Urwatul-Wusqaa - Hud : 110
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّهُمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب فَاخْتُلِفَ : سو اختلاف کیا گیا فِيْهِ : اس میں وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : ایک بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : البتہ فیصلہ کردیا جاتا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان وَاِنَّهُمْ : اور بیشک وہ لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مُرِيْبٍ : دھوکہ میں ڈالنے والا
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی پھر اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر تیرے پروردگار نے پہلے سے ایک بات نہ ٹھہرا دی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور ان لوگوں کو اس کی نسبت شبہ ہے جس سے وہ حیران ہیں
موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے کتاب دی پھر اس میں اختلاف کیا گیا پھر اختلاف کا انجام کیا نکلا ؟ ۔ 137 زیر نظر آیت میں نبی اعظم و آخر ﷺ کو ایک طرح سے تسلی دی جا رہی ہے کہ اے ہمارے رسول ! ﷺ اگر اہل مکہ قرآن کریم کے متعلق دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے جو کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی تھی اس میں بھی لوگ دو مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے جس طرح قرآن کریم کو بعض نے اللہ کا کلام مانا اور اکثریت نے اس کا انکار کیا تو یہی کچھ قبل ازیں تو رات کے سامنے بھی ہوچکا۔ آپ پریشان و حزیں نہ ہوں ایسا ہوتا ہی آیا ہے بلاشبہ اگر تیرے رب کی طرف سے جھٹلانے والوں کے لئے اگر ایک وقت عذاب مقرر نہ کردیا ہوتا تو ان کو ابھی اختلاف کرتے ہی عذاب میں مبتلا کردیا جاتا لیکن چونکہ اختلاف کرنے والوں کے لئے ایک وقت عذاب کا علم الٰہی میں مقرر کیا جا چکا ہے لہٰذا اس کا فیصلہ بدلا نہیں جاتا اس لئے اس فیصلہ کے پیش نظر ان پر فوراً عذاب نہیں اتر رہا۔ ہاں ! چاہئے تو یہ تھا کہ منکرین پر فوراً عذاب آجاتا تاکہ دوسرے لوگوں کے لئے عبرت کا باعث ہوتا لیکن پھر اس کو مجبور کرنا ہی کہا جاتا اور تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ کسی کو مجبور کر کے اس سے کچھ منوایا نہ جائے بلکہ ماننے اور نہ ماننے کے معاملہ میں انسان کو آزاد رکھا گیا اور ایک حد تک اس کو اختیار دیا گیا جو اس سے سلب نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسی اختیار کے باعث وہ مکلف قرار پایا اور اس کو مجبور محض نہ بنایا گیا تاکہ اس سے اس کے کئے کی باز پرس ہو سکے۔ اس چیز نے ان لوگوں کو شبہ میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کی نسبت وہ حیرانی میں پڑے ہیں حالانکہ اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا جاتا تو اس میں حیراین میں پڑنے کی کوئی بات نہ تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح نہ پہلوں کا شبہ دور ہوا اور نہ ہی آج ہمارا یہ شبہ دور ہونے کو ہے۔ اسی شک و شبہ میں وہ مبتلا تھے اور اسی شک و شبہ میں ہم مبتلا ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ان کی بات ہم کو قرآن کریم سے پڑھ کر سنائی جا رہی ہے اور ہم قرآن کریم کے نزول کے بعد پیدا ہوئے ہیں لیکن یہ بات ہمارے لئے کچھ مفید ثابت نہیں ہو سکتی کہ اس وقت تو دو اور دو چار تھے لیکن اب شاید نہ ہوں۔ لیکن یہ استدلال قرآنی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصر مگر جامع تذکرہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے اس لئے آپ کے واقعات مختصر سرگزشت کے عنوان سے نہیں دیئے جا رہے۔
Top