوجائے کہ اس سے کیا مراد ہے تو اس وقت تک اس پر خوب غور و فکر کیا جائے اور اس پر حکم لگانے میں جلدی نہ کی جائے۔ (02) اس قصے سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستقبل میں واقع ہونے والے بندوں کے افعال کو مشیت الٰہی سے معلق کیا جائے۔ جب بندہ کسی چیز کے بارے میں کہے کہ وہ مستقبل میں یہ کرے گا تو اس کے ساتھ انشاء اللہ ” اگر اللہ نے چاہا “ ضرور کہے (12) کسی چیز کے فعل کا عزم، اس فعل کے قائم مقام نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا : (ستجدنی انشاء اللہ صابرا) (الکھف : 81 /96) ” اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔ “ پس انہوں نے اپنے نفس کو صبر پر مجبور کیا مگر صبر نہ کرسکے۔ (22) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اگر معلم اس امر میں مصلحت سمجھتا ہو کہ متعلم بعض چیزوں کے متعلق سوال میں ابتدا نہ کرے جب تک کہ معلم خود اسے ان چیزوں سے واقف نہ کرائے۔۔۔. تو مصلحت ہی کی پیروی جائے، مثلاً : اگر معلم سمجھے کہ متعلم کم فہم ہے یا معلم متعلم کو زیادہ باریک سوال کرنے سے روک دے جبکہ اس کے علاوہ دیگر امور زیادہ اہم ہوں یا متعلم کا ذہن اس کا ادراک نہ کرسکتا ہو یا وہ کوئی ایسا سوال کرے جو زیر بحث موضوع سے متعلق نہ ہو۔ (32) اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں سمندر میں سفر کرنا جائز ہے جبکہ خوف نہ ہو۔ (42) اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ بھول جانے والے شخص کا اس کے نسیان کی بنا پر حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوئی مواخذہ نہیں اور اس کی دلیل موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول ہے : (لاتوٓا خذنی بما نسیت) (الکھف : 81 /37) ” میری بھول پر مجھے نہ پکڑیئے۔ “ (52) اناسن کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے اخلاق اور معاملات میں عفو سے کام لے۔ ان کے ساتھ رویہ نرم رکھے ان کو ایسے امور کا مکلف نہ کرے جن کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں، یا ان پر شاق گزرتے ہوں یا ایسا کرنا ان پر ظلم کا باعث ہو کیونکہ یہ چیز نفرت اور اکتاہٹ کا باعث بنتی ہے بلکہ وہ طریقہ اختیار کرے جو آسان ہو تاکہ اس کا کام آسان ہوجائے۔ (62) تمام معاملات میں ان کے ظاہر پر حکم لگایا جاتا ہے، مال اور خون وغیرہ کے دنیاوی معاملات میں ان کے ظاہر کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے، اس لئے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کے کشتی میں سوراخ کرنے اور بچے کے قتل کرنے پر نکیر فرمائی کیونکہ یہ دونوں ایسے امور ہیں جو بظاہر منکر ہیں۔ جناب خضر کی مصاحبت کے علاوہ کوئی اور صورت حال ہوتی تو موسیٰ (علیہ السلام) خاموش نہ رہ سکتے تھے۔ اس لئے آنجناب نے اس پر عام معاملات کے مطابق حکم لگانے میں جلدی کی اور اس عارض کی طرف التفات نہ کیا جو آپ پر صبر اور انکار میں عدم عجلت کو واجب کرتا ہے۔ (72) اس قصے سے ایک نہایت جلیل القدر قاعدہ مستنبط ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ” چھوٹی برائی کے ارتکاب کے ذریعے سے بڑی برائی کا سدباب کیا جائے “ اور چھوٹی مصلحت کو ضائع کر کے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی جائے۔ معصوم بچے کا قتل یقیناً بہت بڑی برائی ہے مگر اس کے زندہ رہنے سے ماں باپ کا دین کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونا اس سے زیادہ بڑی برائی ہے، بچے کا قتل نہ ہونا اور اس کا باقی رہنا اگرچہ بظاہر نیکی ہے مگر اس کے والدین کے دین و ایمان کا باقی رہنا زیادہ بڑی نیکی ہے اسی وجہ سے خضرعلیہ السلام نے اس بچے کو قتل کیا تھا۔ اس قاعدے کے بہت سے فوائد اور بہت سی فروع ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ پس تمام مصالح اور مفاسد جو ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں سب اسی زمرے میں آتے ہیں۔ (82) اس واقعے سے ایک اور جلیل القدر قاعدہ مستفاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ” کسی شخص کے مال میں کسی دوسرے شخص کا ایسا عمل جو کسی مصلحت یا ازالہ مفسدہ کی خاطر ہو وہ جائز ہے، خواہ وہ بغیر اجازت ہی کیوں نہ ہو، خواہ اس سے کسی کے مال میں کچھ اتلاف ہی کیوں نہ واقع ہو۔ “ جیسے جناب خضر (علیہ السلام) نے کشتی میں سوراخ کر کے اس میں عیب ڈال دیا تھا اور اس طرح وہ اس ظالم بادشاہ کے ہاتھوں غصب ہونے سے بچ گئی۔ اسی طرح کسی شخص کے گھر یا مال کے ڈوبنے یا آگ لگنے کی صورت میں اگر کچھ مال کو تلف کر کے باقی مال یا گھر کے کچھ حصہ کو منہدم کر کے باقی گھر کو بچایا جاسکتا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے بلکہ دوسرے کے مال کو بچانے کے لئے ایسا کرنا مشروع ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم شخص کسی دوسرے کے مال کو غصب کرنا چاہتا ہے، کوئی دوسرا شخص جو مال کا مالک نہیں، اصل مالک کی اجازت کے بغیر، مال کا کچھ حصہ ظالم اور غاصب شخص کو دے کر باقی مال کو بچا لے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (92) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سمندر میں کام کرنا اسی طرح جائز ہے جس طرح خشکی میں۔ ارشاد فرمایا : (یعملون فی البحر) (الکھف : 81 /97) اور یہ فرمانے کے بعد ان کے عمل پر نکیر نہیں فرمائی۔ (03) کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مسکین کچھ مال رکھتا ہے مگر وہ اس کے لئے کافی نہیں ہوتا اس لئے وہ ” مسکین “ کے نام کے اطلاق سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان ماسکین کے پاس ایک کشتی تھی۔ (13) اس واقعے سے مستفاد ہوتا ہے کہ قتل بہت بڑا گناہ ہے۔ اس بچے کے قتل کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (لقد جئت شیئا نکرا) (الکھف : 81 /47) ” آپ نے ایک بہت برا کام کیا۔ “ (23) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قصاص کے طور پر قتل کرنا برائی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (بغیر نفس) الکھف : 81 /47) (33) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی جان اور اولاد کی حفاظت کرتا ہے۔ (43) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ صالحین یا ان کے متعلقین کی خدمت کرنا کسی اور کی خدمت کرنے سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان یتیموں کے مدفون خزانہ کو باہر نکالنے اور پھر ان کی دیوار تعمیر کردینے میں یہ علت بیان فرمائی ہے کہ ان کا باپ ایک صالح شخص تھا۔ (53) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں الفاظ استعمال کرتے وقت ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیے، چناچہ جناب خضر (علیہ السلام) نے کشتی کو عیب دار کرنے کے فعل کی اضافت اپنی طرف کی : (فاردت ان اعیبھا) الکھف : 81 /97) ” میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں “ اور خیر کی اضافت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کی۔ فرمایا : (فاراد ربک ان یبلغا اشدھما و یستخرجا کنزھما رحآ من ربک) الکھف : 81 /28) اور جی اس کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : (واذا مرضت فھو یشفین) (الشعراء : 62 /08) ” جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا عطا کرتا ہے۔ “ اور جنات نے کہا تھا : (وانا لا نذری اشر ارید بمن فی الارض ام اراد بھم ربھم رشدا) (الجن : 27 /01) ” اور ہم نہیں جانتے کہ زمین پر رہنے والوں کے لئے کوئی برا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے بارے میں ان کے رب نے اچھا ارادہ کیا ہے۔ “ حالانکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضاء و تقدیر سے ہوتا ہے۔ (63) کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی حال میں اپنے ساتھی سے علیحدہ ہوجائے اور اس کی صحبت کو ترک کر دے جب تک کہ اس کی سرزنش نہ کرے اور اس کا عذر نہ سن لے جی اس کہ خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا تھا۔ (73) ان امور میں جو ناجائز نہیں، ایک ساتھی کی دوسرے ساتھی سے موافقت کرنا مطلوب اور دوستی کی بقا کا سبب ہے۔ اسی طرح عدم موافقت رشتہٓ دوستی کے منقطع ہونے کا سبب ہے۔
Top