Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 52
وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰى عِلْمٍ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ جِئْنٰهُمْ : البتہ ہم لائے ان کے پاس بِكِتٰبٍ : ایک کتاب فَصَّلْنٰهُ : ہم نے اسے تفصیل سے بیان کیا عَلٰي : پر عِلْمٍ : علم هُدًى : ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لائے ہیں
اور البتہ ہم لائے ہیں ان کے پاس ایک کتاب جس کو ہم نے تفصیل سے بیان کیا ہے علم کے ساتھ۔ وہ ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں
ربط آیات اصحاب اعراف کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہنم والوں کا ذکر کیا کہ وہ جنتیوں کو دیکھ کر ان سے الجا کریں گے کہ تھوڑا سا پانی ہم پر بھی بہادو یا جو کچھ اللہ نے تمہیں روزی عطا کی ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو کیونکہ ہم بہت پریشان حال اور تکلیف میں ہیں مگر اہل ایمان جواب دیں گے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ نے اہل دوزخ پر حرام کردی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے دین کو لہو و لعب نایا اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالا پس آج کے دن اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے دور رکھیں گے اور ان سے وہی سلوک کریں گے جو فراموش شدہ آدمیوں سے کیا جاتا ہے انہوں نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا اس پر ایمان نہ لائے آیات الٰہی کا انکار کردیا لہٰذا آج ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک ہوگا۔ مفصل کتاب پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کے لیے فرمایا ولقد جئنھم تکب البتہ تحقیق ہم لائے ہیں ان کے پاس کتاب فصلنہ ہم نے اس میں تفصیل بیان کی ہے یعنی ایسی مفصل کتاب ہے جس میں عقائد حقہ کی تفصیل اور انکار باطلہ کی تردید ہے اس میں احکام الٰہی کے وہ تمام بنیادی اصول بیان کردیے گئے ہیں جن کی انسانوں کو ضرورت رہتی ہے اور تفصیل کی صورت یہ ہے کہ بعض اوقات اسی کتاب میں کوئی چیز ایک مقام پر اجمالی طور پر بیان ہوتی ہے تو دوسری جگہ پر تفصیل کے ساتھ بیان کردی جاتی ہے چناچہ قرآن پاک کی لمبی سورتوں میں تفصیلی اکامات ہیں ان میں مسائل بھی بیان ہوئے ہیں اور دلائل بھی ان میں نظیریں اور مثالیں بھی بیان ہوئی ہیں لمبی سورتوں کے بعد درمیانی سورتیں اور پھر چھوٹی سورتیں ہیں لمبی سورتوں میں تفصیل ہے تو چوٹی سورتوں میں خلاصے بیان ہوئے ہیں گویا اکثر احکام کی تفصیل خود قرآن میں موجود ہے۔ تفصیل کا دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم (علیہ السلام) کے ذمہ یہ چیز لگائی ہے ” لنبین للناس مانزل الیھم “ (النحل) کہ جو وحی نازل کی گئی ہے آپ اس کو کھول کر بیان کردیں تاکہ کسی کو اشتباہ نہ رہے اس کی خوب وضاحت کردیں اگر نبی کی زبان سے بھی وضاحت نہ ملے تو پھر قرآن پاک میں غور کرو اس میں کوئی نہ کوئی اصول ضرور دیا گیا ہوگا جس کی روشنی میں مسئلہ حل کیا جاسکتا ہو مثلاً سورة بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے ھوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً زمین کی تمام چیزیں اللہ نے تمہارے فائدے کے لیے پیدا کی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر پیداوار سے استفادہ حاصل کرسکتا ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کی حرمت ثابت ہوجائے یا وہ کسی دوسرے کی ملکیت ہو یہ ایک اصول ہے جس کے تحت کسی چیز پر حلت و حرمت کا حکم لگایا جاسکتا ہ کے ایسے ہی اصولوں کی روشنی میں مجتہدین بعض مسائل کا حل اجتہاد کے ذریعے پیش کرتے ہیں سورة نساء میں بھی ایسے صاحبان علم کے متعلق فرمایا یستنبطونہ منھم یہ لوگ قرآن پاک سے استنباط کرکے حل پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی صلاحیت عطا کی ہے کہ گہرائی سے چیزیں نکال لیتے ہیں ان میں مجتہدین اربعہ اور دیگر متجہدین شامل ہیں گویا قرآن پاک کے احکام کی تفصیل کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ مجتہدین کرام اس کی تفصیلات بیان کرتے ہیں۔ قرآن کے علوم پنجگانہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) ابتدائی طالب علموں کو سمجھاتے ہیں کہ قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے اس کے پانچ علوم کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے فرماتے ہیں پہلا علم تذکیربآلاء اللہ ہے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے جو نعمتیں پیدا فرمائی ہیں اور جو احسان جتلایا ہے یہ انسان کے لیے باعث نصیحت ہے انسان ان نعمتوں میں غور و فکر کرکے اور ان سے استفادہ حاصل کرکے نصیحت پکڑ سکتا ہے قرآن پاک کا دوسرا علم تذکیر بایام اللہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سابقہ قوموں کے حالات اور واقعات بیان کیے ہیں اور پھر مجرمین کو سزائیں دی گئی ہیں مطیعین کو جو انعام دیے گئے ہیں ان کا تذکرہ کیا ہے یہ واقعات بھی انسان کے لیے باعث عبرت اور ب اعث نصیحت ہیں شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کا تیسرا علم تذکیر بموت ومابعدالموت ہے اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد پیش آنے والے حالات کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ان کو جان کر انسان اپنی آخرت کی زندگی کی فکر کرتا ہے چوتھے نمبر پر علم احکام ہے اس حصہ میں اللہ نے حلت و حرمت ، جائزہ ناجائز اور تمام ادامرد نواہی کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں جو کہ اس دنیا کی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہیں اور انہی علوم پر آخرت کی زندگی کا انحصار ہے اور پانچویں نمبر پر علم مخاصمت یا علم مباحثہ ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمام سابقہ ادیان کی تردید فرمائی ہے اس حصہ قرآن میں دلائل اور شواہد ہیں یہود و نصاریٰ کے عقائد باطلہ ، مشرکین کفار اور منافقین کے غلط عقائد کو آشکارا کیا ہے ان کے تعصب اور ہٹ دھرمی کا پردہ چاک ہے مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس مفصل کتاب قرآن پاک میں تمام علوم کو جمع کرکے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے حجت تمام کردی ہے اس مفصل کتاب کی آمد کے بعد کسی انسان کے لیے کوئی بہانہ باقی نہیں رہ جاتا جس کے ذریعے وہ اللہ کی بارگاہ میں عذر پیش کرسکے کہ اسے احکام الٰہی کی خبر نہیں ہوسکی یا وہ اسے سمجھنے سے قاصر رہا ہے اسی لیے فرمایا کہ ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے ہیں جس کو ہم نے تفصیل سے بیان کیا ہے علی علم یعنی علم کے ساتھ قرآن پاک کی تمام تفصیلات علم پر مبنی ہیں اور کوئی چیز خلاف واقع نہیں ہے اللہ تعالیٰ علیم کل ہے اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں لہٰذا اس کے بیان کرنے میں کوئی غلطی بھی نہیں ہوسکتی۔ حلت و حرمت کا بیان مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حلال ، عرام محکم ، متشابہ ، تبشیر ، تنذیر ، قصص ، غزوات اور تمثیل وغیرہ تمام چیزیں قرآن پاک میں موجود ہیں جو چیزیں انسانی جسم و روح کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں انہیں حلال قرار دیا گیا ہے اور جن چیزوں میں انسانی جسم و روح کے لیے قباحت ہے ان کو حرام قرار دیا ہے بعض چیزوں کو خرابی تو واضح ہوتی ہے مگر بعض کی قباحت پوشیدہ ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور اس پر حرمت کا حکم لگاتا ہے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نھی دواء الخبیث یعنی خبیث دوائی کے استعمال سے منع فرمایا ہے خبیث کے لیے ناپاک ہونا ضروری نہیں مگر یہ مہلک ضرور ہوتی ہے جیسے سنکھیا ہے اگر کچا سنکھیا تھوڑی مقدار میں بھی استعمال کیا جائے تو جان لیوا ثابت ہوتا ہے اس لیے اس سے منع کردیا گیا البتہ اگر کسی مستند معالج کی زیر نگرانی ٹھیک اور مبدر کرلیا جائے یعنی اس کا کشتہ تیار کرلیا جائے تو معالج کی تجویز کردہ مقدار دوائی کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے اگر اس کا کچا استعمال کیا جائے گا یا مقدار سے زیادہ استعمال کیا جائے تو یہ معدے اور جگر کو پھاڑ کر رکھ دیگا جس سے انسانی جسم کے نازک حصوں سے خون جاری ہو کر آدمی کو ہلاک کردے گا اس طرح نذر یغر اللہ انسان کی روح میں نجاست پیدا کرتی ہے اللہ نے اس کو بھی حرام قرار دیا بہتا ہوا خون بھی حرام ہے اس میں مضر صحت جراثیم پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مردار بھی انسانی صحت کے لیے سخت مضر اور حرام ہے۔ مشتبہات کا بیان قرآن پاک میں محکم اور متشابہ دونوں اقسام کی آیات موجود ہیں سورة آل عمران کی ابتداء میں آتا ہے وہی اللہ کی ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے منہ ایت محکمت اس میں محکم آیات ہیں ” واخر متشبھت “ اور بعض دوسری متشابہ ہیں محکم آیتوں کے معانی تو واضح ہیں البتہ متشابہ آیات کی حقیقت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے جیسے حروف مقطعات الم ، الر ، حم وغیرہ ہیں یا جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق آتا ہے ” الرحمن علی العرش استویٰ “ (طہٰ ) اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اس کیفیت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جو کہ انسانی عقل میں آنے والی چیز نہیں ہے سورة فتح میں ” یداللہ فوق ایدھم “ اللہ کا ہاتھ کیسا ہے دوسری جگہ پنڈلی کا ذکر بھی آتا ہے ان چیزوں کی کیفیت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یہ متشابہات ہیں اور ان پر ایمان سے آنا ہی کافی ہے اگر اس میں کرید کی اجئے کہک اللہ کا ہاتھ یا چہرہ کیسا ہے اسے جاننے کی کوشش کی جائے گی تو انسان کافر ہوجائے گا ایمان یہی ہونا چاہیے کہ یہ چیزیں ویسے ہی ہیں جیسی اس کی شان کے لائق ہیں قرآن پاک میں کہیں اہل ایمان کے لیے بشارت ہے اور کہیں منکرین کے لیے انذار ہے کہیں قصص بیان کرکے فرمایا ” ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الابصار “ (آل عمران) ان میں اہل عقل و خرد کے لیے عبرت کا سامان ہے کہیں وعظ و تذکیر ہے کبھی انبیاء کی زبان سے اور کبھی اولیاء کی زبان سے کبھی مومنین اور کبھی ملائکہ کی زبان سے عبرت اور نصیحت کی باتیں بیان کی گئی ہیں قرآن پاک میں بہت سی تمثیلات بھی بیان کی گئی ہیں شیخ ابوبکر بن عربی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک ایک لمبی سورة میں اللہ تعالیٰ نے ہزار مثالیں ہزار اوامر اور ہزار نواہی بیان فرماتے ہیں بعض اوقات بعض امور مثال کے بغیر واضح نہیں ہوتے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں بیشمار مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ ہدایت اور رحمت فرمایا جو مفصل کتاب ہم علم کے ساتھ ئاے ہیں اس میں ھدی ہدایت ہے یعنی یہ انسان کی کما حقہ رہنمائی کرتی ہے کوئی بھی مشکل درپیش ہو اگر انسان قرآن پاک کی طرف رجوع کرے گا تو لازماً رہنمائی حاصل کرے گا پھر یہ بھی ہے کہ جتنا زیادہ رجوع کرے گا اتنا زیادہ مستفید ہوگا مفسر قرآن امام رازی (رح) نے امام شافعی (رح) کا واقعہ نقل کیا ہے کہ امام صاحب (رح) کو ایک مسئلہ کا حل مطلوب تھا آپ بار بار قرآن کی ورق گردانی کرتے تھے حتیٰ کہ آپ نے تین سو مرتبہ قرآن پاک کو اول تا آخر تلاوت کیا پھر ایک مقام پر آکر نگاہ ٹک گئی اور آپ کا مسئلہ حل ہوگیا امام شافعی (رح) دوسری صدی کے مجتہد امام ، محدث ، نیک اور صالح انسان تھے آپ نے ایک مسئلہ کے لیے اتنی محنت کی ، حضرت مولان انور شاہ صاحب کشمیری (رح) فرماتے ہیں کہ امام شافعی (رح) من اذکیاء امۃ محمد ﷺ حضور ﷺ کی امت کے ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں امام صاحب (رح) کا اپنا بیان ہے کہ زمانہ طالب علمی میں متواتر سولہ سال تک انہوں نے رات بھر ایک گلاس پانی بھی نہ پیا کہ کہیں مطالعہ میں خلل نہ آجائے اس زمانے میں ہماری محنتیں ان لوگوں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہیں آج ت مسٹر پرویز جیسے انگریزی دان تھوڑی بہت عربی پڑھ کر مجتہدین بن جاتے ہیں اور پھر قرآنی آیات کا نعوذباللہ جھٹکا کرنے لگتے ہیں امام ابوحنیفہ (رح) کا حال امام شافعی (رح) سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے امام مالک (رح) امام احمد (رح) جیسے لوگوں کو اللہ نے کیسی صلاحیتیں بخشی تھیں آج لوگ ان کا اتباع کرتے ہیں اور ان کے فتویٰ پر چلتے ہیں ان حضرات کے امت پر بہت احسانات ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے انہوں نے قرآن و سنت کی بہت اچھے طریقے سے وضاحت فرمائی ہے مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک مجسم ہدایت ہے جب بھی کوئی اس سے استفادہ حاصل کرنا چاہے گا اس کو مفید پائے گا۔ فرمایا یہ قرآن پاک ہدایت بھی ہے ورحمۃ اور رحمت بھی جو شخص قرآنی اصولوں پر عمل پیرا ہوگا تو اللہ کی رحمت اور مہربانی اس کی طرف متوجہ ہوگی یہ رحمت دنیا میں بھی حاصل ہوگی اور آخرت میں بھی مگر یہ ان لوگوں کے لیے ہے لقوم یومنون جو اس پر ایمان لاتے ہیں ایمان کے بغیر قرآن کریم سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولا یزید الظلمین الا خساراً (بنی اسرائیل) ظالموں کیلئے قرآن کریم ان کے خسارے میں اضافہ کرتا ہے اسی سورة میں یہ بھی ہے وما یزیدھم الا نفوراً یہ کتاب ایمان سے محروم لوگوں کے لیے مزید نفرت کا باعث بنتی ہے اسی طرح عنادیوں کے لیے مزید وبال ہے اور بعض کے اندھے پن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے مقصد یہ کہ یہ کتاب الٰہی اہل ایمان کے لیے منبع ہدایت اور رحمت ہے۔ مصداق کا انتظار فرمایا جو لوگ اس کتاب پر ایمان نہیں لاتے وہ کس چیز کے منتظر ہیں ھل ینظرون الا تاویلہ یہ منکرین اس کتاب کے اظہار مصداق کا انتظار کر رہے ہیں ؟ مگر انہیں خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جس دن اس کتاب کی حقیقت تاویل اور مصداق ظاہر ہوگا اس دن افسوس کرنا کچھ کام نہ آئے گا اس کا مصداق تو یہ ہے کہ قیامت واقع ہوجائے اور مکذبین پر عذاب ٹوٹ پڑے تو کیا یہ لوگ قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ برپا ہوگی تو قرآن پر ایمان لائیں گے ؟ مگر یاد رکھو ! یوم یاتی تاویلہ جس دن اس کا مصداق ظاہر ہوجائے گا یقول الذین نسوہ من قبل تو جو لوگ اس سے پہلے اسے فراموش کرچکے ہوں گے وہ اس وقت کہیں گے قد جاء ت رسل ربنا بالحق ، تحقیق ہمارے رب کے رسول سچی بات لائے تھے اس وقت رسولوں اور کتابوں کا اقرار کریں گے مگر وہ اقرار مفید نہیں ہوگا پھر مایوس ہو کر شفاعت کے طالب ہوں گے اور کہیں گے فھل لنامن شفعاء فیستفعولنا کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے جو ہماری سفارش کرے تاکہ ہم کسی طرح بچ جائیں جب کوئی سفارش بھی میسر نہ ہوگی تو تمنا کریں گے اونرد یا ہمیں دنیا میں واپس پلٹا دیا جائے فنعمل غیرالذی کنا نعمل تو وہ کام نہیں