Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 19
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ١۫ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اِنَّ : بیشک الدِّيْنَ : دین عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الْاِسْلَامُ : اسلام وَمَا : اور نہیں اخْتَلَفَ : اختلاف کیا الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِ : بعد سے مَا جَآءَھُمُ : جب آگیا ان کے پاس الْعِلْمُ : علم بَغْيًۢا : ضد بَيْنَھُمْ : آپس میں وَمَنْ : اور جو يَّكْفُرْ : انکار کرے بِاٰيٰتِ : حکم (جمع) اللّٰهِ : اللہ فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب
بلاشبہ { الدین } اللہ کے نزدیک { الاسلام } ہے اور یہ جو اہل کتاب نے آپس میں اختلاف کیا یہ محض اس لیے ہوا کہ وہ علم پانے کے بعد اس پر قائم نہیں رہے اور آپس کی ضد اور عناد سے الگ الگ ہوگئے اور یاد رکھو کہ جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے تو اللہ کا قانون جزا بھی حساب لینے میں سست رفتار نہیں
” دین “ کے لفظ نے جزاء کی حقیقت واضح کردی : 51: قرآن کریم نے نہ صرف اس موقع پر بلکہ عام طور پر جزاء کے لیے ” الدین “ کا لفظ اختیار کیا ہے اور اسی لیے وہ قیامت کو بھی عموماً ” یوم الدین “ سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ جزاء کے بارے میں جو اعتقاد پیدا کرنا چاہتا تھا اس کے لیے یہی تعبیر سب سے زیادہ موزوں اور واقعی ہی تعبیر تھی وہ جزاء کو اعمال کا قدرتی نتیجہ اور مکافات قرار دیتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت پیروان مذہب کا عالمگیراعتقاد یہ تھا کہ جزا محض خدا کی خوشنودی اور اس کے قہرو غضب کا نتیجہ ہے اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی اکثر لوگ مسلمان کہلانے کے باوجود یہی اعتقاد رکھتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اعمال کے نتائج کو اس میں دخل نہیں۔ الوہیت اور شاہیت کا تشابہ تمام مذہبی تصورات کی طرح اس معاملے میں بھی گمراہی فکر کا موجب ہوا تھا اور موجب ہے۔ لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام و اکرام دینے لگتا ہے اور کبھی بگڑ کر سزائیں دینے لگتا ہے۔ اس لیے خیال کرتے تھے کہ خدا کا بھی ایسا ہی حال ہے وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے۔ کبھی غیظ و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاو وں کی رسم اس اعتقاد سے پڑی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربانیاں کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا عام تصور ذرا اس سے بلند ہوا لیکن جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے ان کے تصور نے بھی کوئی خاص ترقی حاصل نہ کی۔ یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائَل کا ایک خدا مانتے تھے لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شامل اور مطلق العنان خدا تھا۔ وہ کبھی خوش ہو کر انہیں اپنی چہیتی قوم بنا لیتا کبھی جوش انتقام میں آکر ان کو بربادی و ہلاکت کے حوالے کردیتا۔ مطلب اس کلام کا یہ ہے کہ یہودیوں کا یہ ایک تصور تھا۔ عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہو گئی اور جب تک خدا نے اپنی صفت انبیت کو بشکل مسیح قربان نہیں کردیا اس کے نسلی گناہ اور مغضوبیت کا کفارہ نہ ہوسکا۔ لیکن قرآن کریم نے جزا و سزا کا اعتقاد ایک دسوری ہی شکل و نعیت کا پیش کیا ہے۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل نہیں قرار دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین و ظام سے الگ ہو بلکہ اس کا ایک قدرتی گوشتہ قرار دیتا ہ۔ وہ کہتا ہے کائنات ہستی کا عالگیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہرچیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے۔ ممکن نہیں یہاں کوئی شے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و نتائج کے سلسلہ سے باہر ہو۔ پس جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لیے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی وثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں معنوی موثرات سے روح متاثر ہوتے ہیں۔ اعمال کے یہی قدرتی خواص و نتائج ہیں جنہیں سزا و جزاء سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہ ثواب ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برائی ہے اور یہ عذاب ہے۔ ثواب و عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کی ہوگی ؟ وحی الٰہی نے ہماری قہم و استعداد کے مطابق اس کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے۔ ایک دوزخ کا۔ بہشت کے نعائم ان کے لیے ہیں جن کے اعمال اچھے ہوں گے دوزخ کی عقوبتیں ان کے لیے ہیں جن کے اعمال برے ہوں گے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم کی اس آیت پر غور کرنا چاہیے پھر اس مضمون کی دوسری آیات پر نظر رکھنے سے بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ ارشاد الٰہی ہے : لَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ 1ؕ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ہُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ 0020 (الحشر 59 : 20) ” اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ اپنے اعمال و نتائی میں یکساں نہیں ہو سکتے کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کا ٹھہرایا ہوا دین ” الاسلام “ ہی ہے : 52: یقیناً دین تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی ہے نہ کہ مطلقاً ہر وہ چیز جسے دین کے نام سے موسوم کردیا جائے۔ جیسا کہ تمام مذاہب نے کیا اور آج بد قسمتی سے مسلمان بھی کر رہے ہیں اور دراصل اس آیت میں رد کیا جارہا ہے بددینوی کے اس عقیدہ کا کہ ہر دین دین حق ہے اور ہر مسلک خدا ہی کی راہ ہے اور دیر و حرم۔ کفر و ایمان میں فرق صرف لفظی و اصطلاحی ہے اور آج کل پاپولر لوگ کہتے ہیں کہ ” اجی جہاں کوئی لگا ہوا ہے صحیح لگا ہوا ہے۔ “ کیا کوئی شخص دن کو رات کہه دے اور رات کو دن کہه دے تو وہ ٹھیک ہے ؟ اونٹ کو بکری اور بکری کو اونٹ کہه دے تو ٹھیک ہے ؟ روشنی کو اندھیرا اور اندھیرے کو روشنی کہه دے تو ٹھیک ہے ؟ نہیں اور یقیناً نہیں۔ ذرا غور کرو کہ خط مستقیم کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ دو نقطوں کے درمیان ایک سیدھا خط صرف ایک ہی ممکن ہے اور وہی خط مستقیم ہے اور یہ صرف اور صرف ایک ہی ممکن ہے۔ باقی سب خطوط جتنے بھیں ڈالتے جاؤ گے سب کے سب مخنی اور کج ہوں گے۔ راہ مستقیم اللہ اور بندے کے درمیان صرف ایک ہے اور اس کا نام اسلام ہے اور یہی وہ دین ہے جو تمام ھادیان حق کا ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح کی جاسکتی ہیں۔ ” الاسلام “ کیا ہے ؟ دین اسلام۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا دین جو کچھ ہے یہی ہے اسکے سوا کچھ نہیں۔ ہاں ! و کچھ بنالیا گیا ہے وہ انساین گروہ بندیوں کی گمراہیاں ہیں۔ پس تم خدا پرستی اور عمل صالح کی اصل ، جو تم سب کے یہاں اصل دین ہے اس پر جمع ہوجاؤ اور خود ساختہ گمراہیوں سے باز آجاؤ ۔ چناچہ ارشد الٰہی ہے : ” تم ہر طرف سے منہ پھیر کر ” الدین “ کی “ طرف رخ کرو یہی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ” الدین القیم “ ہے یعنی سیدھا اور سچا دین۔ لیکن اکثر انسان ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ دیکھو اسی ایک اور صرف ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ اس کی نافرمانی سے بچو۔ نماز قائم کرو اور مشرکوں سے نہ ہوجاؤ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور گوہ بندیوں میں بٹ گئے۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس میں مگن ہے۔ “ (الروم 30 : 30) اس نے دین کے لیے ” الاسلام “ کا لفظ اسی لیے اختیار کیا ہے کہ ” اسلام “ کے معنی کسی بات کو مان لینے اور فرمانبرداری کرنے کے ہیں۔ وہ کہتا ہے دین کی حقیقت یہی ہے کہ اللہ نے جو قانون سعادت انسان کے لیے ٹھہرا دیا ہے اس کی ٹھیک ٹھیک اطاعت کی جائے۔ وہ کہتا ہے یہ سب کچھ انسان ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام کائنات ہستی اس اصل پر قائم ہے۔ سب کے بقاء و قیام کے لیے اللہ نے کوئی قانون عمل ٹھہرایا ہے اور سب اس کی اطاعت کر رہے ہیں اگر ایک لمحہ کے لیے بھی روگردانی کریں تو کارخانہ ہستی درہم برہم ہوجائے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : ” پھر کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا دین چھوڑ کر کوئی دوسرا دین ڈھونڈ نکالیں ؟ حالانکہ آسمان و زمین میں جو کوئی بھی ہے سب چاروناچار اس کے ٹھہرائے ہوئے قانون عمل کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور بالاخر سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “ (آل عمران 3 : 82) وہ جب کہتا ہے کہ ” الاسلام “ کے سوا کوئی دین اللہ کے نزدیک مقبول نہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ دین حقیقی کے سوا جو ایک اور صرف ایک ہی ہے اور تمام رسولوں کی مشترک تعلیم ہے۔ انسانی ساخت کی کوئی گروہ بندی مقبول نہیں۔ سورة آل عمران میں جہاں یہ بات بیان کی ہے کہ دین حقیقی کی راہ تمام مذہبی راہنماؤں کی تصدیق اور پیروی کی راہ ہے وہیں متصلاً یہ بھی کہه دیا ہے کہ : ” جو کوئی اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہے گا تو یاد رکھو کہ اس کی راہ کبھی قبول نہ کی جائے گی اور وہ آخرت کے دن دیکھے گا کہ یقیناً تباہ ہونے والوں میں سے ہے۔ “ (آل عمران 3 : 85) یہی وجہ ہے کہ وہ تمام پیروان دعوت کو بار بار متنبہ کرتا ہے کہ دین میں تفرقہ اور گروہ بندی سے بچیں اور اس گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائیں جس سے قرآن کریم نے نجات دلائی ہے۔ کیا ہم نے ایسا ہی کیا ؟ کیا ہم گروہ بندی سے بچ گئے ؟ کیا آج ہم صرف اسلام کے نام پر اکتفا کرتے ہیں ؟ کیا آج ہماری پہچان وہی ہے جو قرآن کریم چاہتا ہے ؟ وہ کہتا ہے میری دعوت نے تمام انسانوں کو جو مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے خدا پرستی کی راہ میں اس طرح جوڑ دیا کہ ایک دوسرے کے جاں نثار بھائی بن گئے۔ ایک یہودی جو پہلے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا نام سنتے ہی نفرت سے بھر جاتا تھا۔ ایک عیسائی جو ہر یہودی کے خون کا پیاسا تھا۔ ایک مجوسی جس کے نزدیک تمام غیر مجوسی ناپاک تھے۔ ایک عرب جو اپنے سوا سب کو اس انسانی شرف و محاسن سے تہی دست سمجھتا تھا۔ ایک صابی جو یقین کرتا تھا کہ دنیا کی قدیم سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے ان سب کو دعوت قرآنی نے ایک صف میں کھڑا کردیا ہے اور اب یہ سب ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی جگہ ایک دوسرے کے مذہبی راہنمائوں کی تصدیق کرتے اور سب کی بتلائی ہوئی متفقہ راہ ہدایت پر گامزن ہیں۔ اگر ایسا ہے ؟ تو اسلام یقیناً ان کا دین ہے کیونکہ اسلام کا یہی منشاء ہے۔ اگر آج پھر وہی تشتت ، وہی تفرقہ ، وہی نفرت ، وہی گروہ بندی ہے جو قبل از اسلام تھی تو اسلام کا ہے کو ہوا ؟ کیا اسلام اسلام کے شور کا نام اسلام ہے ؟ کیا اسلامی نام رکھ لینے کا نام اسلام ہے ؟ مذہب کے خانہ میں اسلام لکھ لینے کا نام اسلام ہے ؟ ہرگز نہیں اور یقیناً نہیں بلکہ اسلام ایمان یعنی ولی یقین اور اعال صالح کا نام ہے اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر اس کی تشریح کردی گئی ہے کہ اسلام اس وقت ہے جب سے انسانیت نے اس دنیا میں قدم رکھا اور انبیاء کرام کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا اور ہر نبی کی دعوت ” دین اسلام “ ہی کی دعوت تھی۔ بلاشبہ یہ مسئلہ خود الہ اسلام و اہل علم کے درمیان مختلف فیہ رہا اور بڑے بڑے جید علمائے اسلام نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ” دین اسلام “ صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہی کے لائے ہوئے دین کا نام ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کوئی نیا دین نہیں لائے بلکہ آپ ﷺ اس ” دین “ کے آخری داعی ہیں جو سارے انبیاء کرام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی اپنی امتوں کے سامنے پیش کرتے رہے جیسا کہ اس سورة کی آیت 85 میں اس کی تشریح موجود ہے۔ کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان درج ہے کہ : وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ 1ۚ (آل عمران 3 : 85) ” جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔ “ اور یہ بات دوسرے انبیاء کرام کے ذکر کے بعد ارشاد فرمائی گئی۔ ملاحظہ ہو سورة آل عمران کی آیت 85 کی تشریح : غور کیجیے سیدنا آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے رسول بنا کر بھیجے گئے رسول کا نام نوح (علیہ السلام) ہے اور ان کا یہ اعلان قرآن کریم میں آج بھی موجود ہے : اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ. ” میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلموں میں شامل ہو کر رہوں۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد خداوندی ہوتا ہے : اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ 1ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَوَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَیَعْقُوْبُ 1ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ اَمْ کُنْتُمْ شُهَدَآءَاِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ 1ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ 1ؕ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا 1ۖۚ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ.(البقرہ 2 : 131۔ 132) ” اس وقت کا ذکر کرو جب اس کے رب نے اس سے کہا مسلم یعنی فرمانبردار ہوجاؤ اس نے کہا میں مسلم ہوگیا یعنی تمام جہانوں کے رب کا فرمانبردار ہوگیا اور اس بات کی وصیت کی تھی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند کیا ہے لہٰذا تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب (علیہ السلام) کی وفات کا وقت آیا ؟ جب کہ اس نے اپنی اولاد سے پوچھا کہ تم کس کی بندگی کرو گے میرے بعد ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بندگی کریں گے آپ ﷺ کے معبود آپ (علیہ السلام) کے باب دادا ابراہیم (علیہ السلام) اسماعیل (علیہ السلام) اسحٰق (علیہ السلام) کے معبود کی اس کو اکیلا معبود مان کر اور اس پر اس کے مسلم یعنی فرمانبردار ہیں۔ “ مزید تشریح کے لیے عروة الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت 131 تا 133 ملاحظہ کریں۔ فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ.(الذاریات 51 : 36) ” ہم نے قوم لوط کی بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔ “ سیدنا یونس (علیہ السلام) بارگاہ رب ذوالجلال میں اپنی عرض اس طرح پیش کرتے ہیں کہ : تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ 00101 (یوسف 12 : 101) ” اے رب کریم ! مجھے مسلم ہونے کی حالت میں صالحین کا ساتھ پورا پورا عطا فرما دے۔ “ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ : یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُوْا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ.(یونس 10 : 84) ” اے میری قوم کے لوگو ! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اس پر بھروسہ کرو اگر تم ” مسلم “ ہو۔ “ مرتے وقت فرعون کی زبان سے اس طرح اعلان کرایا گیا کہ : اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ 0090 (یونس 10 : 90) ” میں مان گیا کہ کوئی معبود اس کے سوا نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں ” مسلموں “ میں سے ہوں۔ “ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ بنی اسرائیل کا اصل مذہب یہودیت نہیں بلکہ اسلام تھا اور اس بات کو دوست و دشمن سب جانتے تھے۔ یہودیت تو بعد کی اختراع ہے اور جب انہوں نے اپنے مذہب کا نام یہودیت رکھ لیا تو ظاہر ہے جو بھی اس کے بعد ان کو مخاطب کرے گا اسی نام سے کرے گا جو انہوں نے خود انپا نام رکھ لیا اور اس نام سے انہوں نے ” مکمل “ دین بھی گڑ لیا۔ یعنی صرف اپنا نام ہی نہیں بلکہ پورا دین ہی بدل کر رکھ دیا اور بدقسمتی سے آج مسلمانوں نے بھی وہی کچھ کیا جو پچھلی قومیں کرتی آئی تھیں کہ ” اسلام “ کے نام پر متفق نہ ہوئے بلکہ بریلوی ، دیوبندی ، مقلد اور غیر مقلد کے بہت سے اور نام رکھ لیے اور پھر صرف نام ہی نہیں رکھے بلکہ نقشہ اسلام کو بھی بدل کر اپنی اپنی گروہ بندی کے مطابق تشکیل دے لیا اور اس پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کا بھی یہی دین تھا چناچہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے : اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا ہُدًى وَّ نُوْرٌ 1ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ (المائدۃ 5 : 44) ” ہم نے توراة نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اس کے مطابق وہ نبی جو مسلم تھے ان لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے جو یہودی ہوگئے تھے۔ “ یہی ” دین “ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا تھا چناچہ ملکہ سبا کا بیان قرآن کریم میں ہے کہ : اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.(النمل 44 : 27) ” میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین کی ” مسلم “ ہو گئی۔ “ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حواریوں کے متعلق ارشاد الٰہی ہوتا ہے : وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ 1ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ. (المائدہ 5 : 111) ” اور جبکہ میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ایمان لائو مجھ (اللہ) پر اور میرے رسول پر تو انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم سب ” مسلم “ ہیں۔ “ اس معاملہ میں اگر کسی صاحب کو یہ شک ہو کہ عربی زبان کے الفاظ ” اسلام “ اور ” مسلم “ ان مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں کیسے مستعمل ہو سکتے تھے تو ظاہر ہے ہے کہ یہ محض ایک ناسمجھی کی بات ہے کیونکہ اصل عربی کے ان الفاظ کا نہیں بلکہ اس معنی کا ہے جس کے لیے یہ الفاظ عربی میں مستعمل ہوتے ہیں۔ دراصل جو حقیقت ان آیات میں سمجھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوا حقیقی دین مسیحیت ، یہودیت ، موسویت ، محمدیت یا کسی اور نام سے آیا ہوا نہیں بلکہ انبیاء کرام اور اور کتب آسمانی کے ذریعے سے آئے ہوئے فرمان الٰہی کے آگے سر اطاعت جھکا دینا ہے اور یہ رویہ جہاں جس بندہ خدا نے بھی جس زمانے میں اختیار کیا ہے وہ ایک ہی عالمگیر ، ازلی و ابدی دین حق کا متبع ہے۔ پھر اس دین کو جن لوگوں نے ٹھیک ٹھیک شعور اور اخلاص کے ساتھ اختیار کیا ہے ان کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسیح (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ کو ماننا تبدیلی مذہب نہیں بلکہ حقیقی دین کے اتابع کا فطری و منطقی تقاضا ہے بخلاف اس کے جو لوگ انبیائے کرام کے بعد ان کے ناموں سے بےسوچے سمجھے گھس گئے یا پیدا ہوگئے اور قومی ، گروہی و نسلی تعصبات نے جن کے لیے ان کے ناموں سے ایک مذہب کی حیثیت اختیار کرلی وہ بس یہودی یا عیسائی بن کر رہ گئے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت پر ان کی اس جہالت کی کلی کھل گئی اس لیے کہ انہوں نے نبی اعظم و آخر ﷺ کا انکار کر کے نہ صرف یہ کہ آئندہ کے لیے مسلم رہنا قبول نہ کیا بلکہ اپنے اس فعل سے یہ ثابت کردیا کہ وہ پہلے ہی ” مسلم “ نہ تھے محض کسی اپنے ہی بنائے ہوئے گروہ کے افراد تھے اور اسی کے رہنا چاہتے ہیں۔ اہل کتاب ” اہل کتاب “ کہلانے کے باوجود کتاب کے اہل نہ تھے : 53: یہودی کیا تھے ؟ تورات کو کتاب الٰہی مان لینے اور تسلیم کرلینے کی وجہ سے اہل کتاب تھے۔ نصاریٰ کیا تھے ؟ انجیل کو کتاب الٰہی مان لینے اور تسلیم کرنے کی وجہ سے اہل کتاب۔ یہ دونوں گروہ آج بھی اہل کتاب ہی کے نام سے معروف ہیں۔ یہودی کھلم کھلا کہا کرتے تھے کہ نصاریٰ کا کوئی دین و مذہب نہیں اور نصاریٰ باوجود تورات کو ماننے کے ببانگ دہل کہتے تھے کہ یہودیوں کا کوئی دین و مذہب نہیں۔ اسلام آیا تو وہ دونوں گروہ باوجود اپنے سارے اختلافات کے اسلام کے مقابلہ میں اکٹھے ہوگئے اور کہنے لگے کہ جنت میں کوئی آدمی داخل نہیں ہو سکتا کب تک کہ یہودی یا نصرانی نہ ہو یعنی جب تک کوئی شخص یہودیت یا نصرانیت کی گروہ بندی میں داخل نہ ہو اور ان کی بنائی ہوئی گروہ بندی کا پٹا اپنی گردن میں نہ ڈالے وہ جنتی نہیں ہو سکتا۔ کیا اب ان کی ذاتی اور دونوں جماعتوں کے اندرونی اختلافات ختم ہوگئے ؟ ہرگز نہیں ! یہ تو اسلام کی مخالفت میں ان کا متحدہ محاذ تھا۔ ان کے اپنے رگ و ریشہ میں سارے اختلافات موجود تھے یہ تو ایک ظاہرداری تھی جو انہوں نے اسلام کے مقابلہ میں بنائی۔ پیروان مذہب نے اسلام کی مخالفت کیوں کی ؟ اس لیے کہ وہ انہیں جھوٹا کہتا ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ ان کی مخالفت اس لیے نہ تھی کہ وہ انہیں جھٹلاتا کیوں ہے بلکہ اصل مخالفت ان کی اسی وجہ سے تھی کہ وہ جھٹلاتا کیوں نہیں ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ بالکل ایسا ہی ہوا ، ان کے مخالفت محض اس لیے تھی کہ وہ جھٹلاتا کیوں نہیں۔ یہ اس طرح کہ ہر مذہب کا پیرو چاہتا تھا کہ وہ صرف اسی کو سچا کہے باقی سب کو جھٹلائے اور چونکہ وہ یکساں طور پر سب کی تصدیق کرتا تھا اس لیے کوئی بھی اس سے خوش نہ رہ سکا۔ یہودی اس بات سے تو بہت خوش تھے کہ قرآن کریم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرتا ہے اور ان کو اولو العزم نبی تسلیم کرتا ہے لیکن وہ صرف اتنا ہی نہیں کرتا تھا بلکہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بھی تصدیق کرتا تھا اور یہیں آکر اس میں اور یہودیوں میں نزاع شروع ہوجاتا تھا۔ عیسائیوں کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت مریم [ کی پاکیزگی و صداقت کا اعلان کیا جائے ؟ لیکن قرآن کریم صرف اتنی ہی بات نہیں کرتا تھا وہ یہ بھی کہتا تھا کہ نجات کا دارومدار اعتقاد و عمل پر ہے نہ کہ کفارہ و اصطباغ پر اور قانون نجات کی یہ عالمگیر و سعت عیسائی کلیسا کے لیے ناقابل برداشت تھی کیونکہ یہ دونوں عقیدے ان کے مذہبی کی جان تھے اگرچہ انہوں نے ان کو خود گھڑا اور وضع کیا تھا لیکن وہ ان کو مذہبی امتیازی حیثیت سے مان چکے تھے۔ اسی طرح قریش مکہ کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دل خوش صدا نہ تھی کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل (رح) کی بزرگی کا اعتراف کیا جائے لیکن جب وہ دیکھتے تھے کہ قرآن کریم اور پیغمبر اسلام ! جس طرح ان دونوں بزرگوں کی بزرگی کا اعتراف کرتا ہے اسی طرح یہودیوں کی پیغمبروں اور عیسائیوں کے داعی کا بھی معترف ہے تو ان کی نسلی او جماعتی غرور کو ٹھیس لگتی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ایسے لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے پیرو کیونکر ہو سکتے ہیں جو ان کی بزرگی اور صداقت کی صفت میں دوسروں کو بھی لاکھڑا کرتے ہیں ؟ دعوت انبیاء ایک تھی اس میں کبھی اختلاف نہیں ہوا : 54: آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ ﷺ تک سارے انبیاء کرام کی دعوت اصولی طور پر ایک ہی تھی لیکن ہر دور میں پیرو ان دعوت اس دعوت کی سچائی سے خود منحرف ہوگئے۔ وہ اپنے نبی کی تصدیق کرتے رہے اور اپنی کتاب کا نام لیتے رہے لیکن اس کے باوجود اس کی تعلیم اور اس کی لائی ہوئی ہدایت کے بجائے انہوں نے اپنی اہوا و خواہشات کی پیروی کی۔ ہر نبی کی دعوت دراصل یہی تھی اور خود نبی کریم ﷺ کی بھی دعوت یہی ہے کہ سب کو ان کی گم شدہ سچائی پر از سر نو جمع کردیا جائے۔ اگر وہ اپنے ہی نبی کی لائی ہوئی سچائی پر جمع ہوجائیں تو وہ دوسرے نبی کی لائی ہوئی سچائی کا انکار کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لیے اسلام کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ کسی ایک نبی کا انکار سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے انکار کے مترادف ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ان سب کی دعوت اور ان سب کی لائی ہوئی سچائی ایک تھی۔ اس سلسلہ میں اس نے تمام پیروان مذاہب کی تمام گمراہیاں ایک ایک کر کے گنوائی ہیں جو اعتقادی اور عملی دونوں طرح کی ہیں پھر منجملہ ان سب کے ایک گمراہی سب سے بڑی گمراہی رہی ہے جس پر جابجا زور بھی دیا گیا ہے وہ گمراہی ویہ ہے جس کو اس نے تشتت و گروہ بندی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یعنی الگ الگ جتھے بنالینا اور ان میں ایسی روح کا پیدا ہوجانا جسے اردو زبان میں ” گروہ بندی “ کی روح سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ قرآن کریم نے خود پیغمبر اسلام ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا۔ ” جن لوگوں نے اپنے ایک ہی دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور الگ الگ گروہ بندیوں میں بیٹ گئے اے پیغمبر اسلام ! تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے جیسے کچھ ان کے اعمال رہے ہیں اس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ انہیں بتلا دے گا۔ “ (الانعام 6 : 160) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” پھر لوگوں نے ایک دوسرے سے کٹ کر جدا جدا مذہب بنا لیے اور ہر ٹولی کے پلے پر جو کچھ پڑگیا ہے وہ اس میں مگن ہے۔ “ (المؤمنون 23 : 52) یہ اختلاف کیوں ہوا ؟ وہ کہتا ہے اختلاف کی وجہ صرف اور صرف اپنی اپنی ضد وعناد ہے۔ سب کے پاس ایک ہی تعلیم تھی لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد لوگ اس پر قائم نہیں رہے اور اصل تعلیم بھلا دی ان کو ایک ہی دعوت دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ آپس میں الگ الگ ہوگئے اور انہوں نے اللہ کی آیتوں سے انکار کیا اور اللہ تعالیٰ کا قانون جزاء ان سب پر لاگو ہوگیا۔ حالانکہ سب کی بنیادی تعلیم صرف ایک تھی اس لیے کہ اسکا چشمہ ایک ہی تھا اس لیے ہر آنے والے کو ایک ہی جیسا پیغام دیا گیا۔ چناچہ وہ کہتا ہے کہ : وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 0025 (الانبیا 21 : 25) ” اور اے پیغمبر اسلام ! ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول دنیا میں نہیں بھیجا مگر اس وحی کے ساتھ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس میری ہی عبادت کرو۔ “ وہ کہتا ہے دنیا میں کوئی بانی مذہب بھی ایسا نہیں ہوا جس نے ایک ہی دین پر اکٹھے رہنے کی اور تفرقہ و اختلاف سے بچنے کی تعلیم نہ دی ہو۔ سب کی تعیم یہی تھی کہ اللہ کا دین بچھڑے ہوئے انسانوں کو جمع کردینے کے لیے ہے۔ الگ الگ کردینے کے لیے نہیں ہے پس ایک پروردگار عالم کی بندگی و دنیاز میں سب متحد ہوجائو اور تفرقہ و مخاصمت کی جگہ باہمی محبت و یکجہتی کی راہ اختیار کرو۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں ایک ہی جامہ انسانیت دیا تھا لیکن تم نے طرح طرح کے بھیس اور نام اختیار کرلیے اور رشتہ انسانیت کی وحدت سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ تمہاری نسلیں بہت سی ہیں اس لیے تم نسل کے نام پر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں تمہاری قومیتیں بیشمار ہیں اس لیے ہر قوم دوسری قوم سے دست و گریباں ہورہی ہے۔ تمہارے رنگ یکساں نہیں اور یہ بھی باہمی نفرت وعناد کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ تمہاری بولیاں مختلف ہیں اور یہ بھی ایک دو سے سے جدا رہنے کی بڑی حجت بن گئی ہے پھر ان کے علاوہ امیر و فقیر ، نوکر و آقا ، وضیع و شریف ، ضعیف و قومی اور ادنیٰ و اعلیٰ بیشمار اختلاف پیداکر لیے گئے ہیں اور سب کا منشاء یہی ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائو اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہو۔ ایسی حالت میں بتلاؤ وہ رشتہ کون سا رشتہ ہے جو اتنے اختلافات رکھنے پر بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے اور انسانیت کا بچھڑا ہوا گھر انا پھر از سر نو آباد ہوجائے ؟ وہ کہتا ہے کہ غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ صرف ایک ہی رشتہ ہے اور وہ خدا پرستی کا مقدس رشتہ ہے۔ تم کتنے ہی الگ الگ ہوگئے ہو لیکن تمہارا خدا تو الگ الگ نہیں ہو سکتا ۔ تم سب ایک ہی پروردگار کے بندے ہو تم سب کی بندگی و نیاز کے لیے ایک ہی معبود کی چوکھٹ ہے۔ تم بیشمار اختلافات رکھنے پر بھی ایک ہی رشتہ عبدیت میں جکڑے ہوئے ہو۔ تمہاری کوئی نسل ہو۔ تمہارا کوئی وطن ہو۔ تمہاری کوئی قومیت ہو۔ تم کی درجے میں اور کسی حلقے کے انسان ہو لیکن جب ایک ہی پروردگار کے آگے سرنیاز جھکا دو گے تو یہ آسمانی رشتہ تمہارے تمام ارضی اختلافات مٹا دے گا تم سب کے بچھڑے ہوئے دل ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے۔ تم محسوس کرو گے کہ تمام دنیا تمہارا وطن ہے اور تمام نسل انسانی تمہارا گھرانا ہے اور تم سب ایک ہی رب العالمین کی عیال ہو۔ منکرین حق کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ ” سریع الحساب “ بھی ہے : 55: اہل کتاب ہوں یا مشرکین مکہ ان سب کو معلوم ہوناچاہیے کہ جو لوگ بھی دعوت حق کا مقابلہ کر رہے ہیں ان سب کے لیے بآلاخر نامرادی وتباہی ہے۔ گویا ایک پیش گوئی ہے جو پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانہ اقدس کے وقت سے برسوں پہلے کرائی جارہی ہے جب انسان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافی ہے اسے چاہیے کہ اس پر اکتفا کرے اور سب کاموں میں اس کی حسن تدبیر پر بھروسہ کرے اور جب جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے سانس بھی گنتا جارہا ہے یعنی اس کے قانون میں ہے کہ اس کی ہر حرکت شمار کی جارہی ہے اور وہ ہر ایک چیز کا حساب لے گا تو اسے چاہیے کہ اپنے تمام افعال اور حالات کو نقائص اور عیوب سے پاک رکھے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ حساب لینے والا کافی ہے۔ “ (الانبیاء 21 : 47) (الاحزاب 33 : 39) وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ وہ بہت جلد حساب چکا دیتا ہے۔ (المؤمنون 23 : 199 ) (المائدہ 5 : 4 ) (یوسف 12 : 13) (حم السجدہ 14 : 14) ” اللہ تعالیٰ نے پیغام پہنچانا پیغمبر اسلام ﷺ کے ذمہ اور حساب لینا اپنے ذمہ رکھا ہے۔ “ (الانعام 6 : 52) (الرعد 13 : 40) ” پس اے مسلمانو ! اللہ سے ڈرتے رہو یعنی اس کے قانون مجکافات سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دیکھ بھال لے کہ کل قیامت کے لیے اس نے کیا ذخیرہ آگے بھیجا ہے اور اللہ کے قانون مکافات سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے عملوں سے باخبر ہے اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جو اللہ کو بھول گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی جانوں سے بھی غافل کردیا اور وہی لوگ فاسق ہیں۔ “ (الحشر 59 : 18۔ 19 )
Top