Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 61
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ : گرفت کرے اللّٰهُ : اللہ النَّاسَ : لوگ بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے سبب مَّا تَرَكَ : نہ چھوڑے وہ عَلَيْهَا : اس (زمین) پر مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ ڈھیل دیتا ہے انہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آگیا اَجَلُهُمْ : ان کا وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ پیچھے ہٹیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّ : اور لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ : نہ آگے بڑھیں گے
اور اگر اللہ تعالیٰ مؤاخذہ کرتا لوگوں سے ان کے ظلم کی وجہ سے تو نہ چھوڑتا اس (زمین) پر کوئی چلنے پھرنے والا ، لیکن اللہ مہلت دیتا ہے ان کو مقررہ وقت تک پس جب آجائیگا ان کا مقررہ وقت تو نہیں پیچھے ہوں گے ایک گھڑی بھر (اس سے) اور نہ آگے ۔
(ربط آیات) گذشتہ رکوع کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے دلائل توحید بیان فرمائے اور دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ دو خدا نہ بناؤ بلکہ معبود برحق تو صرف ایک ہی ہے پھر اللہ نے مشرکوں کی مختلف کارگزاریوں کا ذکر فرمایا ، منجملہ ان کے ایک یہ بھی تھی کہ خدا تعالیٰ کی بیٹیوں کا تصور رکھتے تھے جو کہ اس کی شان میں گستاخی اور سخت بےادبی ہے ، فرمایا کہ اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہو مگر خدا تعالیٰ کی نسبت اپنی ناپسندیدہ مخلوق بیٹیوں کی طرف کرتے ہو ، ان کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی شخص کو اس کی بیٹی کی ولادت کی خبر دی جاتی تو غم وغصہ اور ندامت کی وجہ سے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا اور پھر وہ سوچنے لگتا کہ اس بیٹی کو ذلت برداشت کرتے ہوئے زندہ رہنے دوں یا پھر فورا ہی زندہ درگور کر دوں ۔ (ظالموں کی گرفت) اب آج کی آیات میں بھی اللہ نے مشرکین ہی کا رد فرمایا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کا ذکر فرمایا ہے ، اللہ کی مہربانی کی وجہ سے اکثر وبیشتر مجرمین کو اس دنیا میں مہلت دی جاتی ہے ، وگرنہ اس کی گرفت تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر بھی آسکتی ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ولو یؤاخذ اللہ الناس بظلمھم “۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ان کامؤاخذہ کرتا (آیت) ” ما ترک علیھا من دآبۃ “۔ تو روئے زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہ چھوڑتا ، اس حصہ آیت میں الناس کا لفظ عام ہے جیسا کہ اگلے لفظ دآبہ سے ظاہر ہوتا ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ گرفت کرنے پر آئے تو انسانوں کے گناہوں کا اثر جانوروں پر بھی پڑے اور وہ انسانوں کے ساتھ ہی ہلاک ہوجائیں ، باقی رہا ظلم کہ اس کی حدود وقیود کیا ہیں ، تو یہ لفظ بھی عام ہے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی خطا سے لے کر بڑے سے بڑے گناہ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ، مثلا اگر کسی شخص نے مسجد میں داخل ہوتے وقت دائیں کی بجائے بایاں پاؤں پہلے رکھ لیا تو یہ بھی ظلم میں شمار ہوتا ہے ، البتہ بعض مفسرین نے خاص کیا ہے جیسے (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم “۔ (لقمان) شرک بہت بڑا ظلم ہے اور کفر کے متعلق بھی فرمایا (آیت) ” والکفرون ھم الظلمون “۔ (البقرہ) کافر ہی ظلم کرنے والے ہیں تو گویا اگر اللہ تعالیٰ مؤاخذہ کرنا چاہے تو ادنی سے ادنی یا بڑے سے بڑے گناہ پر کرسکتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روئے زمین پر نہ کوئی انسان نظر آئے اور نہ چرند پرند اور کیڑے مکوڑے ، اللہ سب کو ہی ملیامیٹ کر دے مگر یہ چیز اس کے قانون امہال وتدرس کے خلاف ہے وہ بسا اوقات دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے (آیت) ” سنستدرجھم من حیث لا یعلمون “۔ (القلم) وہ ایسے ذرائع سے مہلت دیتا ہے جو لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے اور پھر جب وہ مہلت ختم ہوجاتی ہے تو اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے ، جسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ (ظلم کا اثر) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ آپ کے سامنے کسی شخص نے اس بات کا ذکر کیا کہ ظالم آدمی صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے ، اس پر آپ نے فرمایا نہیں بلکہ ظلم کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے ۔ فرمایا ” ان الخبارۃ یموت ھزلا من الظلم “۔ یعنی جنگلی مرغ (سرخاب) ظلم کی وجہ سے اپنے گھونسلے میں لاغر ہو کر مر جاتا ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے بھی منقول ہے کہ کیڑا اپنی بل میں ظلم کی وجہ سے مرجاتا ہے ، گویا ظلم کا اثر دوسری چیزوں پر بھی پڑتا ہے ، بخاری ، مسلم اور مؤطا امام مالک (رح) کی روایت میں آتا ہے کہ جب کوئی ظالم ، فاسق اور مجرم آدمی مر جاتا ہے تو جانور ، درخت حتی کہ ہر چیز خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہے کہ وہ ظالم کی نحوست سے چھوٹ گئی ، ظلم بہرحال برا ہے خواہ وہ عقیدے میں کفر وشرک کی شکل میں ہو یا اعمال میں جو روجفا کی صورت میں ۔ (مقررہ وقت تک مہلت) فرمایا اگر اللہ تعالیٰ ظالموں کا مؤاخذہ کرتا تو فورا پکڑ لیتا مگر اس کا قانون یہ ہے (آیت) ” والکن یؤخرھم الی اجل مسمی “۔ بلکہ وہ لوگوں کو مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہر فرد ، ہر قوم ، ہر بستی اور ہر ملک کے لیے اپنی حکمت کے مطابق ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ، (آیت) ” فاذا جآء اجلھم “ پھر جب مہلت گزرنے کے بعد مقررہ وقت آجاتا ہے (آیت) ” لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون “۔ تو پھر وہ ایک گھڑی بھر بھی نہ اس وقت سے پیچھے ہوتے ہیں اور نہ آگے بلکہ عین وقت پر اللہ تعالیٰ کا حکم آجاتا ہے اور وہ لوگ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آجاتے ہیں ، یہ تو اللہ کا عام قانون ہے کہ وہ مہلت دیتا رہتا ہے مگر بعض اوقات وہ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق جلدی بھی گرفت کرلیتا ہے کیونکہ اس کی منشا میں کسی کو دخل کی مجال نہیں ۔ (برائی سے بھلائی کی توقع) فرمایا دیکھو ! ان لوگوں کی حالت یہ ہے (آیت) ” ویجعلون للہ ما یکرھون “۔ اور ٹھہراتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے وہ چیز جس کو خود ناپسند کرتے ہیں یہ لوگ اپنے لیے تو بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں خود تو اپنی ملکیت میں کسی کو شریک کرنا پسند نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ کے لیے شریک ٹھہراتے ہیں اپنے حق میں ذراہ بھر بھی کوتاہی یا استخفاف کو پسند نہیں کرتے مگر اللہ کے فرشتوں اور نبیوں کی گستاخی کرتے ہیں اور خود رب العزت کی بارگاہ میں بےادبی کا ارتکاب کرتے ہیں ، فرمایا ان تمام زیادتیوں کے باوجود (آیت) ” وتصف السنتھم الکذب “۔ ان کی زبانیں جھوٹ بولتی ہیں (آیت) ” ان لھم الحسنی “۔ کہ بھلا انہی کا ہوگا ، اپنی تمام تر خرابیوں ، نافرمانیوں اور کفر وشرک کے باوجود ان کا دعوی یہ ہے کہ بھلائی انہی کا حق ہے جو ضرور انہیں حاصل ہوگا ، مشرک لوگ تو صاف کہتے تھے کہ اول تو قیامت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور اگر بالفرض قیامت واقع ہوگئی تو وہاں پر بھی ہمیں ہی کامیابی حاصل ہوگی ، ہماری کسی سہولت میں کمی نہیں آئے گی ، فرمایا یہ لوگ کیسی جھوٹی بات کر رہے ہیں ، عقیدے کی ہر نجاست میں ملوث ہیں اور اعمال میں ہر بدکرداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر توقع اچھائی کی کر رہے ہیں ، (دوزخ کی آگ) فرمایا حقیقت یہ ہے (آیت) ” لا جرم ان لھم النار “۔ ان کے لیے تو ضرور برضرور دوزخ کی آگ ہے ، (آیت) ” وانھم مفرطون “۔ اور بیشک وہ آگے بڑھائے گئے ہیں ، یعنی دوزخ کی آگ پر پیش کئے گئے ہیں یہاں پر ” مفرطون “ را کی زبر کے ساتھ مفعول کا صیغہ ہے اور معنی یہ ہے کہ وہ لوگ آگے بڑھائے گئے ہیں اور اگر ” مفرطون “ را کی زیر کے ساتھ ہو تو یہ فاعل کا صیغہ بنتا ہے اور معنی یہ ہوگا کہ یہ لوگ زیادتی کرنے والے ہیں یہ معنی بھی درست ہے کہ یہ لوگ ، کفر شرک اور معاصی کا ارتکاب کرکے زیادتی کے مرتکب ہوئے فرط کا معنی فراموش کردینا بھی ہوتا ہے اگر ان معانی پر محمول کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ایسے ناہنجاروں کو دوزخ میں ڈال کر فراموش کردیا جائے گا ، فرط کا معنی پیش رو بھی آتا ہے جیسے حضور ﷺ کا فرمان ہے ” انا فرطکم علی الحوض “۔ میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا ، یعنی میں تم سے پہلے وہاں موجود ہوں گا ، قبرستان میں جا کر کی جانے والی دعا جو حضور ﷺ نے سکھائی ہے اس میں یہ الفاظ آتے ہیں ، ” انتم لنا فرط “ تم ہمارے پیش رو ہو ” وانا بکم للاحقون “ اور ہم بھی تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں ” یغفرا اللہ لنا ولکم “۔ اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری غلطیاں معاف فرمائے ، بہرحال فرمایا کہ یہ لوگ بھلائی کی توقع رکھتے ہیں جب کہ یہ دوزخیوں کے پیش رو ہوں گے یا انہیں دوزخ کی طرف آگے بڑھایا جائے گا ، (تزئین اعمال) آگے اللہ تعالیٰ نے تاکیدا فرمایا ہے (آیت) ” تاللہ لقد ارسلناالی امم من قبلک “ اللہ کی قسم ، بیشک ہم نے آپ سے پہلے رسولوں کو مختلف قوموں کی طرف بھیجا ، انہوں نے لوگوں کو انذار کیا مگر (آیت) ” فزین لھم الشیطن اعمالھم “ شیطان نے ان کے اعمال کو مزین کرکے دکھایا ، تمام انبیاء کے دور میں یہی کچھ ہوا کہ شیطان نے کفر شرک ، بدعت ، اور معاصی والے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے ، ان کی خوبیاں بیان کیں اور کہا کہ ایسا کرنے میں ہی عزت اور اجروثواب ہے ، تو لوگ شیطان کے پیچھے لگ گئے اور خدا کے احکام کی نافرمانی کرتے رہے اللہ نے فرمایا (آیت) ” وھو ولیھم الیوم “ اور آج بھی شیطان ہی ان کا دوست ، رفیق اور ساتھی ہے اور وہ انہیں ہر بری چیز مزین کرکے دکھا رہا ہے آج بھی لوگ اسی کے جال میں پھنس کر رسولوں کی بات کا انکار کر رہے ہیں اور رسومات باطلہ پر کاربند ہیں ۔ فرمایا اس کا نتیجہ یہ ہے (آیت) ” ولھم عذاب الیم “۔ کہ آخرت میں ان کے لیے درد ناک عذاب تیار کیا گیا ہے ، اللہ نے ہدایت کے تمام سامان مہیا کردیے ہیں اور اب انہیں عذر پیش کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سب کچھ سمجھا دیا ہے مگر یہ خود عذاب کے مستحق بن رہے ہیں ۔ (تبیین کتاب کا فریضہ) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وما انزلنا علیک الکتب الا لتبین لھم الذی اختلفوا فیہ “۔ اور نہیں اتاری ہم نے آپ پر کتاب مگر اس لیے تاکہ آپ کھول کر بیان کردیں وہ چیز جس میں یہ اختلاف کرتے ہیں ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید ، رسالت اور معاد میں اختلاف کرتے ہیں ، آپ کی بات کو تسلیم نہیں کرتے ، لہذا آپ انہیں اچھی طرح سمجھا دیں نبی کے یہ فرائض میں داخل ہے کہ وہ کتاب الہی کی مراد کو لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کر دے تاکہ کسی کو کوئی اشتباہ باقی نہ رہے مختلف قسم کے حوادثات ، ماجریات اور حالات انسان کو پیش آتے رہتے ہیں ، اللہ نے بعض کا مدار انسانی عقل پر رکھا ہے اور بعض چیزوں کو اہل علم کے سپرد کیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اچھی طرح وضاحت کردیں ، چونکہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی سب سے زیادہ علم عطا کرتا ہے اس لیے یہ ان کے فرض منصبی میں داخل ہے کہ وہ ہر چیز کو خوب کھول کر بیان کردیں ، اللہ تعالیٰ نے سورة ہود کی ابتداء میں فرمایا ہے کہ اس کتاب یعنی قرآن پاک کی آیات کو محکم کیا گیا ہے (آیت) ” ثم فصلت من لدن حکیم خبیر “ پھر خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے وضاحت ہے قرآن پاک میں اساسی تعلیم ہے ، اللہ نے تمام مطلوبہ اصول مہیا کردیے ہیں جن کی توضیح اللہ کا نبی اپنے قول اور عمل کے ذریعے کرتا ہے ، تو فرمایا کہ یہ لوگ عقیدے میں اختلاف کرتے ہو یا اعمال میں ، ہم نے یہ کتاب آپ پر اس لیے اتاری ہے تاکہ آپ اس کو کھول کر بیان کردیں ۔ اسی وضاحت کے ضمن میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے یہی کہا تھا کہ لوگو ! میری بات کو اچھی طرح سن لو اور سمجھ لو (آیت) ” ثم لا یکن امرکم علیکم غمۃ “۔ (یونس) پھر تمہارے معاملے میں کوئی پیچیدگی باقی نہیں رہنی چاہئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو تو ان کی قوم نے صاف صاف کہہ دیا (آیت) ” قالوا یشعیب ما نفقہ کثیرا مما تقول “ (ھود) اے شعیب ! تمہاری بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ، حالانکہ اللہ کے نبی نے ہرچیز کی وضاحت کردی تھی اور وہ لوگ محض اپنی ضد اور عناد کی وجہ سے انکی بات کو قبول نہیں کرتے تھے ، قرآن پاک سے متعلق نبی آخر الزمان کی تمام تلبیین وتشریح آپ کی سنت اور احادیث کے ذخیرے میں محفوظ ہے ، بعض گمراہ فرقے چکڑالوی اور پرویزی وغیرہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے قرآن میں ہے ، اس کے علاوہ کچھ نہیں ان سے کوئی پوچھے کہ جس تبین کا ذکر اللہ نے بار بار کیا ہے ، وہ کہاں ہے ؟ حقیقت یہ ہے قرآن پاک کے الفاظ کی تشریح حضور ﷺ کی سنت میں ہے ، تمام صحیح احادیث قرآن پاک کی شرح ہیں ۔ پوری امت کے سلف سے لیکر خلف تک اس پر عمل کرتے آئے ہیں لوگوں میں کوتاہیاں ضرور پیدا ہوئی ہیں مگر وہ سنت تو محفوظ ہے جس پر اللہ کا نبی ، خلفائے راشدین اور آپ کے متبعین چلتے آئے ہیں یہی سنت ہے اور اس کے بغیر قرآن کی تبیین ممکن نہیں ۔ (ہدایت اور رحمت) فرمایا کہ آپ پر نازل کردہ کتاب (آیت) ” وھدی “ سراسر ہدایت ہے ہدایت سے مراد یہ ہے کہ انسان کو زندگی کے جس موڑ پر بھی راہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے ، اللہ کی کتاب اس کے لیے راہنمائی بہم پہنچاتی ہے ، البتہ اس ہدایت اور راہنمائی کو تلاش کرنا خود انسان کا کام ہے ، اگر کوئی شخص قرآن پاک کی تعلیم ہی حاصل نہیں کریگا اور اس میں غور وفکر ہی نہیں کریگا تو اس کو ہدایت کیسے نصیب ہو سکتی ہے ، اللہ نے سورة بقرہ میں فرمایا ہے (آیت) ” ما انزلنا من البینت والھدی “۔ ہم نے بنیات اور ہدایت دو چیزوں کو اتارا ہے بینات وہ چیزیں ہیں جو بالکل واضح ہیں اور آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں اور ہدایت ایسی چیز ہے جو استاد کے بغیر سمجھ میں نہیں آتی ، سورة صف میں بھی ہے (آیت) ” ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی “۔ اللہ کی ذات وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایا تو یہ ہدایت اللہ کے رسول یا اس کے متبعین اور مبلیغین سے سیکھنا پڑتی ہے ، اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے اور وقت کی قربانی دینا پڑتی ہے تب جا کر ہدایت نصیب ہوتی ہے ۔ فرمایا ایک تو ہم نے ہدایت نازل فرمائی اور دوسری چیز (آیت) ” ورحمۃ “ رحمت ہے جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب پر اس کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق عمل پیرا ہوجاتا ہے تو پھر اس کے نتیجہ میں اللہ کی رحمت اور مہربانی شامل حال ہوجاتی ہے ، انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوجاتا ہے اور اسے نیکی کی مزید توفیق حاصل ہوتی ہے ، سورة بقرہ کی ابتداء میں بھی ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون “۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ، فرمایا یہ سارے انعامات ان لوگوں کے حصے میں آتے ہیں (آیت) ” لقوم یؤمنون “ جو ایمان رکھتے ہیں اور جن لوگوں کا ایمان ہی مکمل نہیں ، وہ صدق قلب سے یقین ہی نہیں کرتے ، ان کے لیے نہ ہدایت ہے اور نہ رحمت ، وہ محروم ہی رہیں گے ، (مادی حیات کا سامان) اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور رحمت کا ذکر کے انسان کی روحانی زندگی کا سامان مہیا کیا اور اب آگے مادی زندگی کے لوازمات کا تذکرہ فرمایا (آیت) ” واللہ انزل من السمآء مآئ “۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی نازل فرمایا ، اس کا فائدہ یہ ہوا (آیت) ” فاحیابہ الارض بعد موتھا “۔ کہ زمین کی موت یعنی اس کے خشک ہوجانے کے بعد پانی کے ذریعے اس کو دوبارہ زندگی عطا فرمائی ظاہر ہے کہ خشک زمین میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی ، پھر جب اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بارش برساتا ہے تو زمین میں ہریالی پیدا ہوتی ہے ، اس میں اناج اور پھل کاشت ہوتے ہیں جو انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں ، نہ صرف انسان بلکہ تمام جانور چرند اور پرند حتی کہ کیڑے مکوڑوں کی زندگی کا انحصار بھی پانی پر ہے پانی ہی کے ذریعے ان کے لیے چارہ ، سبزیاں اور جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں ، جو ان کی خوراک بنتی ہیں ، تو گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی زندگی کے لیے اپنی کتاب نازل فرمائی جس میں ہدایت اور رحمت ہے اور مادی زندگی کے لیے پانی اتار کر یہ ضرورت بھی پوری فرما دی ۔ زمین کے مختلف خطوں میں پانی کے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں کوئی خطہ ارضی پانی کو اچھی طرح جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہاں خوب پیداوار ہوجاتی ہے اور کسی جگہ سے پانی گزر جاتا ہے وہ زمین پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی لہذا پیداوار بھی نہیں دیتی ، ہدایت کا سلسلہ بھی ایسا ہی ہے یہ انسان کے قلب پر پڑتی ہے ، پھر جو قلوب اس کے طالب ہوتے ہیں اور اس کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس سے سرشار ہوجاتے ہیں ، اور بعض سخت دلوں پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا ، لہذا وہ اسی طرح محروم رہتے ہیں ، جس طرح کوئی چٹان پانی کے اثرات کو قبول نہیں کرتی اور وہ ادھر ادھر بہ جاتا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایۃ لقوم یسمعون “۔ بیشک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں جو لوگ بات کو سن کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں ، اللہ ان کی روحانی اور مادی دونوں ضروریات پوری فرماتا ہے ، اور جو لوگ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے انہیں نہ ہدایت نصیب ہوتی ہے اور نہ اللہ کی رحمت ،
Top