Mazhar-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
اے محبوب ! ﷺ یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم وحی کے ذریعہ تمہیں بتاتے ہیں اور تم اس قوم کے پاس نہ تھے جب ڈالتے تھے (بطور قرعہ) اپنی قلموں کو کہ مریم کس کی پرورش میں رہے اور تم ان کے پاس نہ تھے جس وقت کہ آپس میں وہ گفتگو کرتے تھے
قرعہ ڈالنے کا طریقہ اور اس کا جائز ہونا صحیح حدیثوں سے قرعہ کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل میں قرعہ ڈالنے کا طریقہ یہ تھا کہ کسی کام میں جب یہ بحث آن کر پڑتی کہ اس کام کون کرے تو وہ لوگ نہروں پر جاکر توریت کے لکھنے کے اپنے اپنے قلم بہتے پانی میں ڈالتے تھے۔ جس کا قلم بہاؤ کو چھوڑ کر الٹا بہنے سے رک کر ٹھہر جاوے تو وہی شخص اس کام کو کرتا تھا۔ جب حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی ماں نے اپنی نذر کے موافق حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو بیت المقدس میں لائیں تو بیت المقدس کے مجاوروں سے اپنا خواب بیان کیا تو سب چاہنے لگے کہ مریم سلام اللہ علیہا کو ہم پالیں۔ آخر رواج کے موافق زکریا (علیہ السلام) کا قلم پانی کے بہاؤ کو چھوڑ کر الٹا بہا۔ اس لئے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے پالنے کے وہی مستحق اور حق دار ٹھہرے۔
Top