Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 88
اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَصَدُّوْا : اور روکا عَنْ : سے سَبِيْلِ : راہ اللّٰهِ : اللہ زِدْنٰهُمْ : ہم بڑھا دیں گے انہیں عَذَابًا : عذاب فَوْقَ : پر الْعَذَابِ : عذاب بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يُفْسِدُوْنَ : وہ فساد کرتے تھے
وہ لوگ جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا ہے اور روکا ہے اللہ کے راستے سے ہم زیادہ کریں گے ان کے لیے عذاب کے اوپر عذاب ، اس وجہ سے کہ وہ فساد کرتے تھے ۔
(ربط آیات) شرک اور مشرکین کے روکے بعد اللہ نے عذاب کی وعید سنائی اور مشرکین و کفار کے متعلق فرمایا کہ جب وہ عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے تو پھر نہ تو اس میں تخفیف ہوگی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائیگی اور اللہ تعالیٰ راضی کرسکیں ، مشرک لوگ اپنے معبودوں کو دیکھ کر اقرار کریں گے کہ ہم ان کی عبادت کرتے رہے مگر وہ صاف انکار کردیں گے کہ ہم نے تو انہیں نہیں کہا تھا کہ ہمیں معبود مان کر ہماری عبادت کرنے لگو ، یہ تو خود ہی من مانی کرتے رہے فرمایا اس وقت ان کی تمام خود ساختہ کاروائیاں گم ہو کر رہ جائیں گی ، (اسلام کے راستے میں رکاوٹ) اسی عذاب کی وعید کے تسلسل میں ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الذین کفروا “ وہ لوگ جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ، کفر ، شرک ، نفاق وغیرہ قرآن پاک کی اصطلاحات ہیں ، کفر کا لغوی معنی چھپانا یا انکار کرنا ہے ، مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایمان کی بات کو چھپانا اور اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ (آیت) ” وصدوا عن سبیل اللہ “ اللہ کے راستے سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اصل میں یہی فعل فساد کی بنیاد بنتا ہے ، خود بھی اللہ کی وحدانیت کو تسلیم نہ کیا اور پھر دوسروں کے راستے میں بھی رکاوٹ بنے سورة انعام میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” وھم ینھون عنہ وینؤن عنہ “ خود بھی ایمان سے دور رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں ، اسلام کے راستے سے روکنا صرف مشرکین مکہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ ہر دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے فرعون بھی روکتا تھا ، قوم نوح اور قوم شعیب بھی اسی ڈگر پر چلتی تھی حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم سے اسی طرح خطاب کیا تھا (آیت) ” ولا تقعدوا بکل صراط توعدون وتصدون عن سبیل اللہ من امن بہ وتبغونھا عوجا “۔ (الاعراف) ہر راستے پر مت بیٹھا کرو کہ جو شخص ایمان لاتا ہے تم اسے ڈراتے ہو اور راہ خدا سے روکتے ہو اور اس میں کجی تلاش کرتے ہو۔ دنیا کی کافر قوتیں آج بھی لوگوں کو اسلام کے راستے سے روکنے کوشش کر رہی ہیں ، عیسائی مشنریاں اسی کام پر لگی ہوئی ہیں نہایت گہری سازش کے ذریعہ لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس معاملہ میں برطانوی ، روسی ، فرانسیسی ، جرمنی عیسائی سب اکھٹے ہیں انگریزوں نے اپنے عروج کے دو سوسالوں میں اس معاملہ میں بڑی پیش رفت کی انہوں نے پس ماندہ اقوام کو لالچ دے کر عیسائیت کی طرف راغب کیا ، دنیا میں یہ کتاب موجود ہے ، دنیا مہذب نہیں بن سکتی ان کا اول وآخر مقصد قرآن پاک کو دنیا سے ختم