Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 75
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اسْتَكْبَرُوْا : تکبر کیا (متکبر) مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں سے اسْتُضْعِفُوْا : ضعیف (کمزور) بنائے گئے لِمَنْ : ان سے جو اٰمَنَ : ایمان لائے مِنْهُمْ : ان سے اَتَعْلَمُوْنَ : کیا تم جانتے ہو اَنَّ : کہ صٰلِحًا : صالح مُّرْسَلٌ : بھیجا ہوا مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اپنا رب قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم بِمَآ : اس پر جو اُرْسِلَ بِهٖ : اس کے ساتھ بھیجا گیا مُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
کہا ان سرداروں نے جنہوں نے تکبر کیا صالح (علیہ السلام) کی قوم میں سے ان لوگوں سے جو کمزور خیال کئے جاتے تھے اور جو ان میں سے ایمان لائے تھے کیا تم جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) خدا کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم تو اس چیز پر ایمان رکھنے والے ہیں جس کے ساتھ اس (صالح علیہ السلام) کو بھیجا گیا ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں حضرت صالح (علیہ السلام) کا ابتدائی ذکر ہوا اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کی طرف ان کے خاندان کے فرد کو نبوت و رسالت دے کر مبعوث فرمایا اور انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تمام انبیاء کے دستور کے مطابق صالح (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے قوم کو توحید کا درس دیا اور کفر و شرک سے منع کیا پھر لوگوں کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) کو اونٹنی بطور نشانی اور معجزہ عطا کی آپ نے فرمایا اللہ کی اونٹنی ہے اس کو برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا یہ اللہ کی زمین میں چرتی رہے گی مگر تم کو پریشان نہیں کرے گی لہٰذا تم بھی اس سے تعرض نہ کرنا ورنہ خدا تعالیٰ کے غضب کا شکار بن جائو گے پھر اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کو احسانات یاد دلانے اور فرمایا کہ دیکھو قوم ہود کی تباہی کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں عروج عطا کیا تمہیں دولت صنعت و حرفت اور سلطنت عطا کی تم بیابانوں میں پہاڑوں کو تراش تراش کر علیشان مکان بناتے ہو اور ان کو نقش و نگار سے مزین کرتے ہو یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ان امور کا سلیقہ بتایا اب اس کی نعمتوں کی ناقدری نہ کرنا اور زمین میں شرو فساد کا بازار گرم نہ کرنا۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی عبادت کی دعوت دیں کفر اور شرک سے منع کریں اور ان کے عقیدے اور عمل کی اصلاح کریں بعض اوقات لوگ رسومات باطلہ میں مبتلا ہوتے ہیں تو بنی کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ قوم کو ایسی قبیح رسومات سے نجات دلائے شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انبیاء کی بعثت کا ایک اہ مقصد رفع التظالم من بین الناس ہوتا ہے یعنی وہ لوگوں کے درمیان ظلم و زیادتی کو ختم کرتے ہیں فان تظالمھم یضیق علیھم کیونکہ اگر وہ ایک دوسرے پر ظلم کریں تو ان پر تنگی واقع ہوجاتی ہے تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی اپنی بعثت کا پورا پورا حق ادا کیا اور لوگوں کو ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ متکبرین اور مستضعفین میں مکالمہ صالح (علیہ السلام) کی تقریر کے جواب میں قال الملا الذین استکبر من قومہ آپ کی قوم کے سربرآوردہ لوگ جنہوں نے تکبر کیا وہ کہنے لگے للذین استضعفو ان لوگوں سے جو کمزور خیال کیے جاتے تھے یعنی جو لوگ مال و دولت اور جاہ و اقتدار کی وجہ سے مغرور ہوچکے تھے انہوں نے غریب اور کمزور لمن امن منھم مگر اہل ایمان لوگوں سے یوں خطاب کیا اتعلمون ان صلحاً مرسل من ربہ کیا تم جانتے ہو