Tafseer-e-Jalalain - Hud : 96
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ وَ : اور سُلْطٰنٍ : دلیل مُّبِيْنٍ : روشن
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور دلیل روشن دے کر بھیجا۔
آیت نمبر 96 تا 109 ترجمہ : اور یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (بھی) اپنے معجزات اور روشن دلیلوں یعنی واضح دلیلوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا مگر انہوں نے فرعون ہی کی بات مانی حالانکہ فرعون کی بات درست نہیں تھی قیامت کے دن (فرعون) اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور یہ لوگ اس کے پیچھے پیچھے ہوں گے جیسا کہ دنیا میں اس کی اتباع کرتے تھے، پھر ان (سب) کو دوزخ میں جا اتارے گا اور (دوزخ) بہت ہی بری جگہ ہے اترنے کی جس میں یہ لوگ اتارے جائیں گے اور اس دنیا میں بھی ان پر لعنت پڑی اور قیامت کے دن بھی پڑے گا، برا انعام ہے جو ان کو دیا گیا یہ مذکور چند بستیوں کی سرگذشت ہے جو ہم اے محمد تم کو سنا رہے ہیں ان بستیوں میں سے بعض تو (اب بھی) قائم ہیں کہ ان کے مکین ہلاک ہوگئے مگر بستیاں موجود ہیں اور ان میں سے بعض مع اپنے مکینوں کے ختم ہوگئیں کہ درانتی سے کٹی ہوئی کھیتی کے مانند ان کا نام و نشان بھی نہیں رہا، بغیر جرم کے ہم نے ان کو ہلاک کرکے ان پر ظلم نہیں کیا، لیکن شرک کرکے انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا سو ان کے وہ معبود جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر بندگی کیا کرتے تھے ان کا کچھ بھی دفاع نہ کرسکے، جب تیرے رب کا عذاب آگیا، اور ان کو بتوں کی عبادت نے بربادی کے سوا کچھ فائدہ نہیں پہنچایا اس پکڑ کے مانند تیرے رب کی پکڑ کا طریقہ ہے جبکہ وہ بستیوں کے ظالم باشندوں کو گناہوں کی وجہ سے پکڑتا ہے بستیوں سے بستیوں کے رہنے والے مراد ہیں یعنی اس کی پکڑ سے ان کو کوئی چیز نہیں بجا سکتی ہے بیشک اس کی پکڑ بڑی دردناک ہے اور بخاری و مسلم نے ابو موسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب اس کو پکڑ لیتا ہے تو اس کو چھوڑتا نہیں ہے پھر آپ ﷺ نے وکذلک اَخْذُ ربک الخ تلاوت فرمائی، یقیناً ان مذکورہ قصوں میں ان لوگوں کیلئے نشان عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہیں، یہ یعنی قیامت کا دن وہ دن ہے کہ جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ دن حاضری کا دن ہوگا اس دن میں تمام مخلوق حاضر ہوگی، اور ہم اس کو صرف تھوڑی مدت کیلئے جو اللہ کو معلوم ہے ملتوی کئے ہوئے ہیں (پھر) جس وقت وہ دن آئے گا تو کوئی شخص خدا کی اجازت کے بغیر بات تک نہ کرسکے گا (تَکلَّمُ ) میں ایک تاء کو حذف کردیا گیا ہے، پھر مخلوق میں سے بعض بدنصیب ہوں گے اور بعض ان میں سے خوش نصیب ہوں گے اور یہ سب کچھ روز ازل میں لکھا جا چکا ہے، سو جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم میں بدنصیب ہیں وہ دوزخ میں ایسے حال میں ہوں گے کہ ان کی آگ میں زور کی اور آہستہ چیخ پکار ہوگی (اور) وہ اسی حالت میں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان اور زمین قائم ہیں، دنیا میں ان کے دوام کی مدت تک (یہ دوام کیلئے ایک محاورہ ہے) سوائے (مع) اس مزید مدت کے جو تیرا رب چاہے زمین و آسمان کی مدت پر کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ہے، اور معنی (آیت) کے یہ ہیں کہ وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے، یقیناً میرا رب جو کچھ چاہے کر گزرتا ہے لیکن جو لوگ نیک بخت کئے گئے، سین کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، وہ جنت میں ہوں گے جہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان اور زمین قائم رہیں گے مگر جو تیرا رب چاہے جیسا کہ سابق میں گذرا، اور اس پر ان کے بارے میں باری تعالیٰ کا قول عطاء غیر مجذوذ دلالت کر رہا ہے یہ سب بےانتہاء بخشش ہے (یعنی) ختم نہ ہونے والی، اور جو تاویل سابق میں بیان ہوئی (یعنی اِلاَّ بمعنی غیر کی) یہ وہ ہے جو میرے سمجھ میں آئی، اور یہ تکلیف سے خالی ہے، اور اللہ اپنی مراد خود ہی بہتر جانتا ہے، لہٰذا اے محمد جن بتوں کی یہ پرستش کر رہے ہیں اس سے شک میں نہ پڑیں ہم ان کو یقیناً عذاب دیں گے جیسا کہ ان سے پہلوں کو عذاب دے چکے ہیں، اور یہ نبی ﷺ کو تسلی ہے ان کی پوجا پاٹ تو ایسی ہی ہے جیسی کہ اس سے پہلے ان کے باپ دادا نے کی تھی اور ہم نے ان کو عذاب دیا، اور ہم ان کو عذاب کا بغیر نقصان کے پورا پورا حصہ دینے والے ہیں یعنی مکمل۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ن آیتِنَا وسُلطانٍ مبینٍ ، آیات سے مراد تورات اور سلطان مبین سے مراد معجزات ہیں۔ (فتح القدیر) قولہ ؛ المرفود، بمعنی عطاء، انعام، عون، مدد، المعاون، لعنت کو مرفود استہزاء کہا ہے۔ قولہ : الورد اترنے کی جگہ، گھاٹ۔ قولہ : مِنھا، علامہ سیوطی نے منھا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ حصید کا عطف قائمٌ پر ہے حصیدٌ مبتداء مؤخر اور منھا خبر مقدم ہے قولہ : حصید، فعیل صفت مشبہ بمعنی مفعول کٹی ہوئی کھیتی۔ قولہ : یُفلتہٗ ، اِفلات (افعال) چھوڑنا۔ قولہ : فیہِ ، اس میں اشارہ ہے کہ لَہٌ، میں لام بمعنی فی ہے۔ قولہ : یَشھَدُدٗ ای یشھد فیہ۔ قولہ : غیرَ ما شاء رَبُّکَ میں الابمعنی غیر ہے، سوال اِلاَّ بمعنی غیر لینے میں کیا مصلحت ہے ؟ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ اِلاَّ کے ذریعہ اگر استثناء خلود سے ہے جیسا کہ بعض نے کیا ہے تو یہ کافروں کے جہنم میں عدم خلود پر دلالت کرے گا حالانکہ امر واقعہ ایسا نہیں ہے اور اگر حکم اصلی سے استثناء ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کا قول ففی النار ہے تو اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کفار جہنم میں داخل ہونے کے بعد بعض اوقات جہنم سے نکلیں گے حالانکہ یہ بھی خلاف واقعہ ہے۔ جواب : حاصل جواب یہ ہے کہ اِلاَّ بمعنی غیر ہے اور یہ عرب کے قول ” عَلَیَّ الف اِلاَّ الفان المتقدمان “ یعنی میرے اوپر فلاں شخص کے ایک ہزار ہیں مع سابق دو ہزاروں کے یعنی ایک ہزار دو ہزار کے ساتھ مل کر تین ہزار ہیں اس وقت آیت کے معنی یہ ہوں گے اَنَّ لھم عذابٌ مدۃ دوام السمٰوٰتِ والارض فی الدنیا مع الزیادۃ التی لا آخر لَھَا علی مدۃ بقاءِ السمٰوات والارض۔ قولہ : کما تقدّمَ من قولہ من الزیادۃ علی مدتھما مما لا منتھیٰ لہ، یعنی جو تاویل ما قبل میں ہوئی ہے وہی یہاں ہوگی۔ قولہ : انا نعذبھم الخ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ شک حکم کے ساتھ متعلق ہوتا ہے اور مِریۃ، حکم نہیں ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے ای لاتک یا محمد فی مریۃ اِنا نعذبھم الخ۔ قولہ : کعبادتھم اس میں اشارہ ہے کہ ما یعبدون میں ما مصدر یہ ہے یعنی یہ لوگ اپنے آباء کے عبادت کرنے کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ قولہ : تامًا کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بعض اوقات کل بول کر بعض مراد ہوتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ تفسیر و تشریح ولقد ارسلنا۔۔۔۔ مبین، اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان اور اس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجا، آیات سے مراد بعض حضرات کے نزدیک تورات اور سلطان مبین سے معجزات مراد ہیں، اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ آیات سے آیات تسعہ اور سلطان مبین (روشن دلیل) سے عصا مراد ہے، عصا اگرچہ آیات تسعہ میں شامل ہے لیکن یہ معجزہ چونکہ نہایت عظیم الشان تھا اس لئے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سلطان مبین سے وہ روشن دلائل مراد ہوں جو توحید وغیرہ کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے پیش کئے تھے۔ وما امر۔۔۔ برشید، یعنی کھلے معجزات دیکھ کر بھی فرعونیوں نے پیغمبر خدا (موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نہ مانی اسی دشمن خدا کے حکم پر چلتے رہے حالانکہ اس کی کوئی بات ٹھکانے کی نہیں تھی جسے مان کر انسان بھلائی حاصل کرسکتا، فرعون جس طرح دنیا میں کفر و تکذیب کا امام تھا قیامت کے دن بھی امام رہے گا۔ فرعون چونکہ دنیا میں بدی اور بدکاری کا لیڈر تھا دوزخ میں بھی اس کی یہ لیڈری قائم رہے گی اور یہ حکم فرعون کے ساتھ خاص نہیں محققین نے کہا ہے کہ جو کوئی مفسدوں کا پیشوا ہوگا وہ اپنے متبعین اور ذریعت کو لے کر ہی جہنم میں داخل ہوگا، اور یہی وہ گھاٹ ہے جہاں ٹھنڈے پانی کے بجائے بھسم کردینے والی آگ ملے گی، وِرد پانی کی گھاٹ کو کہتے ہیں جہاں پیاسے جاکر اپنی پیاس بجھاتے ہیں، لیکن یہاں جہنم کو ورد کہا گیا ہے۔ واتبعوا۔۔۔ الخ لعنت سے مراد پھٹکار اور رحمت الہٰی سے دوری و محرومی ہے یعنی رہتی دنیا تک ان پر لعنت پڑتی رہے گی اور قیامت میں بھی فرشتے اور اہل موقف ان پر لعنت کریں گے۔ ذلک من انباء القریٰ ، یعنی پچھلی قوموں کے قصے جو ہم تم کو سنا رہے ہیں ان میں دو قسم کی بستیاں تھیں ایک تو وہ کہ جن کو بالکل صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا یہاں تک کہ روئے زمین پر ان کا کوئی نشان تک نہیں چھوڑا مثلاً امت لوط کا مسکن کہ ان کا اب دنیا میں کوئی نشان بھی موجود نہیں دوسرے وہ جن کی آبادی ہلاک کردی گئی باقی وہ زمین اور علاقے قائم ہیں جیسے عاد وثمود کے مکانوں کے کھنڈر۔ واما الذین۔۔۔ الخ ان آیات کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جس قدر مدت آسمان اور زمین دنیا میں باقی رہے اتنی ہی مدت اشقیا (بدکار) دوزخ میں اور سعداء (نیکو کار) جنت میں رہیں گے مگر جو اور زیادہ چاہے تیرا رب، وہ اسی کو معلوم ہے اسلئے کہ جب طویل سے طویل زمانہ کا تصور کرتے ہیں تو اپنے ماحول کے اعتبار سے بڑی مدت یہی خیال میں آتی ہے اس لئے مادامت السمٰوات والارض وغیرہ الفاظ محاورات عرب میں دوام کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے بولے جاتے ہیں، باقی دوام و ابدیت کا اصلی مدلول جسے لامحدود زمانہ کہنا چاہیے وہ حق تعالیٰ کے علم غیر متناہی کے ساتھ مختص ہے جس کو ماشاء ربّک سے ادا کیا ہے۔ دوسرے معنی آیت کے یہ ہوسکتے ہیں کہ لفظ مادامت السمٰوات والارض کو کنایہ دوام سے مانا جائے یا آسمان و زمین سے آخرت کی زمین مراد لی جائے جیسے فرمایا ” یوم تبدّل الارض غیر الارض والسمٰوات (سورۂ ابراہیم) مطلب یہ ہوا کہ اشقیاء دوزخ اور سعداء جنت میں اس وقت تک رہیں گے جب تک آخرت کی زمین و آسمان باقی رہیں گے یعنی ہمیشہ، مگر جو چاہے تیرا رب تو موقوف کر دے، وہاں ہمیشہ نہ رہنے دے کیونکہ دوزخیوں اور جنتیوں کا خلود بھی اسی کی مشیت اور اختیار سے ہے لیکن وہ چاہ چکا کہ کفار و مشرکین کا عذاب اور اہل جنت کا ثواب کبھی موقوف نہ ہوگا۔ (فوائد عثمانی)
Top