Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! بیشک شراب اور جواء اور بت اور تقسیم کے تیر گندگی ہے اور شیطان کے کام سے ہے۔ پس بچو اس سے تاکہ تم فلاح پا جائو
ربط آیات گزشتہ درس میں حلت و حرمت کا قانون بیان ہوچکا ہے۔ اللہ نے فرمایا جن پاک چیزوں کو اس نے حلال قرار دیا ہے ان کو حرام نہ بنائو۔ نہ تو اعتقاداً انہیں حرام سمجھو اور نہ قسم اٹھا کر از خود اپنے لئے حرام قرار دو ، بلکہ ان سے استفادہ حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کچھ مزید محرمات کا ذکر کیا ہے اور حرام کردہ اشیاء سے بچنے کا حکم دیا ہے حرام کردہ اشیاء میں یقینا کوئی دینی ، دنیاوی ، جسمانی یا روحانی نقصان ہے جس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جس طرح حلال چیز کو حرام کرلینے سے فساد پیدا ہوتا ہے اور اجتماعی مصلحت خراب ہوتی ہے۔ اسی طرح حرام چیز کو استعمال کرنے سے ملی اور اجتماعی مصلحت کو نقصان پہنچے گا۔ شراب اور جواء ارشاد ہوتا ہے ۔ یا یھا الذین امنوا اے ایمان والو ! انما الخمر والمیسر بیشک شراب اور جوائ۔ یہاں ان چیزوں کا ذکر آ رہا ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے قطعاً حرام دے کر ان سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ شربا اور جوئے کا ذکر سورة بقرہ میں بھی ہوچکا ہے۔ ” لیسئلن نک عن الخمر والمیسر “ اے پیغمبر (علیہ السلام) لوگ آپ سے شربا اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں کہ ان کے متعلق کیا حکم ہے۔ تو وہاں پر اللہ نے صرف اتنا حکم دیا قل فیھما اثم کبیر و منافع اللناس ان دو چیزوں میں بڑا گناہ ہے مگر ان میں لوگوں کے لئے بعض فوائد بھی ہیں۔ نقصانات اور گناہ کا ذکر تو ابھی اگلی آیت میں آ رہا ہے تاہم شراب کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ جسم میں حرارت پیدا کرتی ہے جس سے خون میں جوش پیدا ہوتا ہے اور انسانی جسم کے لئے سردی سے بچائو ایک ذریعہ بنتا ہے۔ اسی طرح جوئے میں بغیر مشقت اٹھائے مال حاصل ہوتا ہے اور اس سے صدقہ خیرات بھی کیا جاتا ہے۔ عرب لوگ جوئے کی کمائی سے صدقہ خیرات کو بڑا فضل جانتے تھے اسی لئے فرمایا کہ ان دو چیزوں میں گناہ بھی ہے اور کچھ فائدہ بھی ہے۔ ” واثمھما اکبر من نفعھما “ تاہم ان دونوں اشیاء میں نفع کی نسبت گناہ کا عنصر غالب ہے۔ بہرحال اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے فوائد و نقصانات کا تذکرہ کیا مگر ان کی قطعی حرمت کا حکم نہیں دیا تھا۔ اس سے پہلے سورة نحل میں بعض پھلوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” تتخذون منہ سکرا ورزقاً حسنا تم ان پھلوں سے نشہ آور اشیاء (شراب وغیرہ) اور اچھا رزق (چٹنی ، اچار ، مربہ ، وغیرہ) بنا لیتے ہو۔ یہاں پر اگرچہ حلت و حرمت کا ذکر تو نہیں کیا مگر نشہ آور اشیاء کو رزق احسناً سے علیحدہ کر کے ان کی حیثیت کو کم تر قرار دے دیا۔ شراب سے متعلق یہ سب سے پہلی آیت تھی اس کے بعد سورة بقرہ کی مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی جس میں شراب اور جوئے کے فائدے اور نقصان کا ذکر کیا گیا۔ تاہم اس کی حرمت کے متعلق قطعی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس دوران حضرت عمر دعا کیا کرتے تھے ۔ اللھم بین لنا فی الخمر بیاناً شافیاً ۔ اے اللہ ! ہمارے لئے شراب کے متعلق کوئی واضح حکم نازل فرما۔ لوگ ابھی تک شراب پی رہے تھے ۔ پھر سورة نساء کی یہ آیت نازل ہوئی یا یھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوۃ و انتم سکری حتی تعلموا ما تقولون ۔ یعنی اے ایمان والو ! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو یہاں تک کہ تم جان سکو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اس آیت کریمہ کے پس منظر میں یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی شخص نے بعض صحابہ کرام کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد شراب کا دور بھی چلا جس سے انہیں نشہ آ گیا اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا ، نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو امام غلط پڑھ گئے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا۔ چونکہ اس قبیح چیز کے متعلق ابھی واضح حکم نہیں آیا تھا۔ اس لئے حضرت عمر کسی اٹل حکم کے لئے دعائیں مانگتے رہے حتی کہ آج کی یہ آیت نازل ہوئی انما الخمر والمیسر … الخ اور شراب ، جوا ، بت اور تقسیم کے تیر ہمیشہ کے لئے حرام قرار دے دیئے گئے۔ گویا شراب کی حرمت بتدریج نازل ہوئی ۔ سب سے پہلے سورة نحل میں نشہ آور اشیاء کی تیاری کی طرف اشارہ کیا۔ پھر سورة بقرہ کی آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا کہ شراب اور جوئے میں فائدہ اور نقصان دونوں عناصر پائے جاتے ہیں مگر ان کا نقصان ان کے فائدے سے بڑا ہے۔ پھر تیسرے نمبر پر سورة نساء کی آیت نازل ہوئی جس میں نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے منع کیا گیا اور آخر میں سورة مائدہ کی اس آیت نے شراب اور دیگر اشیاء کو قطعی حرام قرار دے دیا۔ اس آیت کے نزول پر حضور ﷺ نے اعلان فرمایا کہ شراب کا پینا ، بنانا ، خریدنا اور بیچنا بالکل ممنوع ہوگیا ہے۔ پھر آپ نے شراب کے برتنوں کو استعمال کرنے سے بھی منع فرما دیا اور صحابہ کرام نے شراب کشیدکر نے والے مٹکے اور پینے پلانے والے دیگر برتن توڑ ڈالے تاہم مزید کچھ عرصہ بعد شراب کے برتنوں کے استعمال کی اجازت دیدی البتہ فرمایا کل مسکر حرام۔ یعنی ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے الخمر جماع الاثم یعنی شراب تما م گناہوں کی جامع ہے جو شخص شراب پئے گا وہ دنگا فساد کرے گا ، قتل اور زنا کا مرتکب ہوگا اور دیگر برائیاں انجام دے گا ، اسی لئے اس قبیح چیز کو جامع الاثم کہا گیا ہے شراب کے مختلف ناموں میں سے ایک کا نام اثم بھی ہے جس کا معنی گناہ ہے۔ اس آیت میں اللہ نے جو ابھی قطعی حرام قرار دیا ہے۔ عربوں میں تیروں کے ذریعے جواء کھیلا جاتا تھا مگر اب تاش ، شطرنج ، گھوڑ دوڑ ، لاٹری وغیرہ اس کی مختلف صورتیں ہیں جن کے ذریعے ہارجیت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور یہ سب شکلیں حرام ہیں۔ بت پرستی اور تیر فرمایا بیشک شراب اور جواء والانصاب والازلام اور بت اور تقسیم کے تیر ، طاہر ہے کہ بت اور بت پرستی تو اسلام میں قطعی حرام ہیں۔ بتوں کے نام پر ذبیحہ کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ تاہم مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ جس چیز کی بھی عبادت کی جائے یا نذر و نیاز دی جائے وہ بھی اس حکم میں داخل ہو کر حرام ہے۔ یہاں پر دوسری چیز ازلام کا فرار ہے جو زلم کی جمع ہے اور اس کا معنی تقسیم اور جوئے کے تیر ہیں۔ ان کا ذکر اسی سورة کی ابتداء میں بھی ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں دیگر چیزوں کو حرار قرار دیا وہاں ان کے متعلق بھی فرمایا ان تستقسم موا بالا زلام ۔ کہ تم تیروں کے ذریعے کوئی چیز تقسیم کرو۔ تیروں کا استعمال دو طریقے سے ہوتا تھا۔ قسمت کا حال معلوم کرانے کے لئے کاہن لوگ یہی تیر استعمال کرتے تھے ، ان کے پاس بہت سے تیر ہوتے تھے جب کوئی غرض مند ، سفر ، تجارت یا شادی وغیرہ کے متعلق حال معلوم کرنا چاہتا تو وہ کاہن کے پاس جاتا جو تیر نکالتا۔ اس کام کے لئے عام طور پر تین تیر استعمال کئے جاتے تھے۔ ایک پر لفظ نعم لکھا ہوتا ، دوسرے پر لا اور تیسرا خالی ہوتا۔ حسب ضرورت ان میں سے کوئی ایک تیر نکالا جاتا۔ اگر نعم والا تیر نکلتا تو کاہن کہتا کہ جس کام کا ارادہ کیا ہے وہ کر ڈالو ، اس کا نتیجہ تمہارے حق میں نکلے گا۔ اگر لا والا تیر نکلنا تو اس شخص کو مسئولہ کام کرنے سے منع کردیا جاتا کہ اس کا نتیجہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہے اور اگر تیسرا خالی تیر نکل آتا تو پھر معاملہ ملتوی کردیتے اور پھر کسی آئندہ موقع پر دوبارہ تیر نکلواتے۔ تیروں کے استعمال کی ایک اور صورت یہ تھی کہ کل دس تیروں میں سے سات تیروں پر ایک سے لے کر سات تک نمبر لکھے ہوتے اور تین تیر خلای ہوتے۔ عام طور پر قحط کے زمانے میں ایسا ہوتا کہ کوئی دس آدمی مل کر اونٹ خریدتے ، پھر اس کو ذبح کر کے اس کے گوشت کے دس برابر حصے کرتے۔ اونٹ میں حصے دار ایک ایک کر کے تیر نکالتے جس کے نام پر جتنے نمبر کا تیر نکل آتا وہ گوشت کے اتنے حصے لے جاتا ، اس طرح محروم رہ جاتے۔ حصہ پانے والے گوشت خود بھی استعمال کرتے اور غربا میں بھی تقسمی کرتے۔ حصہ سے محروم رہنے والے ترغیب دیتے کہ چلو دوبارہ اونٹ خریدیں اور ذبح کریں ، پھر ایسا ہی کرتے۔ بعض کو حصہ مل جاتا اور بعض محروم رہ جاتے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے جوئے کے تیروں کو بھی حرام قرار دیدیا۔ شیطان اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں یعنی شراب ، جواء بت اور تقسیم کے تیروں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا رجس من عمل الشیطن۔ یہ گندہ اور شیطانی کام ہے فاجتنبوہ پس اس سے بچ جائو۔ لعلکم تفلحون تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں رجس اس گندی اور ناپاک چیز کو کہا جاتا ہے جس سے فطرت سلیمہ اور عقل سلیمہ نفرت کرے اس آیت میں جن چار چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب قابل نفرین امور ہیں اور شیطانی کام ہیں۔ بظاہر تو یہ سب کام انسان ہی انجام دیتے ہیں مگر ان میں موجود برائی کی وجہ سے مجازاً انہیں شیطانی کام کہا گیا ہے۔ شیطانی ہی کی وسوسہ اندازی کی وجہ سے ان قبیح امور کی طرف رغبت ہوتی ہے۔ اور پھر شیطان ایسے کاموں پر خوش بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا انہیں شیطانی افعال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بت پرستی تو ویسے ہی حرام ہے۔ یہ شرک اور کفر ہے۔ اسی طرح قسمت آزمائی کے تیر بھی شرک میں داخل ہیں ۔ نسائی شریف کی روایت میں آتا ہے مدمن الخمر کعابد وثن ہمیشہ شراب نوشی کرنے والا بت پرستی کرنے والے کے برابر ہے۔ اگر کوئی شخص شراب اور جوئے کو اچھا سمجھتا ہے اور ان کی حرمت کا قائل نہیں ہے تو اس میں اور بت پوجنے والے میں کوئی فرق نہیں ، دونوں کافر ہیں۔ ہاں اگر اس کو حرام سمجھتے ہوئے پیتا ہے تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ بہرحال ان چاروں چیزوں کو اکٹھا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ان سے اجتناب کرو۔ تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو ائے شراب کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ شراب کی حد چالیس 40 کوڑے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ اسی 80 کوڑوں کے قائل ہیں۔ خود حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں شرابیوں پر یہ حد جاری ہوتی رہی۔ عداوت اور نفرت فرمایا انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضآء فی الخمر والمیسر شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور نفرت ڈال دے جب انسان نشے میں ہوتا ہے تو گالی گلوچ بکتا ہے جس کی وج ہ سے دوسرے کے دل میں نفرت پیدا ہوجانا قدرتی امر ہے۔ جوئے میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہارنے والے کو دل میں جیتنے والے کے خلاف ، نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ کوشش کرتا ہے کہ کس طرح اس سے بازی جیت لے۔ اس طرح عداوت اور دشمنی کا یہ سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ پھر دنگا فساد ، لڑائی اور ایک دوسرے کی بےعزتی ہوتی ہے ، اسی لئے فرمایا کہ شراب اور جوئے کے ذریعے شیطان تمہارے درمیان عداوت اور نفرت پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کا دوسرا عمل یہ ہوتا ہے ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے۔ شراب پینے والا تو ویسے ہی نماز کے قریب نہیں جاسکتا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اور جواء بھی ایسی بری لت ہے کہ اس میں مگن ہو کر انسان فرئاض تک کو بھول جاتا ہے۔ کھیلنے والے کھیل میں مگن رہتے ہیں حتیٰ کہ اذان ہوجاتی ہے ، نماز کا وقت گزر جاتا ہے اور وہ اپنے کھیل میں مشغول رہتے ہیں نہ انہیں اللہ کے ذکر کی فکر رہتی ہے اور نہ نماز کا خیال رہتا ہے اور شیطان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ انسان کو اس کے فرائض سے روک دے فرمایا جب شراب نوشی اور جوئے کے شیطانی فعل ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا فھل انتم منتھون ۔ پس کیا تم باز آ جائو گے۔ شراب اور جوئے کے متعلق اللہ نے اپنا آخری حکم صادر فرما دیا ہے لہٰذا اب ان کو جاری رکھنے کا کوئی بہانہ باقی نہیں رہا۔ جو شخص اب بھی باز نہیں آئے گا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ احکام کی بجا آوری یہ احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا واطیعوا اللہ واطیعوا الرسول فرمانبرداری کرو اور اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی واحذرئوا اور ان کی نافرمانی سے بچتے رہے ۔ ان احکام کی تعمیل میں کتواہی نہ کرنا فان تولیتم پس اگر تم روگردانی کرو گے ، احکام خداوندی کے خلاف کرو گے فاعلموا تو اچھی طرح جان لو کہ انما علی رسولنا البلغ المبین ۔ بیشک ہمارے رسول کے ذمے تو کھول کر پہنچا دینا ہے ہمارا رسول ہمارے احکام تم تک پہنچا دے گا پھر ان کی تعمیل کے متعلق ہم خود مواخذہ کرلیں گے۔ شراب اور جوئے کی تحریم کے بعد بعض اذہان میں یہ خیال آیا کہ ہم نے تو اسے ترک کردیا مگر جو لوگ اس حکم سے پہلے شراب نوشی کرتے تھے اور اب فوت ہوچکے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ تو اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا ازالہ فرمایا ہے۔ اس سے پہلے سورة بقرہ میں تحویل قبلہ سے متعلق بھی اسی قسم کے شبہ کا ذکر ہوچکا ہے کہ جو لوگ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور انہیں زندگی میں بیت اللہ شریف کی طرف رخ کرنے کا موقع ہی نہ ملا ، کیا ان کی نمازیں قبول ہوں گی یا نہیں۔ وہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ماکان اللہ لیضیع ایمانکم اللہ تعالیٰ تمہاری نمازوں کو ضائع نہیں کرتا۔ پہلا قبلہ بھی اسی کے حکم سے تھا اور جب وہ تبدیل ہوا تو اسی کے حکم سے لہٰذا سابقہ اعمال ضائع نہیں ہوں گے۔ اسی طرح یہاں پر بھی فرمایا کہ جو لوگ حرمت شراب کے حکم سے پہلے پیتے رہے ہیں ، ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ لیس علی الذین امنوا وعملوا الصلحت جناح فیما طعموا ۔ جو لوگ اس سے پہلے ایمان لائے اور اچھے اعمال انجام دیئے انہیں ان کے کھانے یعنی اس حالت میں شراب نوشی پر کوئی گناہ نہیں ہے اذا ما اتقوا جب کہ وہ ڈرتے رہے اور کفر و شرک سے بچتے رہے۔ وامنو و عملوا اصلحت اور ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دیئے۔ پھر فرمایا ثم اتقوا و امنوا پھر وہ ڈرتے رہے اور ایمان پر قائم رہے ثم اتقوا واحسنوا پھر وہ ڈرتے رہے اور ان کے دل پر احکام خداوندی کی خلاف ورزی کا خوف طاری رہا اور انہوں نے نیکی کے کام انجام دیئے۔ یہاں پر اتقی کا لفظ تین دفعہ استعمال ہوا ہے۔ پہلے تقویٰ کا مقصد یہ ہے کہ انسان عتقاد میں پختہ ہے۔ دوسرے تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان محرمات کی پابندی اختایر کرے اور تیسرے تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان تقویٰ پر مستقیم رہے۔ یہاں پر آخر میں احسنوا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ ایمان اور اسلام کے بعد نیکی کا آخری درجہ ہے ۔ حدیث جبرئیل کے مطابق حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) نے احسان کا معنی یہ بتایا تھا۔ ان تعبد اللہ کانک تراہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس خلوص و انہماک کے ساتھ کرو گویا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو فان لم تکن تراہ فانہ یراک اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی کیفیت طاری نہ ہو سکے تو کم از کم یہ تو سمجھ لو کہ وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ گویا احسان سے مراد اعلیٰ درجے کی نیکی ہے جو پورے خلوص کے ساتھ انجام دی جائے ، تو اللہ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی اور پھر انہوں نے نیکی کے کام نہایت خلوص کے ساتھ انجام دیئے اگر انہوں نے تحریم سے پہلے کوئی ایسا کام کیا ہے ، تو ان پر کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ یحب المحسنین اور اللہ تعالیٰ کو نیکی کے کام کرنے الے لوگ بہت محبوب ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں اعلیٰ درجے کی نیکی کرنے والے پسندیدہ لوگ ہیں۔
Top