Ruh-ul-Quran - Yunus : 34
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں هَلْ : کیا مِنْ : سے شُرَكَآئِكُمْ : تمہارے شریک مَّنْ : جو يَّبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر اسے لوٹائے قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يَبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرتا ہے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ : پھر يُعِيْدُهٗ : اسے لوٹائے گا فَاَنّٰى : پس کدھر تُؤْفَكُوْنَ : پلٹے جاتے ہو تم
اے پیغمبر ! ان سے پوچھئے تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے۔ کہہ دیجیے وہ صرف اللہ ہی ہے جو تخلیق کا آغاز بھی کرتا ہے پھر اس کا اعادہ بھی کرے گا۔ تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو۔
قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّبْدَؤْا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ط قُلِ اللّٰہُ یَبْدَؤْا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ۔ (یونس : 34) (اے پیغمبر ! ان سے پوچھئے تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے۔ کہہ دیجیے وہ صرف اللہ ہی ہے جو تخلیق کا آغاز بھی کرتا ہے پھر اس کا اعادہ بھی کرے گا۔ تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو۔ ) مشرکین کی ایک اور گمراہی اس سے پہلے آیت نمبر 31 میں پروردگار نے کچھ سوالات مشرکینِ مکہ کے سامنے پیش کیے اور پھر خود ہی ان کا وہ جواب دیا جو ان کے نزدیک مسلم تھا۔ لیکن زبان سے اس کا اظہار انھیں اس وقت کرنا پسند نہ تھا۔ اگرچہ ان کے دل اس کی گواہی دیتے تھے۔ اس سوال و جواب کے نتیجے میں دو باتیں ان سے فرمائی گئیں۔ پہلی بات یہ کہ جب تم تسلیم کرتے ہو کہ یہ ساری صفات اللہ ہی کی ہیں اور و ہی ان قدرتوں کا مالک ہے تو پھر اس کی عطاء کردہ زندگی میں اپنی مرضی کرتے اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے تم اس کے غضب سے ڈرتے نہیں ہو۔ یہ ایک ایسا مطالبہ تھا جس کے حق اور امرواقع ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسری بات ان سے یہ فرمائی گئی کہ جب تم اللہ کو خالق، رازق، حواس اور عقل کا عطاء کرنے والا اور کائنات کے نظام کی تدبیر کرنے والا تسلیم کرتے ہو تو پھر اس کی موجودگی میں دوسروں کو رب کیونکر تسلیم کرتے ہو کیونکہ سروری، آقائی اور عبادت کا حق صرف اسی کو دیا جاسکتا ہے جس کے اندر یہ تمام صفات پائی جاتی ہوں اور یہی تینوں صفات ہیں جن کے مجموعہ کو ربوبیت کہتے ہیں تو دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کو رب کیسے مانتے ہو جبکہ ربوبیت کے لیے بنیادی صفات وہی ہیں جن کا ابھی تذکرہ ہوا اور ان صفات سے متصف اللہ کی ذات کے سوا اور کوئی نہیں، لیکن تم نے بجائے اس کو رب واحد تسلیم کرنے کے اس کے شرکاء بنا رکھے ہیں۔ ان کی اس بنیادی گمراہی کے ابطال کے بعد پیش نظر آیت ِ کریمہ میں ان کی ایک اور بڑی گمراہی کا ازالہ سوال ہی کے انداز میں کیا جارہا ہے۔ وہ گمراہی یہ تھی کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو قیامت کے نہ آنے کا یا تو یقین تھا یا اس کے آنے میں شبہ تھا اور شبہ کی بنیاد یہ تھی کہ تمام انسانوں اور زمین و آسمان کا بیک لمحہ فنا ہوجانا اور پھر ایک مدت کے بعد ازسرنومعرضِ وجود میں آجانے کا انھیں یقین نہیں آتا تھا۔ یہ بات ان کی عقل کسی طرح تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ اتنی بڑی کائنات اچانک تباہ ہوسکتی ہے اور پھر اسی طرح دوبارہ وجود میں بھی آسکتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ان کی اس بنیادی گمراہی کا ازالہ فرمایا گیا ہے کیونکہ جس طرح اللہ کی ربوبیت کا انکار اللہ کو نہ ماننے کے مترادف ہے جس کے نتیجہ میں ایمان اپنے بیخ و بن سے اکھڑ جاتا ہے اسی طرح قیامت کا انکار انسان کو ایک ایسا غیرذمہ دار اور لا ابالی حیوان بنا دیتا ہے جس سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے اسی زور اور اصرار کے ساتھ سوال کیا گیا ہے کہ بتائو اس کائنات کا خالق کون ہے۔ کائنات کی تخلیق کی ابتداء کس نے کی ؟ مادہ تخلیق کو کس نے پیدا کیا ؟ پھر ہر مخلوق کے سلسلہ توالد و تناسل کو کس نے وجود عطا فرمایا ؟ آج ہر مخلوق جس طرح پھیلتی چلی جارہی ہے یہ کس کا فیضان اور کس کی عطا ہے اور اگر تم مانتے ہو اور یقیناً مانتے ہو کہ اللہ ہی کائنات کا خالق ومالک ہے۔ اسی نے ہر چیز کی تخلیق کا آغاز کیا ہے اور وہی اس سلسلے کو باقی رکھے ہوئے ہے اور پھر یہ بھی تو تم تسلیم کرتے ہو کہ جس طرح وہ زندگی عطا فرماتا ہے اسی طرح موت بھی اسی کے قبضے میں ہے۔ وہ جس طرح کائنات کو زندگی دے سکتا ہے اسی طرح موت سے بھی ہمکنار کرسکتا ہے اور یہ عقل عام کی بات ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ جو ذات کسی چیز کے بنانے اور اس کی تخلیق کرنے پر ایک دفعہ قادر ہے وہ دوبارہ بھی اسے پیدا کرنے پر قادر ہے۔ جو معمار ایک عمارت تعمیر کرسکتا ہے وہ اسے مسمار بھی کرسکتا ہے اور اگر دوبارہ اسے بنانے کے لیے کہا جائے تو وہ دوبارہ بنا بھی سکتا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ تاج محل کے معمار اگر آج زندہ ہوتے تو وہ دوبارہ اسے تعمیر نہیں کرسکتے تھے اور جن ہنرمندوں کے ہنر کا شاہکار اہرامِ مصر ہیں ان کے بارے میں کوئی عقل مند آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ دوبارہ اہرام مصر بنانے پر قادر نہیں تھے کیونکہ اگر وہ دوبارہ بنانے پر قادر نہ ہوتے تو ایک اہرام بنانے کے بعد دوسرا اہرام کبھی نہ بنا سکتے۔ اگر یہ واقعی عقل کا فتویٰ ہے کہ کوئی بھی تخلیق دو باہ ناممکن نہیں ہوتی اور کوئی بھی تخلیق کو وجود میں لانے والا دوبارہ اس سے تہی دامن نہیں ہوجاتا تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ تم اللہ کو بہمہ وجوہ خالق تو مانتے ہو لیکن کائنات کے فنا ہوجانے کے بعد اس کے اعادہ کرنے پر تم اسے قادر نہیں سمجھتے۔ یہ تو ایک طرح کی فکری شکست اور عقل و دانش کے اوندھے منہ گر جانے والی بات ہے اور یہ وہ حماقت کی انتہاء ہے جس نے تمہیں قیامت کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں آج تک یکسو ہونے سے محروم رکھا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ تمہاری فکر اور تمہارے اعمال میں بہتری کے آثار پیدا نہیں ہوتے کیونکہ قیامت کا آنا بجائے خود مقصد نہیں بلکہ ایک مقصد کے بروئے کار لانے کا سبب ہے۔ وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ میں اس دنیا میں رہتے ہوئے جس ظلم، بےاعتدالی، حق تلفی، حق شکنی اور جس گمراہی کا ارتکاب کروں گا قیامت کے دن اس کی جوابدہی کرنا ہوگی۔ زندگی کا ایک ایک عمل عدالت کے سامنے ہوگا۔ وہاں ہر نیکی کا بدلہ ملے گا اور ہر برائی کی سزا ملے گی۔ عدل اپنی وسعتوں سمیت بروئے کار لایا جائے گا۔ ظلم کی ایک ایک شکل کھول کر سامنے رکھ دی جائے گی۔ کوئی قربانی دینے والا بےپایاں اعزاز سے محروم نہیں رہے گا اور کوئی بڑے سے بڑا جرم کرنے والا وسیع تر سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ یہ تمام تصورات قیامت کے ایک تصور میں رچے بسے ہیں۔ انھیں تصورات کو قبول کرنے سے انسانی زندگی میں حقیقی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ ہر بات سوچنے سے پہلے، ہر فیصلہ کرنے سے پہلے اور ہر عمل کرنے سے پہلے سوچتا ہے کہ میں اللہ کے سامنے جا کر کیا جواب دوں گا۔ جب یہ فکر انسان میں پیدا ہوجاتی ہے تو پھر کوئی فکری اور عملی خرابی باقی رہنے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح بنیادی تصور اور عقیدے کے لیے سوالات کی صورت میں ایک ایسی مضبوط دلیل فراہم کی گئی ہے جس کی گرفت سے صرف وہی آدمی آزاد رہتا ہے جو زندگی کے معاملات میں سنجیدہ نہ ہو اور یہ بات واضح ہے کہ ایسے آدمی کا دنیا میں کوئی علاج نہیں۔
Top