کہ حضرت صالح (علیہ السلام) واقعی اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں قالو تو ایمان والوں نے کہا انا بما ارسل بہ مومنون بیشک ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو صالح (علیہ السلام) کو دے کر بھیجا گیا ہے ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ فلاح اور کامیابی صالح (علیہ السلام) کے پروگرام میں ہی ہے اور وہ پروگرام یہی ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ ہر نبی کے دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ اولین ایماندار غریب لوگ ہی ہوتے ہیں امیر لوگ اگر ایمان لائیں بھی تو بڑی دیر کے بعد ابتداء میں ظلم و ستم کانشانہ ہمیشہ غریب لوگ ہی بنتے رہے ہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد بھی ہے بدا الا سلام غریبا و سعود کما بدافطوبی الغرباء یعنی اسلام کی ابتداء ہمیشہ غریب لوگوں سے ہوئی اور آخر میں بھی یہ غربا تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا لہٰٰذا غرباء کے لیے خوشخبری ہے چناچہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے کمزور مگر اہل ایمان لوگوں سے ان کے ایمان کا امتحان لینا چاہا تو وہ کامیاب نکلے مگر سرداران قوم اپنی ضد پر اڑے رہے اور کہنے لگے قال الذین استکبرو وانا بالذی امنتم بہ کفرون قوم کے متکبرین نے کہا کہ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔ کفر کا معنی انکار کرنا ہے مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرنے سے کفر لازم آتا ہے اگر کوئی شخص دن کے کسی جزو توحید ، رسالت ، قیامت ، ملائکہ یا کتب سماویہ وغشرہ کا انکار کردے تو وہ کافر ہوجائے گا کفر کا معنی حق بات کو چھپا دینا بھی ہوتا ہے کسان کو بھی عربی زبان میں کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے کو زمین میں چھپا دیتا ہے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ ان الذین ستروا الحق عناداً جو عناد کی وجہ سے حق کو چھپا دیتے ہیں وہ کافر ہیں اور شرک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کا مانتے ہوئے اس کی صفات مختصہ میں کسی مخلوق کو شریک کرلے وہ بھی کافروں کی طرح ناپاک ہوجاتا ہے منافق کی تعریف یہ ہے کہ وہ زبان سے اقرار کرتا ہے مگر دل سے انکار کرتا ہے الور لمحد وہ شخص ہوتا ہے جو دین میں کج روی اختیار کرتا ہے خدا کی صفات کے ایسے معانی بیان کرتا ہے جو نہ اللہ کی مراد ہوتے ہیں نہ اس کے رسول کی اور نہ باقی اہل ایمان ایسا سمجھتے ہیں۔ اونٹنی کا قتل اب قوم نے اللہ کی نشانی اونٹنی کو قتل کرنے کی سازش کی سورة نمل میں موجود ہے وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط یفسدون فی الارض والا یصلحون شہر میں غنڈہ قسم کے نو آدمی رہتے تھے ان کا کا ہی فتنہ فساد برپا کرنا تھا ان میں ایک سرکردہ آدمی قداربن سالف تھا حضور ﷺ نے اس کی مثال مکہ کے ابورمعہ سے دی جو کہ بڑا شرپسند آدمی تھا تو قدار اونچے خاندان کافرد تھا پورا خاندان اور قبیلہ اس کی پشت پر تھا مالدار ہونے کے باوجود ناجائز طریقے سے مال پر قبضہ کرلینا اس کا معمول تھا شہر میں عنیزہ نامی ایک حسین و جمیل عورت رہتی تھی جس کی جوان اور خوبصورت لڑکیاں تھی عورت کے پاس بہت سی بھیڑ بکریاں تھیں جسے اللہ کی اونٹنی کی وجہ سے اپنے جانوروں کو پانی پلانے میں دقت پیش آتی تھی ادھر قدرا اس عورت اور اس کے مال پر قبضہ کرنا چاہتا تھا چناچہ ان دونوں میں یہ طے ہوا کہ اگر قدار اونٹنی کو قتل کر ڈالے تو عورت اپنی جس لڑکی سے چاہے اس کا نکاح کردے گی قدار نے اس کا ذکر اپنے ساتھیوں سے کیا اور وہ پروگرام کے مطابق اونٹنی کی گزرگاہ میں چھپ کر بیٹھ گئے پھر جب اونٹنی اس درے سے گزری تو قدار نے آگے بڑھ کر اس پر تلوار سے حملہ کیا اور اس کے پائوں کاٹ ڈالے جب وہ اونٹنی گر پڑی تو اس کے باقی ساتھی بھی آگئے اور انہوں نے اونٹنی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ یہاں پر اسی بات کو ذکر کیا گیا ہے فعقر وا الناقۃ ان لوگوں نے اونٹنی کے پائوں کاٹ ڈالے وعتواعن امر ربھم اور انہوں نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اللہ نے تو فرمایا تھا یہ نشانی ہے اس کو بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا مگر انہوں نے اللہ کے حکم کی کچھ پروا نہ کی اور اونٹنی کو قتل کردیا بلکہ صالح (علیہ السلام) کو بھی ڈرانا دھمکانا شروع کردیا چونکہ آپ کے ساتھ کافی لوگ تھے اس لیے وہ کھلم کھلا آپ کو ایذا نہ پہنچا سکے ایک موقع پر آپ مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ منکرین نے حملہ کردیا مگر آپ بچ گئے۔ عذاب الٰہی کا نزول جب صالح (علیہ السلام) نے قوم کو اونٹنی کے قتل پر سخت سرزنش کی اور عذاب الٰہی کی پیش گوئی کی تو کہنے لگے وقالو یصلح ائتنا بما تعدنا ان کنت من المرسلین اگر تو واقعی رسولوں میں سے ہے تو وہ چیز لے آ جس سے تو ہمیں ڈراتا ہے اتنے بےباک ہوچکے تھے کہ خود عذاب کا مطالبہ کرنے لگے سورة ہود میں موجود ہے صالح (علیہ السلام) نے کہا تمتعوا فی دارکم ثلثۃ ایام ذلک وعد غیر مذوب تین دن تک فائدہ اٹھا لو پھر یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہوگا اور تم پر عذاب نازل ہوجائے گا فرمایا پہلے دن تمہارے چہروں پر زردی چھا جائے گی دوسرے دن سرخ ہوجائیں گے اور تیسرے دن سیاہ پھر چوتھے دن تم خدا کی گرفت میں آجائو گے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا یہ جمعرات کا دن تھا پھر جمعہ اور ہفتہ بھی گزر گئے اور اتوار کے روز علی الصبح ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا جو دو قسم کا تھا فرمایا فاخذ تھم الرجفۃ ایک تو انہیں زلزلے نے آپکڑا فرشتے نے ایسی خوفناک چیخ ماری کہ لوگوں کے دل اور جگر پھٹ گئے اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچا سوائے ان لوگوں کے جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لاچکے تھے فرمایا فاصبحو فی دارھم جثمین پس وہ ہوگئے اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل گرے پڑے جب زبردست زلزلہ آیا تو زمین پر گر پڑے دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ رہی اور ساتھ ہی خوفناک چیخ سنائی دی اور وہ وہیں ہلاک ہوگئے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام طائف کے سفر پر گئے تو راستے میں ایک قبر پر سے گزرے جس پر آتے جاتے لوگ پتھر مارتے تھے آپ نے صحابہ ؓ سے دریافت کیا کہ کیا تمہیں معلوم ہے ایسا کیوں ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا یہ قوم ثمود کے ایک آدمی ابو رغال کی قبر ہے جب اس قوم پر عذاب آیا تو یہ شخص حرم مکہ میں تھا جس کی وجہ سے عذاب سے تو بچ گیا مگر جب وہ طائف جانے کے لیے حرم سے باہر نکلا تو اس مقام پر اس شخص کو ویسی ہی چیخ سنائی دی جیسی اس کی قوم پر آئی تھی اور یہ یہیں ہلاک ہوگیا آپ نے فرمایا کہ اس کی ایک خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی لاش کے ساتھ اس کی سونے کی چھڑی بھی دفن کردی گئی تھی چناچہ صحابہ ؓ نے وہاں پر کھدائی کی تو لاش تو گل سڑ کر ختم ہوچکی تھی البتہ سونے کی چھڑی مل گئی بہرحال اس عذاب میں پوری قوم ثمود نیست و نابود ہوگئی اور صرف وہی لوگ بچے جو صالح (علیہ السلام) کے متبعین میں شامل ہوچکے تھے۔ قتل ناقہ اور شہادت علی ؓ شاہ عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ پہلی امتوں میں قدار ابن سالف بڑا بدبخت آدمی تھا جس نے اللہ کی نشانی اور معجزے اونٹنی کو تلوار سے قتل کیا اور اس امت میں بڑا بدبخت وہ شخص ہوگا جو تیرے سر پر تلوار چلا کر تیری داڑھی کو رنگین کرے گا چناچہ ایسا ہی ہوا حضرت علی ؓ صبح کی نماز کے لیے کوفے کی جامع مسجد کی طرف نکلے ۔ مسجد کے دروازے کے قریب عبدالرحمن بن ملجحم خارجی چھپا ہوا تھا اس نے تلوار سے حضرت علی ؓ کے سر پر وار کیا جس سے سر سے خون نکلا اور داڑھی مبارک رنگین ہوگئی اونٹنی کے قتل اور حضرت علی ؓ کی شہادت میں اس لحاظ سے بھی مماثلت پائی جاتی ہے کہ اونٹنی کے قتل کی وجہ بھی عنیزہ نامی عورت تھی اور حضرت علی ؓ پر وار کرنے کے لیے بھی قطامہ نامی عورت نے عبدالرحمن کو ابھارا تھا شاہ عبدالعزیز صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ انسانی جذبات میں سے سب سے خسیس جذبہ شہوت کا ہوتا ہے یہ دونوں واقعات اسی جذبہ کی تسکین کی خاطر رونما ہوئے۔ حضرت علی ؓ کے قتل کو خوارج بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں چناچہ عمران بن قطان خارجی شاعر کہتا ہے۔ یاضربۃ من تقی ما اراد بھا الالیبلغ ذی العرش رضوانا انی لا ذکرہ حینا فاحسبہ او فی البریۃ عنداللہ میرانا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے حضرت علی ؓ کے سر پر تلوار سے وار کیا وہ اللہ کا قرب تلاش کررہا تھا جب میں اس کا ذکر کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بہت اچھا کیا ہے۔ مگر حضرت علی ؓ کی شہادت سے وہ خلافت راشدہ ختم ہوگئی جسے حضور ﷺ نے علیٰ منہاج النبوۃ فرمایا تھا۔ اہل ایمان کی علیحدگی جب ساری قوم ہلاک ہوگئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ کے چار ہزار یا چھ ہزار ساتھی وہاں سے چل دیے ان میں ایک مالدار آدمی بھی تھا جو اہل ایمان کی خدمت کیا کرتا تھا مگر اس کی بیوی اس سلوک کو پسند نہیں کرتی تھی چناچہ اس نے علیحدگی اختیار کرلی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگیا اور عذاب الٰہی سے بچ گیا فرمایا فتولی عنھم پھر صالح (علیہ السلام) وہاں سے پلٹے اور اپنی ہلاک شدہ قوم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا وقال یقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربی اے میری قوم ! میں نے تو تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا بیس سال تک تمہیں وعظ کرتا رہا میں نے تبلیغ کا پورا پورا حق ادا کردیا ونصحت لکم اور تم سے پوری پوری خیر خواہی کی بعض اوقات ایسی بات تاسف کے طور پر کی جاتی ہے کہ دیکھو ! میں نے تمہیں کتنا سمجھایا ہر طرح سے تمہیں بچانے کی کوشش کی مگر تم نے میری ایک نہ مانی اور آج تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہو اللہ کا ہر نبی اپنی امت کے لیے ناصح امین ہوتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ اس کی قوم عذاب کا شکار ہو مگر قوم کی بدقسمتی کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی قوم عذاب کا شکار ہو مگر قوم کی بدقسمتی کہ وہ نبی کی تکذیب کرکے سزا میں مبتلا ہوجاتی ہے دنیا میں جو بھی خیر خواہی کی بات کو ٹھکراتا ہے وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتا ہے قرآن میں عبرت کے لیے بہت سے واقعات مذکور ہیں آگے آرہا ہے فنظر کیف کان عاقبۃ المجرمین دیکھو ! مجرمین کا کیسا برا حشر ہوا۔ سمع موتیٰ حضرت صالح (علیہ السلام) کا یہ خطاب اپنی نافرمان ہلاک شدہ قوم سے تھا مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) بیان القرآن کے حاشے پر لکھتے ہیں کہ اس آیت کے ظاہری الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اس کی مثال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل سے بھی ملتی ہے جنگ بدر کے خاتمے پر آپ نے کفار کے مدفن (قلیب) پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا اے ابوجہل ، اے عتبہ اے شیبہ اے فلاں ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ، کیا تم نے بھی خدا کے وعدے کو سچا پالیا ؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا حضور آپ ﷺ بےجان لاشوں سے خطاب کرتے ہیں فرمایا اللہ کی قسم اس وقت یہ تم سے زیادہ سنتے ہیں مگر جواب نہیں دے سکتے سماع موتیٰ کے مسئلہ میں امت میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض انکار کرتے ہیں مگر اکثر اس کے