Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوا : یاد کرو تم اللّٰهَ : اللہ ذِكْرًا : یاد كَثِيْرًا : بکثرت
اے ایمان والو ! یاد کرو اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے حضرت زید ؓ اور حضرت زینب ؓ کے نکاح سے متعلق فرمایا کہ کسی مومن مرد و زن کے لائق نہیں ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی منشاء کے خلاف اپنی مرضی چلانے ، پھر اللہ تعالیٰ نے زید ؓ پر کئے گئے انعامات کا ذکر کیا۔ پھر حضرت زید ؓ اور زینب ؓ کے درمیان طلاق اور حضور ﷺ کے ساتھ حضرت زینب ؓ کے نکاح کا ذکر کیا۔ پھر اللہ نے حضور ﷺ کو تسلی دی کہ اس ضمن میں مخالفین کے پراپیگنڈا کو خاطر میں نہ لائیں۔ یہ نکاح ہم نے خود کرایا ہے تاک اہل ایمان ر یہ مسئلہ واضح ہوجائے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح بالکل درست ہے فرمایا یہ دستور سابقہ ادوار سے چلا آ رہا ہے اور اللہ نے اپنے انبیاء کے لئے جو چیز مباح قرار دی انہوں نے اس پر عمل کرنے میں کسی ملامت کنندہ کی پرواہ نہیں کی وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ حضور ﷺ تم میں سے کسی مرد بشمول حضرت زید ؓ کے باپ نہیں ہیں ، بلکہ آپ تو تمام انبیاء اور رسل کے خاتم ہیں۔ آپ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا ، نہ کتاب اور نہ کوئی نئی شریعت ، لہٰذا جاہلیت کی رسوم کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کے آپ کے ذریعہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح عملی طور پر پیش کردیا جائے تاکہ آئندہ کے لئے یہ باقی لوگوں کے لئے دستور العمل بن جائے۔ ذکر الٰہی کی فضیلت چونکہ کافر ، مشرک اور منافق اسلام اور اللہ کے نبی کے خلاف غلط پراپیگنڈا کرتے تھے جس سے حضور ﷺ اور اہل ایمان کو سخت ذہنی پریشانی ہوتی تھی ، تو اس پریشانی کا حل اللہ نے یہ تجویز فرمایا۔ یایھا الذین امنوا اذکروا اللہ ذکرا کثیرا اے ایمان والو ! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو۔ اگر مخالفین بیہودہ باتیں اور طعنہ زنی کرتے ہیں تو تم اس کا ترکی بہ ترکی جواب نہ دو بلکہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرو کہ اس میں تمہارا فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادات کے لئے خاص اوقات اور خاص مقدار مقرر فرمائی ہے مگر ذکر الٰہی ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔ اس کے لئے نہ کوئی وقت مقرر ہے ، نہ جگہ اور نہ مقدار جس وقت ، جہاں چاہو اور جتنا چاہو اللہ کا ذکر کرسکتے ہو۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ 1 ؎ ابودائود ص 4 ج 1 حضور ﷺ کان یذکر اللہ فی کل احیانہ یعنی آپ (علیہ السلام) تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ مسند احمد کی روایت میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ اللہ کا ذکر اس کثرت سے کرو کہ لوگ ت میں دیوانہ کہنے لگیں۔ اور کثرت ذکر کا حق اس وقت ادا ہوگا۔ جب کوئی شخص کھڑے بیٹھے اور لیٹے بھی اللہ کا ذکر کرتا رہے۔ جب اس کی یہ حالت ہوجائے گی تو وہ ذاکرین اللہ کثیر والذکرت میں شمار ہونے لگے گا۔ اللہ کا فرمان ہے کہ جو شخص مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی سا کو اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور جو شخص کسی مجلس میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر جماعت میں کرتا ہوں۔ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشد ہے کہ عذاب الٰہی سے نجاتدلانے والی چیزوں میں ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ صحابہ کرام ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ عذاب الٰہی سے نجات دلانے والی چیزوں میں ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ صحابہ کرام ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ہر مجلس کی ابتدا بھی اللہ کے ذکر سے ہوتی تھی اور انتہا بھی ذکر الٰہی پر ہوتی تھی۔ حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھتا ہے اور وہاں اللہ کا ذکر نہیں کرتا (بعض روایات میں درود شریف کے متعلق بھی آتا ہے) تو وہ مجلس اس شخص کے لئے قیامت والے دن باعث مسرت ہوگی۔ اس دن کف افسوس ملے گا کہ وہ فلاں مجلس میں نہ اللہ کا ذکر کرسکا اور نہ اس کے نبی پر درود پڑھ سکا۔ گویا ذکر الٰہی سے محروم رہنے والے لوگ نقصان میں رہیں گے۔ سورۃ الجمعہ میں اللہ تعالیٰ کچا ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز ادا کر چکو تو زمین میں پھیل جائو اور حلال روزی تلاش کرو واذکرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون (آیت۔ 01) اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب 1 ؎ ابن کثیر ص 594 ج 3 و درمنثور ص 504 ج 5 2 ؎ مستدرک ص 055 ج 1 و مشکوٰۃ 891 ج 1 ہو۔ فرمایا مخالفین کی تکلیف دہ باتوں کا جواب ذکر الٰہی سے دو کہ یہ چیز تمہارے لئے تقویت کا باعث بنے گی کیونکہ اللہ کا فرمان ہے الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرعد۔ 82) آگاہ رہو کہ دل کا سکون اللہ کے ذکر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ذکر الٰہی سے انسان کی غفلت دور ہوتی ہے اور اسے قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے ، گناہ معاف ہوتے ہیں اور اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ تسبیح کی تاکید فرمایا ، ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرو و سبحوہ بکرۃ و اصیلا اور اس کی تسبیح بیان کرو صبح کے وقت بھی اور پچھلے پہر بھی تسبیح کا معنی تنزیہہ ہے یعنی اللہ کی ذات ہر عیب ، نقص اور ضعف سے پاک ہے جب کوئی شخص اپنی زبان سے سبحان اللہ ادا کرتا ہے تو اس کا عقیدہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ اس ذات خداوندی پر ایمان رکھتا ہے ، جس کی ذات ہر عیب اور آلودگی سے پاک ہے۔ تسبیح خدا تعالیٰ کی بہترین تعریف ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس سے فجر اور عصر کی نمازیں مراد ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے من صلی البر دین دخل الجنۃ جو شخص ان دو نمازوں کی پابندی کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اور اسے اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم مغلوب نہ ہو ان دو نمازوں پر مداومت اختیار کرو۔ بعض فرماتے ہیں کہ تسبیح سے مطلقاً ذکر مراد ہے ، ذکر سے تو انسان کا کوئی لمحہ بھی خالی نہیں ہونا چاہئے۔ مگر یہ دو واقعات ایسے ہیں جن میں اللہ کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ نماز فجر ار عصر کے وقت فرشتوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہوتی ہیں۔ ان اوقات میں لوگوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس وقت اللہ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرنا چاہئے تاکہ فرشتے اللہ کے حضور جا کر گواہی دے سکیں 1 ؎ بخاری ص 18 ج 1 2 ؎ روح المعانی ص 24 ج 22 کہ مولا کریم ! ہم تیرے بند کو اس حال میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ وہ تیرے ذکر میں مصروف تھا۔ رحمت خداوندی کا نزول فرمایا ، خدا تعالیٰ کی ذات رحیم و کریم ہے ھو الذین یصلی علیکم جو تم پر رحمت نازل کرتا ہے و ملئکتہ اور اس کے فرشتے بھی صلوٰۃ کا معنی دعا ہے اور جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف لی جاتی ہے تو مطلب نزول رحمت ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ تم پر رحمت نازل فرماتا ہے ، لہٰذا تم اس کی خوشنودی کے کام انجام دو جن کی وجہ سے اس کی رحمت زیادہ سے زیادہ تمہایر طرف متوجہ ہو۔ نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کا خیال رکھو ، اخلاق حسنہ اپنے اندر پیدا کرو ، ذکر کی کثرت رکھو ، خدا اور اس کے رسول کے احکام کی تعمیل کرو برائیوں سے اجتناب کرو تو رحمت خداوندی تمہایر طرف متوجہ ہوگی۔ اگر صلوٰۃ کی نسبت فرشتوں کی طرف کی جائے تو معنی نزول رحمت کی دعا ہوگا۔۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتے تمہارے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ فرشتے چونکہ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں اس لئے ان کی دعا یقینا قبول ہوتی ہے گویا فرشتے بھی نزول رحمت کا باعث بنتے ہیں۔ ظلمت سے نور کی طرف فرشتوں کی دعا اور خدا تعالیٰ کی نزول رحمت کا مقصد اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے لیخرجکم من الظلمت الی النور تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے۔ اگر تم اس نعمت سے واقعی مستفید ہونا چاہتے ہو تو اللہ کا کثرت سے ذکر کرو۔ مفسرین کرام اس کی تفسیر یوں بھی کرتے ہیں کہ اللہ تمہیں کفر سے نکال کر ایمان کی طرف اور معصیت سے نکال کر اطاعت کی طرف اور بدعت سے نکال کر سنت کی طرف لے جانا چاہتا ہے 1 ؎ احکام القرآن للجصاص ص 163 ج 3 2 ؎ زادالمسیر ص 893 ج 6 مجمع البیان والے اس کا مطلب اس طرح بیان کرتے ہیں کہ خداوند قدوس تمہیں جالت سے نکال کر معرفت کی طرف ، نفاق سے نکال کر اخلاص کی طرف لاتا ہے۔ کفر ، شرک ، نفاق ، بدعت ، معصیت سب اندھیرے ہیں۔ ان کی وجہ سے انسان میں روحانی تاریکی پیدا ہوتی ہے ، جو دلوں ، دماغوں اور روحوں میں چھا جاتی ہے جب تک انسان ان چیزوں سے توبہ نہ کرے وہ حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ یہ سب ناپاک چیزیں ہیں اور باطنی طہارت اس وقت نصیب ہوتی ہے جب کوئی شخص خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرے اور اس میں جذبہ اطاعت موجود ہو۔ تو فرمایا کہ خدا تعالیٰ نزول رحمت فرماتا ہے ، فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے۔ فرمایا و کان بالمومنین رحیما اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ بڑا مہربان ہے۔ اہل ایمان پر اس کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ اپنے فضل و کرم سے اللہ تعالیٰ ان کی عبادت اور ریاضت کو قبول فرماتا ہے اور ان کی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف کرتا ہے۔ یہ اس کی رحمت و بخشش کی علامت ہے ۔ دعا بطور سلام ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا تحیتھم یوم یلقونہ سلم جس دن وہ اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے اس دن انکی دعا سلام ہے۔ دو مسلمانوں کی ملاقات کے وقت بھی ایک دوسرے کو سلام کیا جاتا ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ یہ لفظ چاہتا ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں ملیں تو ان کی دعا سلام ہی ہونی چاہئے۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ یعنی دو مسلمان ملاقات پر ایک دوسرے کے لئے خیر و سلامتی کی دعا کریں۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر ہر نبی کے دور میں سلام و دعا کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ پھر جب دو مومن جنت کے اندر آپس میں ملیں گے تو وہاں پر ان کی دعا سلام ہی ہوگی۔ جب فرشتے جنتیوں کے پاس آئیں گے تو وہ بھی ان کو سلام کریں گے۔ پھر جب نیک لوگوں کے سامنے پیش ہوں گے تو وہاں بھی پروردگار فرمائے گا سلم قولا من رب الرحیم (یٰس۔ 85) اے میرے بندو ! میری طرف سے تم پر سلامتی ہو۔ غرضیکہ آپس کی ملاقات کے وقت بھی ، اور فرشتوں سے ملاقتا کے وقت بھی اور پروردگار کی طرف سے بھی سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ فرمایا واعد لھم اجرا کریما اللہ نے ایسے ایمان والوں کیلئے بڑی عزت والا اجر وثواب تیار کر رکھا ہے ان کے درجات بلند وہیں گے اور انہیں عزت کا مقام حاصل ہوگا۔۔
Top