Mualim-ul-Irfan - Yunus : 34
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں هَلْ : کیا مِنْ : سے شُرَكَآئِكُمْ : تمہارے شریک مَّنْ : جو يَّبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر اسے لوٹائے قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يَبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرتا ہے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ : پھر يُعِيْدُهٗ : اسے لوٹائے گا فَاَنّٰى : پس کدھر تُؤْفَكُوْنَ : پلٹے جاتے ہو تم
(اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں ( اے شرک کرنے والو ! ) کیا ہے تمہارے شریکوں میں سے کوئی جو اولا مخلوق کو پیدا کرتا ہو اور پھر اسے دوبارہ لوٹائے ؟ آپ کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے ، پھر اس کو لوٹائے گا ، پس تم کدھر پلٹائے جاتے ہو
ربط آیات آج کا درس بھی پہلی آیات کے ساتھ مربوط ہے۔ اس میں بھی توحید کے اثبات شرک کی تردید اور مشرکین کی ذہنی پستی کا ذکر ہے۔ گزشتہ درس میں اللہ نے توحید کے دلائل اس انداز میں بیان فرمائے کہ ذرا بتائو تو سہی کہ آسمان و زمین سے روزی کون نازل کرتا ہے ؟ کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ؟ زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے کون پیدا کرتا ہے ؟ اور تمام معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ اس کا جواب خود ہی بیان فرمایا کہ سب لوگ یہی کہیں گے کہ مذکورہ تمام امور انجام دینے والا فقط اللہ ہی ہے پھر خود ہی فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر اس الہ سے ڈرتے کیوں نہیں اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کیوں ٹھہراتے ہو ؟ یہی اللہ ہر چیز کی پرورش کرنے والا ہے ، یہی ہر ایک کے لیے سامان زیست مہیا کرتا ہے۔ اب حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ؟ فرمایا جو لوگ نافرمان ہیں اور اس پر ڈٹے ہوئے ہیں ، وہ ایمان نہیں لاتے۔ ابتدائی تخلیق اور اعادہ گذشتہ درس کی طرح یہ درس بھی دلائل ِ توحید پر ہی مشتمل ہے آج مخلوق کی ابتدائی تخلیق اور پھر دوبارہ لوٹائے جانے کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے پیغمبر ! قل آپ کہہ دیں (آیت) ” ھلہ من شرکائکم من یبدئو الخلق “ کوئی ا یسا ہے جس نے ابتدائی طور پر کوئی انسان ، جن یا کسی اور چیز کو پیدا کیا ہو ؟ ظاہر ہے کہ ہر جاندار اور غیر جاندار کو پیدا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس مضمون کو اللہ نے دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (آیت) ” فارونی ماذا خلق الذین من دونہ “ (لقمن) مجھے دکھائو تو سہی جو انہوں نے اللہ کے سوا پیدا کیا ہے۔ کوئی درخت ، کوئی جانور ، چرند پرند ، انسان ، جن ، ملائکہ ، کوئی خطہ ارضی ، کوئی آسمانی کرہ۔ کوئی ہے جس نے ان میں سے کوئی چیز پیدا کی ہو۔ غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ جن شرکاء کو تم کبھی عبادت میں اور کبھی صفت میں شریک بناتے ہو ، کبھی ان کی نذر ونیاز دیتے ہو اور کبھی ان کو پکارتے ہو اور ان کے نام کی دہائی دیتے ہو ، کبھی انتہائی تعظیم اور کبھی سجدہ کرتے ہو۔ بھلا بتلائو تو سہی کہ کسی نے کسی مخلوق کو ابتدائی طور پر پیدا کیا ہو (آیت) ” ثم یعیدہ “ اور پھر اس کو لوٹایا ہو یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا ہو۔ فرمایا ، اے پیغمبر (آیت) ” قل اللہ عبدئو الخلق ثم یعیدہ “ آپ کہہ دیں کہ وہ تو اللہ کی ذات ہی ہے جس نے مخلوق کو ابتداء پیدا کیا ہے ، پھیر وہی اس کو لوٹائے گا۔ یہ بات تو اللہ نے بتکرار بیان کی ہے کہ (آیت) ” اللہ خالق کل شئی “ (الزمر) یعنی ہر چیز کا خالق اللہ ہے پہلی دفعہ بھی انسان کو وہی پیدا کرتا ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ بھی وہی لوٹائے گا۔ سورة بقرہ میں بھی موجو ہے۔ کہ تم اللہ تعالیٰ کا انکار کیسے کرتے ہو۔ حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا (آیت) ” ثم یمیتکم “ پھر وہ تمہیں موت دیگا (آیت) ” ثم یحییکم “ پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ (آیت) ” ثم الیہ ترجعون “ پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے پھر محاسبے کی منزل آئیگی جس کے نتیجہ میں یا تو اللہ کی رحمت میں داخل ہوجائیں گے اور یا پھر سزا پا جائیں گے۔ غرضیکہ اولا پیدا کرنا اور پھر اس کا عادہ کرنا صرف اللہ کا کام ہے ، اس کے سوا کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرسکتا فرمایا اگر حقیقت یہی ہے (آیت) ” فانی توفکون “ تو تم کدھر پلٹائے جاتے ہو۔ کیا اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جب ابتداء اور انتہاء کا مالک اللہ ہے تو درمیان کی تمام چیزوں کا مالک بھی وہی ہے۔ انسانی زندگی کے تمام لوازمات اسی کے قبضہ قدرت اور اسی کے تصرف میں ہیں ، تو پھر اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانے کی کیا تک رہ جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت تامہ کی یہ بہت بڑی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے غور وفکر کے لیے ذکر کی ہے۔ راہنمائی بطرف حق آگے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی دوسری دلیل ہدایت اور راہنمائی کے اعتبار سے بیان فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے ، اے پیغمبر ! قل آپ ان سے دریافت کریں (آیت) ” ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق “ کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہو ؟ لفظ حق اپنے اندر برا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ حق اس چیز کو کہتے ہیں جو ثابت ، ٹھوس ، اٹل اور صحیح ہو اور اس کی طرف راہنمائی سے مراد یہ ہے کہ صحیح قانون اور صحیح راستے پر چلنے کی تلقین ہو۔ تو فرمایا ، کیا تمہارے معبودان باطلہ میں سے کوئی ایسا ہے جو حق بات کی دعوت دے۔ ؟ پھر اللہ نے اس سوال کا جواب بھی خود ہی اپنے نبی کی زبان سے دلوایا (آیت) ” قل اللہ یھدی للحق “ آپ کہہ دیں کہ وہ اللہ ہی ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حق کی طرف راہنمائی کرنے والا بھی کوئی نہیں آگے پھر دوسرا سوال پیش کیا (آیت) ” افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع “ کیا حق کی طرف راہنمائی کرنے والا اتباع کا زیادہ حقدار ہے (آیت) ” امن لا یھدی الا ان یھدی “ یا وہ زیادہ حقدار ہے۔ جو نہیں راہ پاتا بلکہ خود اسے راہ دکھائی جائے۔ جواب بڑا واضح ہے کہ اتباع کے لائق تو وہی ذات ہوگی جو خود حق پر ہو اور حق ہی کی طرف دعوت دے ، نہ وہ جو خود ہدایت کا محتاج ہو۔ حق کی طرف راہنمائی کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے لہٰذا ان کا اتباع کیسے ہو سکتا ہے ؟ معبودانِ باطلہ میں سے بعض تو مٹی ، پتھر یا لکڑی کے بےجان بت ہیں جو اپنی جگہ سے ہلنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ جاندار بھی ہوں تو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور دستگیری کے محتاج ہیں۔ انبیاء ہوں یا ملائکہ ، اولیاء ہوں یا شہدا ، صالحین ہوں یا مقربین سارے کے سارے ہر لحظ ہدایت و راہنمائی کے لیے اللہ کے محتاج ہیں۔ اب تم خود ہی فیصلہ کرو کہ اتباع کے لائق کون ہے ؟ کیا اس کی اتباع ہونی چاہیے جو راہ حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے یا وہ جو خود راہنمائی کا طالب ہے ؟ راہنمائی کی ضرورت راہنمائی کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ طالب کو منزل مقصود تک پہنچا دیا جائے اور دوسری یہ کہ درست راستے کی نشاندہی کردی جائے ظاہر ہے کہ یہ دونوں کام اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ان امور میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس مقام پر ہدایت کا ذکر ہے جب کہ دوسری جگہ (آیت) ” سبلنا “ کا لفظ آتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ضروریات کے تمام شعبوں راہ حق کی طرف راہنمائی کی ضرورت ہے مثلا سب سے پہلے فکر اور عقیدے کی طہارت کی ضرورت ہے عقائد کی درستگی کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی طرف وحی بھیجتا ہے ، جو آکے اپنی اپنی امت کو وہ اصول بتاتے ہیں جن کے ذریعے فکر کو پاک کیا جاتا ہے ، گویا انسان کی سب سے پہلی ضرورت اس کے ذہن ، دماغ ، فکر اور روح کی طہارت ہے۔ اس کے بعد انسان کی دوسری ضرورت یہ ہے کہ وہ عبادت کے طریقے سمجھے اور برائیوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا تا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی عبادت کے طریقے سکھائیں اور یہ کام بھی اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا ، اس ضمن میں نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، جہاد اور قربانی وغیرہ کی جزئیات معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر معاملات میں راہنمائی کی ضرورت ہے کہ خریدوفروخت میں کون سے اصول پیش نظر ہونے چاہیں لین دین کا طریقہ کیا ہو۔ پھر اخلاقیات میں بھی راہنمائی کی ضرورت ہے کہ کونسا اخلاق اپنانا چاہیے اور کس سے بچنا چاہیے۔ سیاسیات میں بھی اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کی ضرورت ہے اگرچہ آجکل اسے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست کا رخ بھی صحیح نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم منزل مقصود پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔ ا س معاملہ میں بھی صحیح راہنمائی اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی زبان مہیا کرتی ہے۔ گر ہم ان کے بتائی ہوئے اصولوں پر چلیں گے تو سیاست میں کامیابی ہوگی ورنہ اندھیرے میں ٹکریں مارتے رہیں گے ، خود بھی تباہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی برباد کریں گے معاشرتی معاملات میں بھی حقیقی راہنمائی کی ضرورت ہے۔ ہماری شریعت اور دین نے آپ میں میل جول اور معاملات کے لیے پاکیزہ اصول بیان کیے ہیں۔ تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں انہی اصولوں کی راہنمائی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح تعلیم اور تبلیغ کے شعبے ہیں کہ ان کو کس طرح انجام دینا ہے۔ ان چیزوں کے لیے بھی ہم صحیح راہنمائی کے محتاج ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے حاصل ہو سکتی ہے۔ سورۃ فاتحہ نہایت ہی اہم سورة ہے جسے ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں۔ اس کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی زبان سے کہلوایا ہے کہ اے مولا کریم ! (آیت) ” اھدنا الصراط المستقیم “ یعنی سیدھے راستے کی طرف ہماری راہنمائی فرما۔ گویا ہم ہر بت میں اس کی راہنمائی کے محتاج ہیں۔ چناچہ اس دعا اور درخواست کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ جس راہنمائی کی تجھے ضرورت ہے (آیت) ” ذلک الکتب لا ریب فیہ “ وہ اس کتاب قرآن پاک میں ہے جو شک وشبہ سے بالا ہے۔ قرآن پاک کی یہ صفت اگلی آیات میں بھی آرہی ہے۔ بہرحال اللہ کی کتاب تمام معاملات میں اصول و ضوابط مہیا کرتی ہے جب کہ نبی کی زبان اس کی شرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی یہ ڈیوٹی لگادی ہے (آیت) ” لتبین للناس مانزل الیھم “ جو چیز بھی اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، آپ لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کردیں۔ گویا نبی کی زبان قرآن کی وضاحت یا بیان (StAtement سٹیٹمنٹ) ہے۔ سورة نحل میں موجود ہے (آیت) ” وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم “ ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف اس لیے نازل کی ہے تا کہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی خوب وجاحت کردیں قرآن پاک صرف عبادات کی تعلیم تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام معاملات کے لیے اس میں راہنمائی موجو ہے اور ہم اس کے محتاج ہیں۔ حتی کہ اللہ نے اپنے نبی کو بھی یہی حکم دیا ہے (آیت) ” اتبع ما اوحی الیک من ربک “ (الانعام) آپ بھی اس چیز کی پیروی کریں جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر وحی کی گئی ہے۔ اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے بھی کہلوایا (آیت) ” انما اتبع ما یوحی الی من ربی “ (الاعراف) میں تو اسی راہ کی پر وی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے میرے رب کی طرت سے غرضیکہ فرمایا کہ جو ہستی حق کی طرف راہنمائی کرتی ہے اس کی بات ماننی چاہیے یا اس کی جس کا کچھ اختیار ہی نہیں ؟ یہ تم خود فیصلہ کرلو۔ اس آیت میں (آیت) ” یھدی “ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اصل میں ” یھتدی “ ہے اس میں تا کو دال بنایا گیا ہے اور اس دال کو اگلی دال میں مدغم کر کے ادال پر شد اور پھر اس کو کسرہ دے کر ” یھدی “ بنا دیا گیا ہے اور جملے کا مطلب یہ ہے کہ کیا اتباع کا وہ زیادہ حقدار ہے (آیت) ” امن لا یھدی “ جو نہیں راہ پاتا ، مگر یہ کہ اس کو راہ دکھائی جائے۔ فرمایا (آیت) ” فمالکم “ پس تمہیں کیا ہوگیا ہے (آیت) ” کیف تحکمون “ تم کیا فیصلہ کرتے ہو۔ دیکھو ! یہ کتنی ناانصافی کی بات ہے کہ تم ان کو خدا کا شریک بنا رہے ہو ، ان کی پوجا کر رہے ہو جن کا اختیار ہی کچھ نہیں اور جو ذات اتباع کے قابل ہے اس کی بات ہی نہیں مانتے۔ اتباع الظن اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی ایک قباحت بیان فرمائی ہے (آیت) ” وما یتبع اکثرھم الا ظنا “ اور نہیں پیروی کرتے ان میں سے اکثر مگر محض گمان کی۔ تمام مشرک اور رسومات کے پیروکار محض گمان کے پیچھے ہی چلتے ہیں۔ تمام بدعات گمان کی پیداوار ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کسی سے پوچھا جائے کہ یہ کام کیوں کر رہے ہو۔ تو جواب ملتا ہے کہ اس میں کیا خرابی ہے ، ہمارے فلاں بزرگ اور فلاں خاندان والے ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ آخرت یہ کوئی اچھا کام ہی ہے تو اتنے لوگ انجام دے رہے ہیں۔ عید میلاد کے ایک جلسے میں کسی وزیر نے بھی کہا تھا کہ جہاں اتنے لوگ جمع ہو اجائیں بھلا وہ کام باطل ہو سکتا ہے مقصد یہ کہ دلیل کوئی نہیں۔ محض اٹکل پچو باتیں ہیں جن کے پیچھے بلا سوچے سمجھے چلے جا رہے ہیں۔ ہر بدعت کی ابتداء میں کہا جاتا ہے کہ اگر یہ کتاب وسنت سے ثابت نہیں تو اس میں حرم بھی کہا ہے۔ پھر جب وہ بدعت رائج ہوجاتی ہے کہ سب لوگ کر رہے ہیں ، آخر ہم کیوں نہ کریں۔ اس کا معنی تو یہ ہے کہ اگر کسی کام کے لیے بہت سے گدھے بھی اکٹھے ہوجائیں تو یہ اس کام کے حق میں دلیل بن جاتی ہے۔ اسی کے متعلق فرمایا کہ ان کے اکثر لوگ بلا دلیل محض گمان کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ گمان دو طرح کا ہے امام بضاوی (رح) مفسر قرآن فرماتے ہیں کہ فروعات اور اعمال میں گمان پر چلنا جائز ہے جیسے مجتہدین اور فقائے کرام ظنی باتوں کے ذریعے ہی مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ آپ اس پر عمل کرسکتے ہیں مگر عقیدے کے معاملے میں ظن پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں قرآن وسنت سے نص کی ضرورت ہے جب پکی دلیل موجود نہ ہو ، محض سنی سنائی اور قیاسی باتوں سے دلیل قائم نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا عقیدے کے متعلق ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ حق بات کو تلاش کرے اور پھر اس کے مطابق عمل کرے۔ جب حق معلوم ہوجائے تو پھر اس کے مقابلے میں ظن فائدہ نہیں دے سکتا۔ عقیدے کے معاملے میں کوئی اٹکل پچو بات کام نہیں دے گی۔ اچھا گمان بعض اچھے گمان بھی ہوتے ہیں جیسے فرمایا ” ظنوا المنومنین خیرا “ ایک مومن کو دوسرے مومن کے متعلق اچھا گمان رکھنا چاہیے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی نہ مرے مگر اس حالت میں کہ اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو کہ وہ غور اور رحیم ہے اور ضرور مہربانی فرمائے گا۔ کسی شخص کو مایوسی کی حالت میں اللہ کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ اچھے گمان کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک چھوٹا بچہ کوئی ہدیہ لے کر آپ کے پاس آتا ہے کہ اس کے والد نے آپ کے لیے بھیجا ہے ظاہر ہے کہ اس کے متعلق آپ کو یقین تو نہیں ہے کہ یہ تحفہ واقعی فلاں شخص نے بھیجا ہے مگر آپ اس گمان پر چلتے ہوئے اس تحفہ کو قبول کرلیتے ہیں۔ اسی کو اچھا گمان کہا گیا ہے۔ ایسی باتوں میں گمان پر چلنا درست ہے مگر خدا کی ذات ، اس کی صفات ، توحید ، نبوت ، قیامت ، کتب سماویہ ، ملائکہ اور تقدیر وغیرہ کے معاملہ میں ظن کچھ فائدہ نہیں دیگا بلکہ ان چیزوں کے لیے قطعی دلیل کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح حلال حرام بھی محض گمان سے ثابت نہیں ہوتا۔ حلال وہی ہے جس کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور اس کے رسول نے حلال بتلایا ہے ، محض سنی سنائی باتوں سے کسی چیز پر حلت و حرمت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ فرمایا ” ان الظن لا یغنی من الحق شیا “ بیشک گمان حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا (آیت) ” ان اللہ علیم بما یفعلون “ بیشک اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال کو جانتا ہے۔ اس کے علم میں ہے کہ کون حق پر ہے اور کون محض گمان کی پیروی کررہا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون مخلص ہے۔ اور کون ضد اور عناد پر ڈٹا ہوا ہے۔ سب کے محاسبہ کا وقت آنے والا ہے جب ان کو اپنے کئے کا بھگتان کرنا ہوگا۔
Top