Baseerat-e-Quran - Hud : 96
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ وَ : اور سُلْطٰنٍ : دلیل مُّبِيْنٍ : روشن
اور ہم نے موسیٰ کو معجزات اور روش دلیلوں کے ساتھ
لغات القرآن آیت نمبر 96 تا 101 سلطن مبین (کھلی ہوئی دلیل، روشن دلیل) ملاء (سردار) امر فرعون (فرعون کی بات) یقدم (وہ آگے ہوگا) اورد (وہ پہنچائے گا، لاکھڑا کرے گا) الورد (پہنچنے کی جگہ، گھاٹ) المورود (پہنچائے گئے) انباء (خبریں) الرقد (انعام) المرفود (انعام جو دیا گیا) حصید (کٹ جانے اور مٹ جانے والی ) القریٰ (بستیاں) ما اعنت (کام نہ آئی، فائدہ نہ دیا) یدعون (وہ پکارتے ہیں) غیر تثبیب (سوائے تباہی و بربادی کے) تشریح :- آیت نمبر 96 تا 101 قرآن کریم گزشتہ انبیاء کرام کے واقعات کو نہایت مختصر انداز سے پیش کر کے عبرت و نصیحت کے ہزاروں پہلو کھول کر رکھ دیتا ہے۔ سورئہ ھود میں سات انبیاء کرام کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ حضرت نوح ، حضرت ھود ، حضرت صالح ، حضرت ابراہیم، حضرت لوط اور حضرت شعیب اب آخر میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) کا ذکر خیر فرمایا جا رہا ہے۔ سورة ھود میں سات انبیاء کرام کے مختصر واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ : 1) ہر نبی نے اپنی امت سے بنیادی بات یہی فرمائی ہے کہ جب تک قوم توحید خالص پر نہیں آئے گی، کفر و شرک اور دنیاوی بد معاملگیوں کی اصلاح نہیں کرے گی اس کو راہ نجات نصیب نہیں ہوگی۔ اگر کفر و شرک اور ماپ تول میں کمی سے توبہ کرلی جائے گی تو اللہ جو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے وہ نہ صرف ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیگا بلکہ دین و دنیا کی تمام بھلائیوں سے ان کے دامن کو بھر دے گا۔ 2) لیکن اگر قوم نے کفر و شرک اور ماپ تول میں کمی سے توبہ نہ کی اور اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر قائم رہی تو پھر وہ اس عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکتی جو گزشتہ تمام قوموں پر آچکا ہے۔ چونکہ قرآن کریم کے اول مخاطب مکہ کے وہ کفار تھے جو پچھلی قوموں کے طرز عمل پر چل رہے تھے۔ ان واقعات کے ذریعہ ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ آج ان کے درمیان اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ موجود ہیں جن کے بعد قیامت تک کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں ہے۔ اگر انہوں نے ان کے دامن سے وابستگی اختیار کرلی تب تو ان کی نجات ہے ورنہ قیامت تک ان کو ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ جو اللہ کے محبوب پیغمبروں میں سے ایک ہیں ان کو توریت جیسی کتاب دی گئی جو امت کے لئے مینارہ نور اور راہ ہدایت تھی ان کو بہت سے معجزات دئے گئے جو ظاہری آنکھوں سے دیکھے جاسکتے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی قوم نے فرعون اور اس کے اقتدار اور دولت کی چمک دمک کے سامنے حضرت موسیٰ کے بجائے فرعون کی پیروی کی۔ حالانکہ فرعون کی پیروی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ پوری قوم ذلت و رسوائی کا پیکر بن کر رہ گئی تھی۔ لنکب جب انہوں نے حضرت موسیٰ پر ایمان قبول کیا تو اللہ نے فرعون اور اس کی سلطنت کے تمام نافرمانوں کو سمندر کے پانی میں غرق کردیا۔ فرمایا یہ جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے جو کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا لوگ خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لیتے ہیں ورنہ وہ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کی دنیا اور آخرت سنور جائے اور ان کو نجات مل جائے۔ مکہ کے کفار اور قیامت تک آنے والوں کو یہی بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کی سنت اور اس کا طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ آج حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جس نور و ہدایت (قرآن کریم) کو لے کر آئے ہیں یہ ان کی نجات اور کامیابی کے لئے آخری کتاب ہدایت ہے۔ جس نے بھی اس کو مان لان اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دامن سے وابستگی اختیار کرلی اس کی نجات ہے لیکن جس نے حضرت محمد ﷺ کے طریقوں کو چھوڑ کر خود اپنے لئے راستے بنا لئے وہ کبھی منلز مراد پر نہیں پہنچ سکتے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت اور ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ سنبھل جائیں۔ لیکن جب وہ ان کو گرفت میں لے لیتا ہے تو پھر ان کو اس سے چھڑانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
Top