کرکے دین اسلام سے لوگوں کا تعلق ختم کرنا ہے مگر اس عظیم کتاب کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے ، اسی لیے پوری کوشش کے باوجود دنیا کی کوئی طاقت قرآن کریم کا ایک حرف بھی آگے پیچھے نہیں کرسکی ، چہ جائیکہ اسے نابود کردیا جاتا ، وہ جانتے ہیں کہ ان کی عیاشی ، فحاشی ، عریانی اور بےحیائی کی قاطع یہی کتاب ہے ، جب تک یہ ختم نہ ہو ان کی قبیح تہذیب پروان نہیں چڑھ سکتی ، یہ اتنے گندے لوگ ہیں کہ مرد وزن کی مرضی سے کیے گئے زنا کو زنا ہی نہیں سمجھتے ان کے نزدیک زنا صرف وہ جو بالجبر کیا جائے ، لواطت ان کے ہاں کوئی جرم نہیں اور دنیا کی ہر برائی ان کے ہاں جدید فیشن میں داخل ہے ۔ غرضیکہ کبھی خوشنما تہذیب کی آڑ میں لوگوں کو دین سے روکا جاتا ہے کبھی پیسے کے لالچ کے ذریعے ، کبھی سکول اور ہسپتال قائم کرکے اور کبھی قرآن اور دین کے ہمدرد بن کر اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، روسی اور چینی تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ، مسلمانوں کو سرعام عبادت سے روکتے ہیں ایسا پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والے شک میں پڑجائیں اور آہستہ آہستہ دین سے بیزار ہوجائیں ، ادھر مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی تاریخ تک پڑھنے کے لیے تیار نہیں اگر وہ ایسا کرتے تو غیر مسلم یلغار کا جواب دے سکتے مگر انہیں تو اسلامی مشاہیر کی بجائے یہودی ، عیسائی اور اشتراکی مشاہیر پر فخر ہے اور انہی کے گن گاتے ہیں ، یہ سارے جال مسلمانوں کی اپنے دین سے متنفر کرنے کے لیے پھیلائے جا رہے ہیں مگر مسلمان غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں اور کوئی نوٹس ہی نہیں لے رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں پچاس سے زیادہ اسلامی ریاستیں ہیں ، ان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ، وہ بھی سکول ، کالج اور ہسپتال قائم کرکے عیسائی مشنریوں کا دروازہ بند کرسکتے ہیں وہ بھی پس ماندہ طبقوں کی دستگیری کرسکتے ہیں ، مگر اس کے لیے جذبہ ایمانی کی ضرورت ہے جو مسلمان میں مفقود ہے ، یہی وجہ ہے کہ دوسروں کو اسلام کے خلاف سازش کرنے کا موقع مل جاتا ہے ، مجوسیوں ، منافقوں اور یہودیوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں بڑی رخنہ اندازی کی ، انہوں نے اسلام کے اندر داخل ہو کر اسلام کو کمزور کیا ، فرقہ بندی کی اور مسلمانوں کو آپس میں لڑایا ، وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا تعلق قرآن پاک سے جس قدر کمزور ہوگا ، اسی قدر مخالفت قوتوں کو کامیابی حاصل ہوگی ، بہرحال غیر مسلم اقوام نے ہمیشہ دین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے اور آج بھی کر رہے ہیں ۔ (مفسدین کے لیے سزا) فرمایا جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکا (آیت) ” زدنھم عذابا فوق العذاب “۔ ہم بڑھائیں گے ان کے لیے عذاب پر عذاب (آیت) ” بما کانوا یفسدون “۔ اس وجہ سے کہ وہ فساد کرتے تھے ، عذاب پر عذاب یعنی دوہرا عذاب اس لیے کہ انہوں نے خود بھی کفر کا راستہ اختیار کیا اور دوسروں کے راستے میں بھی رکاوٹ ڈالی لہذا ایک عذاب تو ان کے اپنے کفر کا ہوگا اور دوسرا لوگوں ک بہکانے کا اسلام کا بنیادی قانون تو یہی ہے کہ ہر مجرم کو اس کے گناہ کی ایک ہی سزا دی جائے مگر یہ لوگ چونکہ دوسروں کی گمراہی کے ذمہ دار بھی ہیں لہذا دوہری سزا کے مستحق ہوں گے ، حضور ﷺ کا ارشاد مبارک (1) (ترمذی ص 95 ج 2) ہے کہ جو کوئی اچھا راستہ قائم کرتا ہے اس کے اپنے عمل کا ثواب بھی ملے گا ، اور اس پر عمل کرنے والے لوگوں کے برابر ایک ایک مزید ثواب بھی اسے حاصل ہوگا ، اسی طرح برا راستہ قائم کرنے والا ، معاصی اور بدعات کی راہ نکالنے والا اس کردہ جرم کا مجرم بھی ہوگا اور پھر اس بری رسم پر چلنے والے ہر شخص کے بدلے ایک ایک گناہ اس ایجادہ کنندہ کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتا رہیگا آدم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے نے اپنے بھائی کا اولین قتل ناحق کیا تھا ، اب قیامت تک جنتے بھی قتل ناحق ہوں گے ان میں ہر قتل کا ایک گناہ آدم (علیہ السلام) کے اس بیٹے کے رجسٹر میں بھی درج ہوتا رہے گا جو اولین قتل ناحق کا مرتکب ہوا ۔ غرضیکہ کفر ، شرک ، معاصی اور خدا کی شریعت کی خلاف ورزی زمین میں فساد ہے ، ان امور سے زمین بگڑتی ہے ، انسانی سوسائٹی میں خوف وہراس اور بےاطمینانی پیدا ہوتی ہے ، زمین کی اصلاح اطاعت سے ہوتی ہے اور اس کا بگاڑ معاصی سے ہوتا ہے تو فرمایا کہ زمین میں فساد برپا کرنے والوں کو دگنا عذاب دیا جائے گا ۔ (انبیاء کی گواہی) قیامت کے دن ہر فسادی کے خلاف گواہ پیش کرنے کی بات گذشتہ درس میں بھی گزر چکی ہے اگلی آیت میں اسے پھر دوہرایا جا رہا ہے (آیت) ” ویوم نبعث فی کل امۃ شھیدا علیھم من انفسھم “۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب قیامت کے ہم ہر امت پر خود انہی میں سے گواہ پیش کریں گے ، ہر امت کا نبی اپنی امت کے خلاف گواہی دیگا کہ اس امت نے کس طرح اس کی بات کو ٹھکرایا اور تکالیف پہنچائیں ، اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا ، اغیار کی پوجا کرتے رہے شیطان کے نقش قدم پرچلتے رہے پھر اس گواہی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ ہر امت کے متعلق فیصلہ کریں گے ، فرمایا یہ تو سابقہ امتوں کی بات ہے اے پیغمبر آخر الزمان ، (آیت) ” وجئنا بک شھیدا علی ھؤلاء “۔ ہم آپ کو اس آخری امت کے لوگوں پر بطور گواہ لائیں گے ، آپ بھی اپنی کے حق میں یا ان کے خلاف گواہی دیں گے اور پھر اس کے مطابق فیصلہ کیا جائیگا اس وقت کتنا خوفناک منظر ہوگا اور کتنی پریشانی کا عالم ہوگا جب محاسبے کی منزل آئے گی اور اللہ کی بارگاہ میں گواہیاں پیش ہوگی ، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نبی کا اتباع اختیار کرے تاکہ قیامت کے دن اس کی بہتر گواہی کا مستحق بن سکے ،۔ (قرآن بطور تبیان) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ونزلنا علیک الکتب “۔ اور ہم نے اتاری ہے آپ کی طرف کتاب (آیت) ” تبیانا لکل شیئ “۔ جو ہرچیز کو کھول کا بیان کرتی ہے یعنی ہر چیز کی بہت زیادہ وضاحت کرتی ہے ، ایک سطحی نظر میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پاک میں ہر چھوٹی بڑی چیز کی وضاحت تو نہیں ہے ، پھر تبیان سے کیا مراد ہے ، تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کسی چیز کو کسی مقام پر اجمال کے ساتھ بیان کیا ہے اور کہیں تفصیل موجود ہے ، بعض مقامات پر نبی کریم ﷺ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے قول اور فعل سے کسی حکم کی جزئیات سے آگاہ کردیں گے لہذا نبی کی وضاحت بھی قرآن پاک کی طرف سے ہی وضاحت سمجھی جائے گی ، اس کے علاوہ اگر کوئی مسئلہ قرآن وسنت میں بالوضاحت موجود نہیں مگر اس پر مسلمانوں کا اجماع ہوگیا ہے تو وہ بھی منجانب اللہ ہی سمجھا جائے گا اور قرآن پاک کے تبیان ہی میں شمار ہوگا ، سورة النساء میں موجود ہے کہ جو شخص ہدایت کا راستہ واضح ہوجانے کے باوجود مومنوں کے راستے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ اختیار کرے گا تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے ، جدھر وہ جانا چاہتا ہے اور اس کا ٹھکانا بالاخر جہنم ہوگا یہاں (آیت) ” غیر سبیل المؤمنین “۔ کا یہی مطلب ہے کہ کوئی شخص مسلمانوں خصوصا خیرالقرون کے مسلمانوں کے متفقہ راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے ، گویا اجماع امت کے فیصلہ بھی قرآن پاک کے تبیان ہی کا حصہ شمار ہوگا ۔ زمانے کے ساتھ ساتھ نئے نئے پیدا ہونے والے مسائل کے حل وعقد کے لیے اللہ نے اجتہاد واستنباط کا اصول بھی بیان کیا ہے جگہ جگہ (آیت) ” فاعتبروا یاولی الابصار “ کے الفاظ آتے ہیں یعنی اے صاحب عقل وبصیرت لوگو ! کہیں فرمایا ’ (آیت) ” لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم “۔ (النسائ) اگر کوئی مشکل پیش آئے گی تو اجتہاد واستنباط کرنے والے آپ کو بتائیں گے ، لہذا ان کی طرف رجوع کرو کہ یہ بھی بتیان میں داخل ہے ، امام ابوحنیفہ (رح) کا نظریہ یہ ہے کہ شریعت کے چار اصول ہیں یعنی کتاب اللہ سنت رسول اللہ ، اجماع صحابہ اور قیاس اگر پہلی تین چیزوں سے مسئلہ حل نہ ہو تو ائمہ مجتہدین کے قیاس کو دیکھ لو ، ان میں پہلے دو اصول یعنی قرآن اور سنت مثبت ہیں اور یہ کسی چیز کو ثابت کرتے ہیں البتہ دوسرے دو اصول یعنی اجماع اور قیاس مظہر ہیں ، یہ کسی چیز کا قطعی ثبوت نہیں مگر یہ کسی چیز کو ظاہر کردیتے ہیں ، امام ابوبکر جصاص (رح) ، امام شافعی (رح) شاہ ولی اللہ (رح) اور مولانا گنگوہی (رح) امام ابن تیمیہ (رح) وغیرہم فرماتے ہیں کہ ہر مسئلہ کی اصل بنیاد تو قرآن پاک ہی ہے اور سنت بھی قرآن کی شرح ہی ہے ، تاہم امام ابوبکر جصاص (رح) یہ بھی فرماتے ہیں کہ کائنات کے ہر مسئلہ کے بارے میں اللہ کا حکم موجود ہے ، اس حکمیا تو خود اللہ کی کتاب نے واضح کیا ہوگا ، یا اس کا بیان اللہ کے نبی کی زبان سے ہوا ہوگا ، یامومنین کے انفاق اس پر شاہد ہوگا ، یا پھر ائمہ مجتہدین اس دلیل کو واضح کریں گے جس پر اس مسئلہ کی بنیاد ہوگی فرماتے ہیں کہ قرآن پاک ہر مسئلہ کی جزئیات بیان نہیں کرتا بلکہ اس میں اصول وقوانین موجود ہیں جن کی روشنی میں ہر جزو کا حل پیش کیا جاسکتا ہے ۔ (ہدایت رحمت اور خوشخبری) فرمایا ، اللہ کی یہ کتاب ” وھدی “ ہدایت ہے اور ہر موڑ پر انسان کی راہنمائی کرتی ہے ، پھر جب لوگ اس ہدایت پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں تو فرمایا یہی کتاب ” ورحمۃ “ باعث رحمت بن جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی مہربانی شامل حال ہوجاتی ہے ، اس کے علاوہ اللہ کا یہ کلام (آیت) ” وبشری للمسلمین “۔ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں اعلی مقام حاصل ہوگا ، سورة یونس میں بھی موجود ہے کہ ایمان والوں کو خوشخبری سنا دیجئے (آیت) ” ان لھم قدم صدق عند ربھم “۔ تمہارے پروردگار کے پاس تمہارا سچائی کا قدم پڑ رہا ہے ، لہذا گھبراؤ نہیں تم اچھے ٹھکانے پر پہنچ جاؤ گے ، اگر ایمان میں استقامت حاصل رہی قرآن پر عمل کرتے رہے اور معاصی سے بچتے رہے ، کفر شرک اور بدعات سے پرہیز کیا تو تمہارے لیے خوشخبری ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے ہاں کامیاب ہوجاؤ گے ۔
Top