Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 19
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ١۫ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اِنَّ : بیشک الدِّيْنَ : دین عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الْاِسْلَامُ : اسلام وَمَا : اور نہیں اخْتَلَفَ : اختلاف کیا الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِ : بعد سے مَا جَآءَھُمُ : جب آگیا ان کے پاس الْعِلْمُ : علم بَغْيًۢا : ضد بَيْنَھُمْ : آپس میں وَمَنْ : اور جو يَّكْفُرْ : انکار کرے بِاٰيٰتِ : حکم (جمع) اللّٰهِ : اللہ فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب
بیشک سچا اور پسندیدہ دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔ اور نہیں اختلاف کیا ان لوگوں نے جن کو کتاب دی گئی ، مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا ، سرکشی کرتے ہوئے اپنے درمیان ، اور جو شخص اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کریگا۔ بیشک اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والا ہے۔
ربط آیات : پہلی آیات میں دین کا مبنیٰ ، جڑ اور بنیاد مسئلہ توحید اور اللہ کی صفات کو قرار دیا گیا تھا۔ اب اس آیت میں اللہ نے اسلام کی حقانیت بیان فرمائی ہے مشرکین عرب اور ایران کے مجوسی دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے ادیان سچے ہیں۔ اہل کتاب یعنی یہود اور نصاری اس معاملے میں زیادہ ہی غلو کرتے تھے وہ اپنے علاوہ ہر دوسرے مذہب کو غلط بتاتے تھے اور نجات کو صرف اپنے ہی دین میں بند سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہود و نصاری کے پاس کوئی حقیقت اس وقت نہ تھی۔ اور نہ آج ہے۔ انہوں نے انبیاء کے اصل دین کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ اور کفر و شرک میں مبتلا ہوچکے تھے۔ اس سے قبل گمراہی کے اسباب بھی بیان ہوچکے ہیں۔ حق و صداقت کی مخالفت کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ، کہ ان کے مال و اولاد ان کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ اور وہ اس دنیا میں بھی مغلوب ہوں گے۔ اور آخرت میں جہنم کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اللہ نے یاد دلایا کہ تم نے جنگ بدر میں اللہ کی نصرت کا نمونہ دیکھ لیا ہے۔ اس سے عبرت حاصل کرو۔ دنیا میں گمراہی عام طور پر عورتوں اور بیٹوں کی محبت ، سونے چاندی کے جمع کردہ مال ، عمدہ ، گھوڑے مویشی اور کھیتی باڑی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ان تمام چیزوں سے بہتر اللہ کی طرف سے ملنے والا وہ اجر وثواب ہے۔ جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ مگر وہ متقیوں کے لیے ہے۔ ان نعمتوں میں پاکیزہ بیویاں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ جو اہل جنت کو حاصل ہوگی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفت بیان کیں۔ کہ وہ ایمان کا اقرار کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے اپنی لغزشوں کی معافی مانگتے ہیں دوزخ سے پناہ چاہتے ہیں ، صبر و استقلال کو اختیار کرتے ہیں اور سچائی پر ڈٹ جاتے ہیں ، ہمیشہ اطاعت کا دامن تھامے رکھتے ہیں ، اپنی نیک کمائی میں سے خرچ کرتے ہیں ، محتاجوں کی اعانت کرتے ہیں اور سحری کے وقت استغفار کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے توحید کا مسئلہ بیان فرمایا کہ دین کی جڑ اور بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے اور تمام اہل علم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ عزیز اور حکیم ہے۔ سچا دین صرف اسلام : اب اس آیت میں دین کی صداقت کا تزکرہ ہے۔ ان الدین عند اللہ الاسلام۔ یعنی اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور سچا دین صرف اسلام ہے حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزمان (علیہ السلام) تک تمام انبیاء کرام اسی دین کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں اختلاف اگر کوئی ہے تو شریعتوں میں ہے ، کیونکہ ان میں فروعی احکام ہوتے ہیں۔ جو مختلف ادوار میں مختلف ہوسکتے ہیں۔ لہذا یہود و نصاری ، مجوس یا مشرکین کا یہ دعوی کہ ان کا دین سچا ہے ، بالکل غلط دعوی ہے۔ یہ تو کذب بیانی اور خلاف واقعہ ہے۔ صداقت تو صرف دین اسلام میں ہے۔ اور اپنے دعوی میں سچا وہی ہوگا ، جو دین اسلام کا پیروکار اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لانے والا ہوگا۔ وجہ اختلاف :۔ اہل کتاب سے دو گروہ مراد ہیں۔ اولاد یہودی جو اپنے آپ کی نسبت تورات کی طرف کرتے تھے۔ کہ ان کے پاس اللہ کی عظیم کتاب ہے۔ اور دوسرے عیسائی جو انجیل کے حامل ہونے کے دعویدار تھے۔ چناچہ اگلی آیت کے مصداق دونوں گروہ یعنی یہود و نصاری ہیں۔ تاہم چونکہ اس سورة میں عموماً نصاری کا ذکر ہے اس لیے وہ خاص طور پر اس آیت کے مخاطب ہیں۔ اب اگر دین سچا ہوتا ہے۔ تو اختلاف کی کوئی وجہ نہ تھی۔ مگر انہوں نے سچے دین اسلام سے اختلاف کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس اختلاف کی وجہ بھی بیان فرما دی ، وما اختلف الذین اوتوا الکتب ، اور نہیں کیا اہل کتاب نے ، الا من بعد ماجاءھم العلم۔ مگر بعد اس کے کہ ان کے پاس علم آگیا۔ یعنی وہ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کے متعلق تمام علم یعنی ان کی تمام نشانیاں معلوم کرنے کے بعد بھی آپ کو نبی ماننے پر تیار نہ ہوئے۔ سورة بقرہ میں بیان ہوچکا ہے۔ یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم ، یہ لوگ حضور ﷺ کو اسی طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔ مگر پھر بھی ایمان نہیں لاتے تھے۔ اس سورة کی ابتدائی آیات میں نجران کے وفد کا ذکر ہوچکا ہے۔ وہ لوگ بھی جانتے تھے کہ نبی آخر الزماں حضور ﷺ ہی ہیں ، جن کی پیشین گوئیاں ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ مگر اس کے ابوجود آپ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی بغیا بینھم۔ ان کا یہ فعل آپس میں سرکشی کی وجہ سے تھا۔ یہود و نصاری کو اس زمانے میں ایک قسم کا اقتدار اور تفوق حاصل تھا۔ اور نصاری برسر اقتدار بھی تھے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر وہ نبی آخرالزمان پر ایمان لے آئے تو پھر ان کی تابعداری کرنی پڑے گی۔ اور اس صورت میں ان کا اپنا اقتدار ختم ہوجائے گا۔ مدینے کا رئیس المنافقین اسی حسد کی بناء پر ساری عمر حضور ﷺ کی مخالفت کرتا رہا۔ مدینے والے اسے اپنا بادشاہ تسلیم کرنے کو تیار تھے۔ مگر حضور ﷺ کی تشریف آوری سے اس کا سارا کھیل بگڑ گیا۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ لوگ علم حاصل ہونے کے بعد بھی مخالفت پر اڑے رہے سرکشی کرتے ہوئے محض اپنے اقتدار کے دفاع کے لیے حالانکہ اسلام کی وجہ سے انہیں جو شرف حاصل ہونے والا تھا ، اس کا وہ اندازہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ الغرض ! اہل کتاب نے سرکشی اور ضد کی بناء پر اسلام قبول نہ کیا۔ اسلام کیا ہے : اسلام کا اصلی معنی سونپ دینا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے اعمال و افعال میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو قبول کرلیتا ہے۔ تو گویا وہ اسلام لے آتا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمونہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ جب ان کے رب نے ان سے کہا ، اسلم ، تم اسلام لے آؤ۔ تو عرض کیا ، اسلمت لرب العالمین ، میں تمام جہانوں کے رب کا مطیع و فرمانبردار ہوگیا ہوں۔ اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا۔ گویا تسلیم و رضا کا نام ہی اسلام ہے۔ اور تمام انبیاء کرم اسی دین کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں۔ حتی کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی اسی دین کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ ایسا دین ہے۔ جو کامل ، اکمل اور عالمگیر ہے۔ یہ ناقابل تنسیخ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سابقہ انبیاء کی تمام شرائع منسوخ کرکے صرف نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کی شریعت کو قیامت تک کے لیے قائم و دائم رکھا۔ نجران کے عیسائیوں سے آپ نے یہی فرمایا کہ تم اسلام کیوں نہیں لاتے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پہلے ہی اسلام لائے ہوئے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ تم غلط کہتے ہو ، تم کہاں ایمان لائے ہو۔ محمد بن اسحاق کی روایت میں حضور ﷺ کے الفاظ ہیں اسلموا تم اسلام لے آؤ، تو وہ کہنے لگے۔ اسلمنا ، ہم تو اسلام لا چکے ہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا ، کذبتم ، تم جھوٹ کہتے ہو۔ کیف یصح اسلامکم ، تمہارا اسلام کیسے درست ہوسکتا ہے۔ جب کہ انتم تثبتون ولدا للہ ، تم مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ثابت کرتے ہو۔ تین خداؤں میں سے ایک کہتے ہو یا بعینہ خدا کہتے ہو مسلمان تو وہ ہے۔ جو اللہ وحدہ لا شریک کی توحید کا قائل ہے لہذا تمہارا دعوی اسلام بالکل غلط ہے۔ آنحضرت (علیہ السلام) نے مزید فرمایا کہ تم کیسے مسلمان ہو۔ جب کہ تعبدون الصلیب ، تم صلیب کی عیادت کرتے ہو۔ یہ تو شرک کی نشانی ہے۔ مسند احمد ترمذی اور دیگر احادیث میں صلیب کو وثن کہا گیا ہے۔ یہ تو بت کی مانند ہے تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اس صلیب پر لٹکائے گئے تھے جو کہ سراسر غلط ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا تیسرا کام یہ ہے۔ وتاکلون الخنزیر۔ کہ تم خنزیر کا گوشت کھاتے ہو۔ اسلام میں خنزیر قطعاً حرام ہے۔ تم خنزیر کو کھانے والے مسلمان کیسے ہوسکتے ہو۔ یہ ساری تفصیل امام رازی (رح) نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جتنے بھی نبی اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمائے ، سب کے شرائع میں خنزیر حرام رہا ہے۔ لہذا یہ سور کا گوشت کھانے والے اور حضرت مریم ؓ کی تصویروں کی پوجا کرنے والے اسلام کا دعوی کیسے کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ تو اللہ کی صریح آیات کا انکار کر رہے ہیں۔ اور ان کے متعلق حکم یہ ہے ومن یکفر بایات اللہ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرے گا۔ تو یاد رکھو۔ فان اللہ سریع الحساب۔ کہ بیشک اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ جب وہ مواخذہ کرتا ہے۔ تو پھر اس کی گرفت سے بچ کوئی نہیں سکتا۔ اطاعت خداوندی : فرمایا ان تمام حقائق کے واضح ہوجانے کے باوجود ، فان حاجوک ، اگر یہ لوگ آپ سے جھگڑا کریں ، فقل ، تو آپ کہہ دیں ، اسلمت وجہی للہ ، میں نے اپنے چہرے کو اللہ کے تابع کرلیا ہے ، و من اتبعن ، اور میرے پیروکاروں نے بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تابع بنالیا۔ غرض ! اسلام یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کی اطاعت میں دے دیا جائے۔ گویا اسلام کے بنیادی اصول دو ہیں۔ پہلا اصول توحید کا ہے جیسا کہ گذشتہ درس میں آچکا ہے۔ شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو۔ یہ توحید الہی کا اعلان ہے۔ اور دوسرا بنیادی اصول اسلام ہے یعنی اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں دے دینا۔ یہ دونوں اصول اہل کتاب میں مفقود تھے۔ نہ وہ توحید کو مانتے تھے۔ اور نہ اسلام لاتے تھے۔ لہذا ان کا زبانی دعویٰ ناقابل قبول ٹھہرا۔ وہ لوگ اپنے آپ کو حنیف یا ابراہیمی کہتے تھے جیسا کہ عرب اپنے آپ کو اسماعیلی کہتے تھے۔ جو کہ سراسر غلط تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تمہاری دعویٰ باطل ہے۔ آگے سورة نساء میں ذکر آئے گا کہ اصل حنیف تو حضور ﷺ اور آپ کے پیروکار ہیں۔ یہ اہل کتاب تو اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ دوسرے مقام سورة یوسف میں فرمایا علی بصیرۃ انا و من اتبعنی۔ میں اور میرے ماننے والے ہی صحیح بصیرت پر ہیں۔ یہ تمام انبیاء کی مشترک تعلیم ہے۔ اس میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں۔ وہ ہر بات واضح طور پر بیان کردیتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ خوب کان کھول کر سن لو۔ ثم لایکن امرکم علیکم غمۃ۔ پھر تمہارے معاملے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔ سورة ہود میں فرمایا ، فاستقم کما امرت و من تاب معک ، آپ بھی ٹھیک ٹھاک راستے پر چلیں اور آپ کے پیروکار بھی ، کیونک ہمیں اپنے مسلک ، اعمال یا اخلاق میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہمیں اپنے مسلک ، اعمال یا اخلاق میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے۔ ہمیں دل سے یقین ہے کہ ہم ٹھیک راستے پر چل رہے ہیں۔ مومن کی یہی شان ہے۔ برخلاف اسکے مشرک اور منافق اندھیرے میں ٹھوکریں کھائیگا ہمارے لیے روشنی کامینار قرآن پاک ہے جو کہ بصائر للناس وھدی ورحمۃ ہے۔ یہ دلوں میں بصیرت پیدا کرتا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہدایت کا سامان مہیا کرتا ہے۔ لہذا اس کے ساتھ تعلق قائم کرنا ضروری ہے اسکے علاوہ راہ ہدایت کسی سے نہیں مل سکتی۔ اس کو مضبوطی سے پکڑنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔ ایمان کی دعوت : فرمایا وقل للذین اوتو الکتب والامیینء اسلمتم ، ان اہل کتاب اور ان پڑھوں سے کہہ دیجئے۔ کیا تم اسلام لاتے ہو۔ دین توحید قبول کرتے ہو ، اطاعت خداوندی اختیار کرتے ہو۔ اہل کتاب سے مراد یہودو نصاری ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے۔ متمدن تھے۔ دفتری نظام سے واقف تھے۔ حکومت کرنا جانتے تھے ۔ ان کے سو کل تھے۔ جن میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور ان کے پاس تورات اور انجیل بھی تھی۔ اس لیے اہل کتاب کہلاتے تھے۔ ان کے علاوہ عرب کے باقی لوگ جو عام طور پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد تھے ، وہ ان پڑھ تھے تعلیم و تربیت مفقود تھی ، نوشت و خواند سے بےبہرہ تھے۔ تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ نزول قرآن کے زمانے میں صرف چار فیصد لوگ پڑھے لکھے تھے باقی سب ان پڑھ تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے علاوہ ان امیوں کو بھی پیغام دیا کہ بتاؤ کیا تم اسلام لاتے ہو۔ فرمایا ، فان اسلموا ، اگر اگر وہ اسلام لے آئیں ، فقد اھتدوا ، پس بیشک وہ ہدایت پا گئے۔ سورة بقرہ میں بھی اسی قسم کا بیان گزر چکا ہے۔ فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا اگر یہ بھی تمہاری طرح ایمان لے آئیں تو ہدایت پا جائیں گے۔ تم کو اللہ نے معیار حق بنا کر پیش کیا۔ غرض یہ کہ اگر اہل کتاب اور امی صحابہ کرام حضرات ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی عبدالرحمن بن عوف ، ابوعبیدہ ، خالد وغیرہم کی طرح اسلام لے آئیں تو ہدایت پاجائیں گے۔ فان تولوا ، اور اگر وہ روگردانی کریں۔ فانما علیک البلغ ، تو آپ کے ذمے پہنچا دینا ہے۔ آپ اپنی ذمہ داری پوری کردیں۔ واللہ بصیر بالعباد۔ باقی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کو نگاہ میں رکھنے والا ہے وہ ان کے ایک ایک فعل سے واقف ہے کہ انہوں نے کس قسم کے گندے عقیدے بنا رکھے ہیں۔ اور کس قدر ضد ، عناد اور تعصب کا شکار ہیں۔
Top