کریں گے جو پہلے کیا کرتے تھے یعنی اگ مہلت دیدی جائے تو اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لے آئیں گے نیکی کے کام کریں گے اور کفر اور شرک سے بیزار ہوں غیر اللہ کی پرستش نہیں کریں گے اہل ایمان سے تمسخر نہیں کریں گے مگر قرآن پاک نے صاف انکار کردیا کہ نہ تو انہیں دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے گا اور نہ ان کو کوئی سفارش مفید ہوگی انبیاء ، ملائکہ ، شہدا ، مومنین کوئی مشرک کے حق میں سفارش نہیں کریے گا اور نہ وہ قبول ہوگی سورة بقرہ میں ہے ” ولا تفعھا شفاعۃ “ کسی کی سفارش مفید نہیں ہوگی دوبارہ دنیا میں آنے کی قرآن نے بار بار نفی کی ہے سورة یٰسین میں ہے ” الم یرواکم اھلکنا قبلھم من القرون انھم الیھم لایرجعون “ کتنے لوگوں کو ہم نے ہلاک کردیا مگر ان میں سے کوئی بھی پلٹ کر نہیں آئے گا دنیا کی زندگی ایک دفعہ ہی ملتی ہے اور آزمائش بھی ایک ہی مرتبہ ہوتی ہے انسان پاس ہوگیا یا فل ، دوبارہ موقع ملنے کا کوئی قانون نہیں ہے بہرحال فرمایا کہ جب تمام پردے اٹھ جائیں گے تو پھر منکرین سفارش تلاش کریں گے یا دنیا میں واپس جانے کی خواہش کا اظہار کریں گے مگر ان کی کوئی تمنا پوری نہ ہوسکے گی اور وہ عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ خسارے کا سودا ایسے بےنصیب لوگوں کے متعلق فرمایا قد خسرو انفسھم بیشک انہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا اللہ تعالیٰ نے جسم ، جان ، روح ، عقل ، شعور ، قویٰ عطا کیے تھے رہنمائی کے لیے انبیاء اور کتابیں بھیجی تھیں اور اس کے بعد فرمایا تھا ” فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفی (الکہف) اپنے ارادے سے جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے یہ اس کی اپنی مرضی ہے کہ وہ کس قسم کا سودا کرنا چاہتا ہے ایسے لوگوں کے متعلق جنہوں نے ایمان قبول نہ کیا سورة بقرہ میں موجود ہے ” فما ربحت تجارتھم “ ان کی تجارت نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا اور زندگی کی قیمتی متاع کو خسارے کے سودے میں ضائع کردیا حضور ﷺ نے اس تجارت کی وضاحت یوں فرمائی ہے صحیحین کی حدیث میں آتا ہے کل الناس یغدوا قائع نفسہ فمویقھا اور معتقھا ہر شخص ہر روز اپنے نفس کو بیچتا ہے پھر یا تو اسے جہنم کی آگ سے آزاد کرا لیتا ہے نیکی کے کام کرتا ہے ، ایمان لاتا ہے اور یا پھر کفر اور شرک میں مبتلا ہو کر اپنے نفس کو ہلاک کردیتا ہے یہ ایسی تجارت ہے جو ہر انسان ہر روز کرتا ہے اور پھر جیسی تجارت کرتا ہے اس کے مطابق نفع یا نقصان کا حقدار بنتا ہے سعدی صاح ب (رح) نے بھی کہا ہے کہ انسان کی زندگی برف کی ڈلی کی مانند ہے ؎ عمر برف است و آفتاب تموز اند کے ماند و خواجہ غرہ ہنوز جو کہ مسلسل پگھل رہی ہے مگر صاحب کو پتہ ہی نہیں چل رہا ہے جب برف کی ڈلی دھوپ میں پڑی ہو تو وہ کتنی دیر تک قائم رہ سکے گی انسان کی زندگی کا بھی یہی حال ہے مگر وہ دھوکے میں پڑا ہوا ہے اگر اس نے متاع زندگی سے کوئی اچھی تجارت کرلی کوئی نیکی کمالی ، ایمان کی دولت حاصل کرلی تو خسارے سے بچ جائے گا ورنہ مارا جائے گا سورة عصر میں واضح طور پر موجود ہے ان الانسان لفی خسر انسان سراسر گھاٹے میں ہے ماسوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، اعمال صالحہ انجام دیے حق کی وصیت کی اور صبر کی وصیت کی ان چار گروہوں کے علاوہ باقی سب نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا وضل عنھم مکانو یفترون اور گم ہوگئیں ان سے و باتیں جو وہ افتراء کیا کرتے تھے بڑی ڈھینگیں مارتے تھے ، غرور وتکبر کرتے تھے سب ختم ہوجائیں گے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی اور انہیں اپنے کئے کی سزا مل کر رہے گی۔
Top