Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 10
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّ مِنْهُ شَجَرٌ فِیْهِ تُسِیْمُوْنَ
هُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَنْزَلَ : نازل کیا (برسایا) مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لَّكُمْ : تمہارے لیے مِّنْهُ : اس سے شَرَابٌ : پینا وَّمِنْهُ : اور اس سے شَجَرٌ : درخت فِيْهِ : اس میں تُسِيْمُوْنَ : تم چراتے ہو
وہ وہی ذات ہے جس نے اتار آسمان کی طرف سے پانی تمہارے لیے اسی میں تمہارے پینے کا سامان ہے اور اسی سے درخت اگتے ہیں جس میں جانوروں کو چراتے ہو۔
) ربط آیات ( سورة کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے نزول وحی کا ذکر کرکے اپنے انبیاء کو حکم دیا (آیت) ” ان انذروا انہ لا الہ الا انا فاتقون “۔ یعنی لوگوں کو خبردار کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، لہذا مجھ ہی سے ڈرو پھر اللہ تعالیٰ نے نشانات قدرت کا ذکر کیا جن میں ہر نشانی اس کی وحدانیت کی دلیل بنتی ہے ، ارض وسما کی تخلیق ، حقیر قطرہ آب سے انسان کی پیدائش ، مویشیوں سے حاصل ہونے والے فوائد اور ان سے زینت کا سامان پیدا کرنے کا ذکر کرکے اللہ نے اپنی رافت اور شفقت کی طرف اشارہ کیا ، پھر یہ پیش گوئی کردی کہ سواری کے لیے ان جانوروں کے علاوہ اللہ تعالیٰ اور بھی بہت سی چیزیں پیدا کرتا رہے گا ، جسے تم اس وقت نہیں جانتے ان مادی لوازامات کے ساتھ ساتھ اللہ نے انسان کی روحانی اور اخروی زندگی کا سامان بھی پیدا فرمایا ، اس نے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی کہ جس پر چل کر انسان اللہ کی رحمت کے مقام تک پہنچ سکیں گے ، فرمایا اگر انسان غور وفکر کرے تو یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل ہیں ۔ (پانی کی ضرورت) اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی مادی ضروریات سے متعلق بعض انعامات کا ذکر کیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ھو الذی انزل من السمآء مآء لکم “۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان کی طرف سے پانی نازل فرمایا یہ پانی بھی اللہ کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی نشانی ہے ، سماء کا لفظ بادل پر بھی بولا جاتا ہے ، چناچہ گذشتہ سورة الحجر میں گزر چکا ہے کہ ہم نے بوجھل ہوائیں بھیجیں (آیت) ” فانزلنا من السمآء مآء “۔ اور بادلوں سے پانی برسایا ، ہوائیں بوجھل بادلوں کو اٹھا کرلے جاتی ہیں ، اور پھر جہاں مشیت ایزدی ہوتی ہے وہاں بارش برستی ہے ، بہرحال السمآء سے محض بادل بھی مراد نہیں بلکہ اس لفظ میں عالم بالا کا حکم بھی شامل ہے ، بادل زمین اور آسمان کے درمیان فضا میں چلتے ہیں ، اور حکم الہی کے مطابق بارش برساتے ہیں ۔ فرمایا اس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی نازل فرمایا (آیت) ” منہ شراب “۔ جو تمہارے لیے بطور مشروب ہے انسانی زندگی کا انحصار بہت حد تک پانی پر ہے ، میڈیکل سائنس والے کہتے ہیں کہ انسانی جسم میں چلنے والے خون میں اسی فیصدی پانی اور بیس فیصدی غذائیت ہوتی ہے ۔ انسان جو بھی خوراک کھاتا ہے وہ جگر میں پہنچ کر خود میں تبدیل ہوجاتی ہے ، انسانی جسم میں جگر اتنی بڑی فیکٹری ہے کہ اس مادی دنیا میں اتنا بڑا کوئی کارخانہ نہیں ہے ، اس قدرتی فیکٹری میں اللہ کے لاکھوں کروڑوں فرشتے مصروف کار ہیں جو غذائوں کو خون میں تبدیل کرتے ہیں ، پھر اس خون کو قلب میں بھیج کر سارے جسم میں پھیلا دیتے ہیں ، اور اس طرح استعمال شدہ غذا جسم کے ہر حصہ میں پہنچتی ہے ، جسم کا ہر عضو اس میں سے اپنی ضرورت کی غذا حاصل کرلیتا ہے اور غلیظ مادہ دوسرے راستے سے پھیپھڑے میں آجاتا ہے وہاں پر اسے تازہ ہوا (آکسیجن) میسر آتی ہے تو مادے کا بعض حصہ صاف ہوجاتا ہے اور گندہ دخان باہر نکل جاتا ہے ، بہرحال پانی اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ، ہمارے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ حجاز میں سفر کے دوران بعض ایسے مواقع بھی آئے کہ ایک لوٹا پانی سے سات سات آدمیوں نے وضو کیا ، پانی کی قدر ان خطوں میں ہے ، جہاں اس کی قلت ہے ہمارے ہاں تو پانی کی فراوانی ہے اور قدر نہیں ہے ، وضوء اور غسل پر گھڑوں پانی استعمال کیا جاتا ہے ، نلوں اور ٹیوب ویلوں نے پانی کی اتنی افراط کردی ہے کہ ہر روز کثیر مقدار میں پانی ضائع ہوتا ہے لوگ پانی استعمال کرنے کے بعد ٹونٹی کو بند کرنے کی تکلیف نہیں کرتے ، جس کی وجہ سے منوں اور ٹنوں وزنی پانی ضائع ہوتا ہے حالانکہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچاؤ ” ان کنت علی شط النھر “۔ یعنی اگرچہ تم نہر کے کنارے پر ہی کیوں نہ ہو ، وہاں بھی پانی کا اسراف درست نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق ہی استعمال کرنا چاہئے ، اسی لیے اعضائے وضو کو تین دفعہ سے زیادہ بلاضرورت دھونا اسراف میں داخل ہے جو شخص ایسا کرتا ہے ” فعصی وتعدی “ اس نے برائی اور تعدی کی انسان کی سعادت مندی اسی میں ہے کہ حضور ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی ہر کام انجام دے ، اگر کوئی حصہ عضو خشک رہ گیا ہو یا وضو کی تکمیل کا تیقن نہ ہو تو تین سے زیادہ بار بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ، بہرحال پانی جیسی نعمت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ تمہارے پینے کی چیز ہے ۔ (نباتات کے لیے پانی) اللہ تعالیٰ نے پانی کا پہلا فائدہ تو یہ بتایا ہے کہ یہ انسانوں کے لیے اور دیگر جانداروں کے لیے مشروب ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ (آیت) ” ومنہ شجر فیہ تسیمون “۔ اسی پانی سے درخت ، پودے ، گھاس پھونس اور جڑی بوٹیاں بھی اگتی ہیں جن میں تم جانور چراتے ہو جانور بھی انسانی غذا کا ایک اہم حصہ ہیں ، جانوروں کا گوشت انسانی جسم کو لحمیات (پروٹین) مہیا کرتا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت جلد جزو بدن بن جاتا ہے ، تو جانوروں کا مدار حیات بھی اللہ نے پانی پر رکھا ہے پانی جانوروں کے لیے بطور مشروب بھی ضروری ہے اور ان کی خوراک کا دارومدار بھی پانی پر ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ینبت لکم بہ الزرع “۔ اللہ تعالیٰ اسی پانی کے ذریعے تمہارے لیے کھیتی اگاتا ہے ، پہلے پانی کا ذکر بطور انسانی مشروب کے کیا گیا تھا ، اب اسے انسانی خوراک کا ذریعہ بھی بتلایا گیا ہے کہ پانی کے ذریعے ہی کھیتی باڑی ہوتی ہے ، اناج اور غلہ پیدا ہوتا ہے ، پھل پیدا ہوتے ہیں جو انسان کی خوراک بنتے ہیں (آیت) ” والزیتون “ اور زیتون بھی پانی کے ذریعے ہی پیدا ہوتا ہے اس درخت کا پھل بھی کارآمد ہے اور اس کا تیل تو کثرت سے استعمال ہوتا ہے ، حضور ﷺ نے بھی زیتون کی تعریف فرمائی (1) (تفسیر مظہری ص 524 ج 6) ہے ” کلوا الزیت وادھنوا “۔ زیتون کو کھاؤ بھی اور اس کی مالش بھی کرو ، انسانی بدن کی جلدی بیماریوں کے لیے زیتون کا تیل بڑا مفید ہے ، اسکے علاوہ یہ کھانا پکانے میں گھی کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے ، اللہ نے اسے بڑا بابرکت درخت بنایا ہے جس کے لیے اللہ کے نبیوں نے برکت کی دعائیں کی ہیں ۔ (آیت) ” والنخیل “ کھجور کا درخت بھی پانی کا مرہون منت ہے یہ درخت بڑی لمبی عمر پاتا ہے اور پھل بھی بہت زیادہ دیتا ہے ، اس کا پھل جلدی خراب نہیں ہوتا ، اس لیے اگلا پھل آنے تک سارا سال استعمال ہوتا رہتا ہے ، ریگستانی علاقوں میں کھجور کی بڑی افادیت ہے جہاں یہ پھل خوراک کے طور پر بھی کھایا جاتا ہے کیونکہ اس میں بڑی غذائیت ہے اور بطور تفریح تو یہ پھل بہرحال استعمال ہوتا ہے ، اس کے علاوہ (آیت) ” والاعناب “ انگور کی پیداوار بھی پانی ہی پر منحصر ہے یہ بھی بڑا عمدہ پھل ہے ، اس سے مشروب ، مربہ اور کئی قسم کی چیزیں تیار کر کے دیر تک محفوظ رکھی جاسکتی ہیں ، الغرض ، فرمایا (آیت) ” ومن کل الثمرات “۔ اللہ نے اس پانی کے ذریعے ہر قسم کے پھل پیدا کیے ہیں جو انسان کھاتے ہیں ان میں بڑی غذائیت اور توانائی ہوتی ہے بلکہ بعض پھل دیگر خوراک کو بھی ہضم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں ، تو اللہ نے یہ تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا فرمائی ہیں اور ان سب کا دارومدار پانی پر ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایۃ لقوم یتفکرون “۔ اس میں غوروفکر کرنے والے لوگوں کے لیے نشانی ہے ، دیکھو ! ایک ہی پانی سے اللہ تعالیٰ بیشمار اقسام کا اناج پھل اور دوسری نباتات پیدا کرتا ہے ، یہی اس کی وحدانیت کی دلیل ہے ، اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی کوئی چیز پیدا کرنے پر قادر نہیں ، دوسرے مقام پر آتا ہے کہ ایک ہی پانی سے پیدا ہونے والے پھلوں کے رنگ ، شکلیں خوشبو اور ذائقے کس قدر مختلف ہیں ، کیا یہ کسی مادے کی طاقت ہے یا نیچر کے مطابق خود بخود ہورہا ہے ؟ نہیں ، بلکہ یہ سارا کارخانہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ سے چل رہا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن میں غور وفکر کرکے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سمجھ میں آتی ہے مگر اکثر لوگ ان چیزوں کی طرف دھیان ہی نہیں کرتے ، نعمتوں کا استعمال کرتے ہیں ، روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں مگر کبھی سوچا تک نہیں کہ آخر یہ سب کچھ کون کر رہا ہے ۔ (شمس وقمر کی ضیاپاشیاں) آگے بعض دوسرے انعامات کا ذکر ہے (آیت) ” وسخرلکم اللیل والنھار “۔ اللہ نے تمہارے لیے رات اور دن کو مسخر کردیا ہے یعنی تمہارے کام پر لگا دیا ہے (آیت) ” والشمس والقمر “۔ اور سورج اور چاند کو بھی یہ چار چیزیں ایسی ہیں جن سے ہر انسان کو ہر وقت واسطہ رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے رات کو انسانوں اور جانوروں کے لیے آرام کا ذریعہ بنایا ہے جب کہ دن کے وقت لوگ کام کرتے ہیں اور روزی کماتے ہیں جانور ، پرندے اور چرندے بھی دن بھر اپنی روزی کے لیے تگ ودو کرتے ہیں اور رات کو آرام کرتے ہیں ، پورے نظام شمسی (SOLAR SYSTEM سولر سسٹم) میں سورج کو مرکزی حیثیت حاصل ہے دن رات کا تغیر وتبدل اسی کے ساتھ وابستہ ہے سورج تمام انسانوں اور جانوروں کے لیے روشنی بہم پہنچاتا ہے ان کے لیے گرمی مہیا کرتا ہے جس سے فصلیں اور پھل پکتے ہیں اور جانداروں کی خوراک بنتے ہیں ، اسی طرح چاند کی دہیمی روشنی رات کے اندھیروں میں بہت حد تک کام آتی ہے یہی مدھم روشنی پھلوں میں رس پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے اور سمندروں میں مدوجزر پیدا ہوتے ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” والنجوم مسخرت بامرہ “۔ ستارے بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے مسخر ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ستاروں اور سیاروں کا وسیع نظام پیدا کرکے ان سب کو اپنے اپنے کام پر لگا دیا ہے سائنسدانوں نے تجربات کے ذریعے بعض ستاروں اور سیاروں کی حرکات و سکنات کا پتہ چلایا ہے اور مزیدتجربات ہو رہے تاہم عام مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ ستارے ایک چال سے ایک خاص منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں ، پرانے زمانے میں لوگ سمندری اور صحرائی سفر کے دوران انہی ستاروں سے منزل کی طرف راہنمائی حاصل کرتے تھے ۔ فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون “۔ بیشک اسمیں نشانات ہیں ، ان لوگوں کے لیے جو عقل وفہم سے کام لیتے ہیں جو لوگ اپنی عقل سے کام نہیں لیتے ، ان کے لیے تمام مذکورہ نشانات کچھ مفید نہیں ہو سکتے ، لوگ ان پر سے صبح وشام گزر جاتے ہیں ، مگر ان سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ، سورة انفال میں موجود ہے کہ کافر لوگ ” الصم البکم الذین لا یعقلون “۔ ایسے ہیں جو گونگے اور بہرے ہیں اور کچھ عقل نہیں رکھتے ، اگر عقل کو صحیح طریقے پر استعمال کرتے تو کفر اور شرک میں کیوں مبتلا ہوئے ، ان کی بےعقلی کا یہی ثبوت کافی ہے ، کہ اللہ کی قدرت کی کوئی نشانی انہیں نظر نہیں آتی ۔ مزید ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وما ذرالکم فی الارض مختلفا الوانہ “۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین میں جو چیزیں پھیلائی ہیں ، ان کے رنگ بھی مختلف ہیں ، انسانوں کو دیکھ لیں مختلف خطوں کے لوگوں کے رنگ ، وضع قطع اور قد کاٹھ مختلف ہیں ، پھل ہر قسم کے پائے جاتے ہیں ، مگر ان کی شکلیں ، رنگ ، ذائقہ اور بو مختلف ہے ، اللہ نے پھولوں کی بیشمار قسمیں پیدا کی ہیں ہر ایک کا رنگ اور بو جدا جدا ہے ، اناج اور سبزیاں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں ، اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، یہ ساری چیزیں شاہکار قدرت ہیں (آیت) ” ان فی ذلک لایۃ لقوم یذکرون “۔ ان سب چیزوں میں بھی نشانیاں ہیں ، مگر ان لوگوں کے جو نصیحت پکڑتے ہیں ، غافل انسان ان چیزوں سے کچھ نصیحت حاصل نہیں کرتے ، جب کہ صاحب عقل و دانش انہی نشانات قدرت سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہیں ۔ (مچھلی بطور تازہ گوشت) فرمایا (آیت) ” وھو الذی سخر البحر “۔ اور وہ وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے سمندروں اور دریاؤں کو مسخر کیا (آیت) ” لتاکلوا منہ لحما طریا “۔ تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ ، دریاؤں اور سمندروں کے کنارے بعض خطوں کی معیشت کا انحصار مچھلی کے شکار پر ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کی خاطر پانی میں تازہ گوشت پیدا کردیا ہے جو انسانی خوراک کا ایک اہم حصہ ہے ، اس طرح گویا اللہ نے سمندروں کو بھی انسان کی خدمت پر مامور کردیا ہے کہ وہ اس کی خوراک کے لیے مچھلی پیدا کریں ، مچھلی کا گوشت بھی اللہ نے عجیب نعمت پیدا کی ہے جس کا ذائقہ دوسرے گوشت سے مختلف ہے مگر اس میں بھی انسانی حیات کے لیے بہت سے پروٹین پائے جاتے ہیں ، اس کا تیل بڑی مفید چیز ہے جو اکثر دوائیوں میں استعمال ہوتا ہے اس کی چربی اور کانٹے بھی بڑی مفید چیزیں ہیں ، بہرحال مچھلی انسان کی حرارت اور توانائی کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جسے اللہ نے اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر ذکر کیا ہے ۔ (فقہی مسائل متعلقہ مچھلی) چونکہ مچھلی کا گوشت عام جانوروں کے گوشت سے قدرے مختلف ہے ، اس لیے اس سے متعلقہ مسائل میں بھی فقہائے کرام کا اختلاف رہا ہے ، مثلا اگر کوئی شخص قسم اٹھاتا ہے کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا اور پھر وہ مچھلی کا گوشت کھا لیتا ہے تو امام سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ اس شخص کی قسم ٹوٹ جائے گی کیونکہ مچھلی کا گوشت بھی گوشت ہی ہے جسے اللہ نے لحما طریا “ یعنی تازہ گوشت فرمایا ہے ۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ عرف عام میں مچھلی کا اطلاق گوشت پر نہیں ہوتا اس لیے مچھلی کا گوشت کھانے سے اس شخص کی قسم نہیں ٹوٹے گی ، وہ مثال کے طور پر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے خادم کو گوشت لانے کا حکم دے اور وہ مچھلی لے آئے تو وہ قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ عرف عام کے مطابق گوشت سے مراد بھیڑ بکری ، یا گائے اونٹ کا گوشت مراد لیا جاتا ہے ، اور مچھلی کا گوشت مطلوب ہو تو اسے مچھلی کے ساتھ خاص کیا جاتا ہے ، اس مسئلہ میں مزید تیقن پیدا کرنے کے لیے امام صاحب (رح) نے ایک آدمی کو امام سفیان ثوری (رح) کے پاس بھیجا کہ وہ جا کر ان سے دریافت کرے کہ اگر کوئی شخص قسم اٹھائے کہ میں بساط پر نماز نہیں پڑھوں گا اور پھر وہ زمین پر نماز ادا کرے تو کیا اس کی قسم ٹوٹ جائے گی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ قسم نہیں ٹوٹے گی کیونکہ اس شخص نے بساط یعنی دری ، قالین ، یا چٹائی وغیرہ پر نماز نہ پڑھنے کی قسم اٹھائی ہے ، نہ کہ خالی زمین پر ، اس پر امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ اللہ نے سورة نوح میں زمین کو بھی بساط فرمایا ہے (آیت) ” وجعل الارض بساطا ‘ ؓ اس نے تمہارے لیے زمین کو بساط بنایا ہے ، اگر عرف عام میں بساط کو زمین پر قیاس نہیں کیا جاتا تو مچھلی کو گوشت پر کیسے محمول کیا جائے گا ؟ بہرحال اگرچہ مچھلی کا گوشت بھی گوشت ہی ہوتا ہے تاہم اسے جانور کے گوشت پر محمول نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کی ایک مثال اس طرح بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے قسم اٹھائی کہ میں فلاں شخص سے بات چیت نہیں کروں گا ، اب اس شخص کے مرنے کے بعد اگر قسم اٹھانے والے شخص نے اس کو مخاطب کرلیا تو امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی کیونکہ عرف عام میں اس کلام کو کلام ہی نہیں کہا جاتا جو کسی کے ساتھ اس کے مرنے کے بعد کیا جائے گا ، ہاں اگر وہ اس کی زندگی میں اس سے کلام کرتا ، تو قسم ٹوٹ جاتی ، اسی طرح ایک شخص دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ مجھے بازار سے سری لادے ، تو اگر مامور مرغی یا چڑیا کی سری لے آئیگا تو وہ قابل قبول نہ ہوگی ، بلکہ عرف عام کے مطابق بھیڑ بکری یا گائے بھینس کی سری کو ہی سری پر محمول کیا جاتا ہے ۔ (سمندروں کے دیگر فوائد) فرمایا دریاؤں اور سمندروں کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لیے تازہ گوشت مہیا کرتے ہیں اور دوسرا یہ ہے (آیت) ” وتستخرجوا منہ حلیۃ تلبسونھا “۔ تاکہ تم ان میں سے پہننے کے لیے زیورات نکالو ، یہاں زیورات سے مراد مونگے اور موتی ہیں جنہیں عورتوں کے علاوہ مرد بھی پہن سکتے ہیں ، البتہ مع دنیات کے طور پر زمین اور پہاڑوں سے نکلنے والا سونا اور چاندی مرد کے لیے حلال نہیں ہے ، بہرحال سمندروں سے نکلنے والے زیورات پہنے جاتے ہیں ، پھر فرمایا (آیت) ” وتری الفلک مواخر فیہ “۔ اے مخاطب ! تم ان کشتیوں کو بھی دیکھتے ہو جو پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں ، آج کی دنیا میں چھوٹی چھوٹی بادبانی کشتیوں سے لے کر تیل سے چلنے والی کشتیاں ، سیٹمر اور بڑے بڑے بحری جہاز سمندر کی سطح پر دوڑتے نظر آتے ہیں ، جو انسان کی بڑی خدمت بجا لاتے ہیں مسافروں کی نقل و حرکت کے علاوہ لاکھوں ٹن وزنی سامان ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک منتقل ہوتا ہے ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے سمندوں اور دریاؤں کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے (آیت) ” ولتبتغوا من فضلہ “۔ تاکہ تم اللہ کے فضل میں سے تلاش کرو ، فضل سے مراد ررزق حلال ہے جو بحری جہاز کے دو دراز کے سفر کے ذریعے تلاش کیا جاتا ہے ، ایک مومن رزق حلال حاصل کرنے کا پابند ہے کیونکہ رزق حرام سے تو عبادت بھی نامقبول ہوتی ہے ، اللہ کے فضل میں عبادت بھی داخل ہے کہ حج وعمرہ کے لیے ، دوست احباب اور عزیزوں سے ملاقات کے لیے بھی سفر اختیار کیا جاتا ہے ، (آیت) ” ولعلکم تشکرون “۔ اور تاکہ تم اللہ کا شکر ادا کرو ، کہ اس نے تمہیں اتنی نعمتیں عطا کی ہیں ، یہ سب اللہ کی وحدانیت کے دلائل ہیں جو آگے بھی ذکر کئے جائیں گے ۔
Top