Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 24
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگو کہ”یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ 26 اِس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔ 27 اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا۔ 271 یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سُنی ہی نہیں (کہ بشر رسُول بن کر آئے)
سورة الْمُؤْمِنُوْن 26 یہ خیال تمام گمراہ لوگوں کی مشترک گمراہیوں میں سے ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہوسکتا اور نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے قرآن نے بار بار اس جاہلانہ تصور کا ذکر کر کے اس کی تردید کی ہے اور اس بات کو پورے زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء انسان تھے اور انسانوں کے لیے انسان ہی نبی ہونا چاہیے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہوں الاعراف، آیات 63۔ 69۔ یونس، آیت 2۔ ہود، 27۔ 31۔ یوسف 109۔ الرعد 38۔ ابراہیم 10۔ 11، النحل 43۔ بنی اسرائیل، 94۔ 95۔ الکہف 110۔ الانبیاء 3۔ 34۔ المومنون 33۔ 34۔ 47۔ الفرقان 7۔ 20۔ الشعراء 154۔ 186۔ یٰسین 15۔ حٰم السجدہ، 6۔ مع حواشی)۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 27 یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اٹھے اس پر فوراً یہ الزام چسپاں کردیتے ہیں کہ کچھ نہیں، بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہ الزام فرعون نے حضرت موسیٰ اور ہارون پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہوجائے، تکون لکما الکبریاء فی الارض (یونس آیت 78)۔ یہی حضرت عیسیٰ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی ﷺ کے متعلق سرداران قریش کو تھا، چناچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو " اپوزیشن " چھوڑ کر " حزب اقتدار " میں شامل ہوجاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ تصور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بےغرضی کے ساتھ فلاح انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں، اس لیے مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جاسکتا یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ انکا اپنا ہم جنس ہی ہوگا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف " اقتدار کی بھوک " کا یہ الزام ہمیشہ بر سر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایان نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے، اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں، البتہ نہایت قابل ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ " غذا " پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی " بھوک " محسوس کر رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ 36)۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظام زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھے گا اور اس کے مقابلے میں اصلاحی نظریہ و نظام پیش کرے گا، اس کے لیے بہرحال یہ بات ناگزیر ہوگی کہ اصلاح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سدراہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور ان طاقتوں کو برسر اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملاً نافذ کرسکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہوگی، اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیروؤں کے ہاتھ ان پر قابض ہوں گے۔ آخر انبیاء اور مصلحین عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا، اور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنادیا ؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کردینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کرلی ؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنان حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ دونوں بلارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت دونوں کے طریق کار اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحب عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 27 (الف) یہ اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قوم نوح اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہ تھی اور نہ اس بات کی منکر تھی کہ رب العالمین وہی ہے اور سارے فرشتے اس کے تابع فرمان ہیں۔ اس قوم کی اصل گمراہی شرک تھی نہ کہ انکار خدا، وہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اور اس کے حقوق میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتی تھی۔
Top