Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 55
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسٰٓى : اے عیسیٰ اِنِّىْ : میں مُتَوَفِّيْكَ : قبض کرلوں گا تجھے وَرَافِعُكَ : اور اٹھا لوں گا تجھے اِلَيَّ : اپنی طرف وَمُطَهِّرُكَ : اور پاک کردوں گا تجھے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَجَاعِلُ : اور رکھوں گا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْكَ : تیری پیروی کی فَوْقَ : اوپر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْٓا : کفر کیا اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن ثُمَّ : پھر اِلَيَّ : میری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹ کر آنا ہے فَاَحْكُمُ : پھر میں فیصلہ کروں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان فِيْمَا : جس میں كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تھے
اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اے عیسیٰ ! بیشک میں تجھ کو قبض کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور پاک کرنے والا ہوں ، ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا ، اور میں بنانے والا ہوں تیرا اتباع کرنے والوں کو اوپر ان لوگوں کے جنہوں نے کفر کیا قیامت (کے قریب تک) پھر میری طرف ہی تم سب کا لوٹ کر آنا ہوگا۔ پھر میں فیصلہ کروں گا تمہارے درمیان ان باتوں میں جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں ان سازشوں کا ذکر تھا ، جو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نقصان پہنچانے کے لیے کیں۔ انہوں نے آپ کو قتل کروانے کے لیے بادشاہ وقت کے کان بھرے کہ یہ شخص تورات کو بدلنا چاہتا ہے یہ لوگوں کو بےدین بنا دے گا لہذا اسے سزا ملنی چاہیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے بھی مخفی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیر کی۔ اور اللہ ہی سب سے بہتر تدبیر کرنے والے ہیں وہ یہودیوں کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے بلکہ خود اپنی منشاٗ کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حفاظت کریں گے۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہودیوں کی سازش کے تحت۔ فبعث فی طلبہ ان یاخزہ ویصلبہ و ینکل بہ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو گرفتار کرکے لایا جائے۔ انہیں سولی پر لٹکایا جائے۔ اور انہیں عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کی جرات نہ کرسکے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اذ قال اللہ یعیسی۔ وہ واقعہ قابل ذکر ہے جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا۔ انی متوفیک۔ میں تجھ کو قبض کرنے والا ہوں۔ توفی کا معنی : عربی لغت میں توفی۔ وفی۔ کا معنی ہوتا ہے اخذ الشیئ۔ وافیا ، یعنی کسی چیز کا مکمل طور پر وصول کرلینا ہے۔ کسی چیز کو قبض کرلینا مراد ہوتا ہے چناچہ شیخ الہند اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے کہا اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھا لوں گا تجھ کو اپنی طرف جو کہ بالکل صحیح ترجمہ ہے۔ البتہ مجازی طور پر اس کا اطلاق موت اور نیند پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا۔ اللہ یتوفی الانفس حین موتھا۔ اللہ تعالیٰ موت کے وقت نفسوں کو قبض کرلیتا ہے۔ والتی لم تمت فی منامہا۔ اور جو نیند کے وقت نہیں مرتی اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ گویا توفی کا لفظ نیند کے لیے بھی استعمال ہوگیا۔ وھو الذی یتوفاکم باللیل۔ اللہ تعالیٰ رات کو تمہاری روحوں کو قبض کرلیتا ہے۔ و یعلم ما جرحتم بالنھار۔ اور اللہ جانتا ہے جو تم دن میں کام کرتے ہو۔ اس طرح توفی کے تین معنی ہوگئے۔ اصل معنی وصول کرنا اور مجازی معنی موت اور نیند ہوگیا۔ تو بعض اس کا مجازی معنی کرتے ہیں۔ اور پھر اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پا گئے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بالفرض اگر توفی کا معنی موت بھی لیا جائے۔ تو پھر متوفیک ورافعک الی ، میں تقدیم تاخیر ماننی پڑے گی۔ یعنی عمل کے لحاظ سے رافعک الی پہلے ہوگا اور متوفیک کا عمل بعد میں۔ اس طرح معنی یہ ہوگا کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) میں (اس وقت) تجھ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور پھر (اپنے وقت پر) موت دینے والا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس توفی کا معنی موت کرتے ہیں مگر ان سے یہ روایت بھی صراحتاً منقول ہے۔ کہ حضور ﷺ نے فرمایا لم یمت عیسیٰ ، یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو موت نہیں ٓائی ، بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ آپ قیامت کے قریب دوبارہ نزول کریں گے۔ اور زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں گے۔ جیسے وہ اس سے پہلے ظلم اور ناانصافی سے پر ہوگی ! ابو داود شریف کی روایت میں یہ بھی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ نزول کے بعد چالیس سال تک زمین پر حکومت کریں گے بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نکاح بھی کریں گے۔ بچے پیدا ہوں گے۔ پھر آپ کی وفات کا ذکر بھی ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے۔ کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پائیں گے تو میرے پاس ہی دفن ہوں گے۔ چناچہ حجرہ مبارک میں چوتھی قبر کی جگہ اب بھی موجود ہے۔ اس وقت وہاں پر تین قبریں ہیں یعنی حضور ﷺ حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق ، چوتھی قبر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بنے گی۔ ان احادیث کے علاوہ اگلی سورة نساٗ میں بل رفعہ اللہ الیہ ، کے صریح الفاظ موجود ہیں ، جس کا معنی یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے وفات نہیں پائی بلکہ اللہ نے آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ حیات مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں روایات اس کثرت سے ہیں۔ کہ وہ تواتر کا درجہ رکھتی ہیں۔ تواتر چار قسم کا ہوتا ہے یعنی لفظی ، معنوی ، طبقہ اور توارد۔ اور یہ چاروں درجات ان احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ غرضیکہ تواتر کے راوی اتنی کثرت سے ہوتے ہیں۔ کہ آدمی کی عقل تصور نہیں کرتی کہ اتنے آدمی جھوٹ بول سکتے ہیں۔ ابن حزم ظاہری لکھتے ہیں۔ لم یشک فی کفرہ اثنان۔ یعنی آپ کو دو آدمی بھی ایسے نہیں ملیں گے ، جنہیں ایسے شخص کے کفر میں شک ہو ، جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات اور آپ کے دوبارہ نزول پر یقین نہ رکھتا ہو۔ یعنی پوری امت کے علمائے دین میں سے کوئی بھی اس معاملہ میں متردد نہیں ہے۔ اس مسئلہ کا ایک دوسرے طریقہ سے تجزیہ بھی ضروری ہے کہ ایک منٹ کے لیے فرض کرلیا جائے کہ متوفی کا معنی موت دینا ہے۔ تو پھر گذشتہ آیت کی تکذیب لازم آئے گی۔ گذشتہ آیت میں گزر چکا ہے کہ مخالفوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مارنے کی تدبیر کی۔ اور ادھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بچانے کی تدبیر کی۔ اگر مخالفین آپ کی جان لینے میں کامیاب ہوگئے تو پھر واللہ خیر المکرین۔ کا کیا معنی نکلا۔ اس سے مراد تو یہ ہے کہ اللہ کی تدبیر کامیاب ہوئی۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو بچا لیا گیا۔ اور اگر ان کو موت ہی دے دی گئی۔ تو پھر اللہ تعالیٰ اور مخالفوں کی تدبیر کی کامیابی کا اعلان کیا ہے ، جو حیات مسیح پر قطعی دلیل ہے۔ قادیانیوں کی غلط تاویل : توفی کے لفظ سے قادیانیوں نے بڑا غلط مفہوم لیا ہے۔ وہ اس کا معنی موت کرتے ہیں۔ اور پھر اس دعوی کی دلیل میں سورة مائدہ کی یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں۔ فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم۔ عیسیٰ اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے ، اے مولا کریم ، جب تو نے مجھے فوت کردیا ، موت دے دی ، تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ مرزائی پھر اس سے یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) فوت ہوچکے ہیں ، اس لیے ان کے دوبارہ نازل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ قرآن پاک کی بہت سی آیات کے علاوہ حضور ﷺ کی احادیث بکثرت موجود ہیں ، جن میں مسیح (علیہ السلام) کے دوبارہ نازل ہونے کا ذکر ہے ، تو کہتے ہیں۔ کہ ان احادیث کی رو سے دوبارہ آنے والے مسیح ابن مریم نہیں ہوگا بلکہ مثیل مسیح یعنی اس کے مشابہ ہوگا۔ اور وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔ جس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ وہ دنیا میں ہدایت کا سامان پیدا کرے گا۔ لہذا مسیح موعود آ چکا ہے۔ اب کسی مسیح کا انتظار نہیں ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی مسئلہ جس پر قادیانی گزشتہ تقریباً سو سال سے جھگڑا کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ دعوی صریحاً کفر ہے۔ مسئلہ ختم نبوۃ : علمائے امت نے اس مسئلہ میں قادیانیوں کا ہر طرح سے رد کیا ہے بڑے بڑے مناظرے ہوئے اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مولانا سید انور شاہ کشمیری جو بیس سال تک مدرسہ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث رہے ہیں انہوں نے ختم نبوت پر فارسی زبان میں بہت عمدہ کتاب لکھی ہے۔ آپ کا علم چونکہ زیادہ عمیق تھا اس لیے کتاب ذرا مشکل ہے ، مگر قادیانیوں کا بڑے اچھے طریقے سے رد کیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ ذرا محنت کرکے پڑھنے والے اس کتاب سے خوب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آپ نے حیات مسیح پر بھی عربی میں دو کتابیں لکھی ہیں اور ان میں مسئلہ کی پوری تحقیق کے ساتھ وضاحت کی ہے۔ مفتی محمد شفیع نے اپنی کتاب میں مسیح (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول کے متعلق ایک سو حدیثوں کا ذکر کیا ہے۔ جو تواتر کے درجہ کی ہیں۔ عربی زبان میں یہ نہایت عمدہ کتاب ہے۔ جو دمشق میں طبع ہوئی۔ موجودہ زمانے کے علمائے کرام میں سے مولانا ابو الحسن علی ندوی نے عربی زبان میں القادیانیہ لکھی ہے۔ جس سے مشرق وسطی میں اس مسئلہ کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں علمائے کرام میں سے ابوالحسن علی ندوی نے عربی زبان میں القادیانیہ لکھی ہے ۔ جس سے مشرق وسطیٰ میں اس مسئلہ کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں علمائے امت نے چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں قادیانیت کا رد کیا گیا ہے۔ حق و باطل : اس وقت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق دنیا میں تین مذاہب پائے جاتے ہیں۔ یہود ، نصاری اور اہل حق ، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا گیا۔ آگے سورة نساء میں اس کا مفصل ذکر آئیگا۔ اللہ تعالیٰ نے تردید کی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ قتل کیا گیا اور نہ سولی دی گئی۔ لہذا یہودیوں کا عقیدہ باطل ٹھہرا نصاریٰ کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا دیا گیا اور وہ سات گھنٹے تک مردہ رہے۔ اس کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے۔ یہ بھی باطل عقیدہ ہے۔ تیسرا عقیدہ اہل حق کا ہے۔ وما قتلوہ و ما صلوبوہ۔ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ قتل کرنے میں کامیاب ہوسکے اور نہ سولی دینے میں کامیاب ہوئے۔ اور نہ ہی ان کی طبیع موت واقع ہوئی۔ بل رفعہ اللہ الیہ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صحیح سلامت باعزت اپنی طرف اٹھا لیا۔ تو اس آیت میں بھی یہی بات ہے۔ انی متوفیک۔ میں تجھے اپنے وقت پر فوت کروں گا۔ سر دست میں تجھ کو رافعک الی۔ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں یہ بشارت اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی زندگی میں ہی سنا دی جس کا تذکرہ حضور ﷺ سے کیا جا رہا ہے۔ واقعہ ارتفاع : اس کے بعد فرمایا ، و مطہرک ، اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! میں تجھ کو پاک کرنے والا ہوں۔ من الذین کفرو۔ ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا۔ یعنی کافروں کے ناپاک ہاتھ تجھ تتک نہیں پہنچ پائیں گے۔ چناچہ روایات میں آتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو گرفتار کرنے والے آئے۔ آپ کے ساتھی ، ادھر ادھر بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ آپ جس مکان میں محصور تھے۔ دشمنوں نے ایک شخص کو اس مکان کے اندر بھیجا تاکہ وہ آپ کو گرفتار کرسکے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس مکان کے روشندان کے راستے اٹھوا لیا اور جو آدمی پکڑنے گیا تھا اس پر مسیح (علیہ السلام) کی شبیہ ڈال دی وہ شخص کافی دیر تک تلاش کرنے کے بعد جب خود باہر نکلا تو لوگوں نے اسے ہی مسیح سمجھ لیا اور پکڑ کرلے گئے۔ اس نے بڑا شور مچایا کہ وہ مسیح نہیں ہے مگر اس کی بات کون سنتا تھا۔ ولکن شبہ لھم ، کا یہی مطلب ہے کہ ان پر شبہ ڈال دیا گیا اور وہ اپنے ہی آدمی کو مسیح سمجھ بیٹھے اور اسے سولی پر چڑھا دیا۔ عیسی (علیہ السلام) کی ذاتی حفاظت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بشارت بھی سنائی۔ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیمۃ۔ اور میں تیرے متبعین کو قیامت تک کے لیے کفار کے اوپر بنانے والا ہوں۔ یعنی غالب کرنے والا ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا کہ تیرا اتباع کرنے والوں کو قرب قیامت تک کفار پر غالب رکھوں گا۔ اب غور فرمائیے کہ اتباع کرنے والے کون ہیں اور کفر کرنے والے کون۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین میں دو گروہ واضح ہیں۔ پہلا درجہ آپ کے ابتدائی دور کے حواریوں کو ہے۔ جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کو خدا کا سچا نبی تسلیم کیا۔ موجودہ مسلمان بھی اسی گروہ مٰں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بلکہ تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ کامل متبعین ہیں۔ البتہ متبعین کا دوسرا گروہ نصاری کا ہے۔ جو اگرچہ کامل متبعین نہیں ہیں۔ مگر وہ عزت تو کرتے ہیں تو بہرحال اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ ان دو گروہوں کو قیامت کے قریب تک غالب رکھوں گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں آج تک مسلمان یا عیسائی ہی غالب رہے ہیں ان لوگوں پر جنہوں نے کفر کیا۔ اور آپ کا کفر کرنے والے یہودی ہیں۔ جنہوں نے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے ناپاک ہاتھوں سے بچا لیا۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہودی مغلوب ہی رہے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کا کوئی وطن ہی نہیں تھا اور کوئی حکومت نہیں تھی۔ اب قریبی زمانہ میں یہودیوں کی حکومت بھی قائم ہوگئی ہے۔ اور انہوں نے اسرائیل کے نام پر اپنا علیحدہ وطن حاصل کرلیا ہے کیا اب اللہ تعالیٰ کا وعدہ غلط ہوگیا ہے ؟ نہیں ، بلکہ اللہ کا وعدہ قائم ہے۔ یہودیوں کی موجودہ حکومت کوئی مستقل حکومت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ملک دنیا کی سپر پاورز امریکہ ، روس ، فرانس اور برطانیہ کی مشترکہ چھاؤنی ہے۔ روس کے علاوہ باقی تینوں طاقتیں عیسائی ہیں۔ جب کہ روس بگڑا ہوا یہودی اور عیسائی ہے ، دہریہ اور ملحد ہے اگر اسرائیل کو ان عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو یہ ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ ان کو امن اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے۔ کہ یا تو خدا پر ایمان لے آئیں یا دوسری قوموں کے ماتحت ہو کر رہیں۔ اس زمانے میں یہ لوگ غیر اقوام کیک ماتحتی میں ہیں اور الا بحبل من الناس کے مطابق غیروں کی سرپرستی میں گزارہ کر رہے ہیں۔ حقیقت میں ان کی اپنی ذاتی حیثیت صفر کے برابر ہے جب بھی اغیار کی حمایت سے محروم ہوں گے ، مسیح (علیہ السلام) کے متبعین کے مغلوب ہی ہوں گے۔ الغرض ! فرمایا ، میں تیرا اتباع کرنے والے لوگوں کو تیرے ساتھ کفر کرنے والے لوگوں پر غالب بنانے والا ہوں۔ اور یہ سلسلہ قیامت کے قریب تک اسی طرح رہے گا۔ ثم الی مرجعکم۔ پھر قیامت کے بعد تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہوگا۔ فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون۔ پھر میں تمہارے درمیان ان چیزوں میں فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔ عذاب اور ثواب : فرمایا فاما الذین کفرو۔ پس بہرحال وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا۔ فاعذبھم عذابا شدیدا فی الدنیا والاخرۃ پس ان کو دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دوں گا۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہو کر ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت کا عذاب تو قطعی ہے۔ وما لھم من نصرین۔ اور ان کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا۔ جو مشکل وقت میں ان کو عذاب الہی سے بچا سکے۔ واما الذین امنوا وعملوا الصلحت اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال انجام دیے فیوفیھم اجورھم ، ان کو ان کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ واللہ لا یحب الظلمین۔ اور اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ایسی قوم اور ایسا شخص سزا کا مستحق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ضرور آئے گا۔ دیکھ لیجئے وفی کا لفظ یہاں بھی آیا ہے۔ اور معنی وہی ہے اخذ الشیئ وافیا۔ کسی چیز کو مکمل طور پر لے لینا۔ اس لفظ کا لغوی معنی موت نہیں ہے۔ بلکہ موت پر یہ مجازا بولا جاتا ہے۔
Top