قائل ہیں تاہم سننے سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ چونکہ وہ سنتے ہیں اس لیے ان سے حاجتیں طلب کرنے لگیں یا وہ کوئی جواب دے سکتے ہیں یہ تو ایسے ہی ہے جیسے قبرستان میں جاکر مردوں کو سلام کرتے ہیں السلام علیک یا ھل القبور امام ابن کثر (رح) نے حضور کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ قبرستان جائو تو یوں کہا کرو السلام علیکم دار قوم مومنین وانا انشاء اللہ بکم لاحقون یغفر اللہ لسنا ولکم سلام ہو تم پر اے مومن قوم کی بستی کے رہنے والو ! اور ہم بھی انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اللہ ہمیں اور تمہیں معاف کرے بہرحال حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی مردوں سے اسی طرح کلام کیا جس طرح زندوں سے کیا جاتا ہے۔ ماضی بمقابلہ حال انبیاء (علیہم السلام) کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کے استھ ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کرے سابقہ ادوار میں محدود وسائل کے باوجود مسلمانوں نے خیر خواہی کے بڑے بڑے کام انجام دیے ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھا ہے کہ میں ہنولولو شہر میں گیا تو وہاں پر 22 مدرسے مردوں کے اور 13 عورتوں کے تھے جو نہایت کامیابی سے چل رہے تھے اس شہر میں کوئی عورت ایسی نہیں تھی جو حافظ قرآن نہ ہو آٹھویں صدی میں مسلمانوں نے اتنا کام کیا دمشق میں عورتوں کے دومسند تھے دو عورتیں خود محدث تھیں اور علم حدیث پڑھاتی تھیں ان مدرسوں میں ہزاروں آدمی تعلیم حاصل کرتے تھے مگر آج وہ چیز کہاں ہے آج کا مولوی شرپسند بن چکا ہے چند حدیثیں پڑھ کر وعظ کرنے لگتا ہے نہ کوئی تعلیم ، نہ تحقیق ، نہ اخلاق ، نہ دیانت ، محض لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے آج اہل ثروت مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ساری دولت اپنے عیش و آرام کے لیے خرچ کی جارہی ہے نہ کوئی مدرسہ نہ یونیورسٹی ، نہ ہسپتال ، الاماشاء اللہ ، تاہم اکثریت دین سے بیگانہ نہ ہوچکی ہے اس وقت دنیا عجیب مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان کی اکثریت بشمول مسلمان شیطانی پارٹی کے ممبر ہیں ہر قسم کا شرو فساد عیاشی اور بدمعاشی ان میں پائی جاتی ہے بےایمانی ، تجارتی بدیانتی ، وہ کون سا برا کام ہے جو مسلمانوں میں نہیں پایا جاتا کیا خیر خواہی کا یہی تقاضا ہے ؟ یہ تو انبیاء کا مشن تھا جسے بھلا دیا گیا ہے کوئی پھٹے پرانے کپڑوں والا آجاتا تو حضور ﷺ بےچین ہوجاتے لوگوں کو اکٹھا کرکے خطبہ ارشاد فرماتے کہ لوگو ! صدقہ کرو ، یہ بھی تمہارے بھائی ہیں ان کو لباس مہیا کرو آپ کے توجہ دلانے پر ہر شخص حسب توفیق ضرورت مند کی خدمت کرتا ہے۔ بہرحال حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مردہ لوگوں سے خطاب فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے رب کا پیغام تم تک پہنچا کر خیر خواہی کا پورا پورا حق ادا کردیا تھا مگر تم نے میری بات نہ مانی اور آج عذاب کا شکار ہوچکے ہو اگر تم میری بات مان جاتے تو اس دنیا میں بھی سرخرو ہوجاتے اور آخرت کے دائمی عذاب سے بھی بچ جاتے مگر افسوس کہ تم اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن گئے اور آخرت میں بھی دائمی عذاب کے مستحق ٹھہرے میں نے تو خیر خواہی کا حق ادا کردیا ولکن لاتحبون النصحین۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم خیر خواہی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے فرعون کے واقعہ میں بھی ایسا ہی آتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو ہر چن دسمجھانے کی کوشش اور ان کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کی مگر قوم نہ مانی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم غرق ہوگئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی فرمایا کہ اے میری قوم میں نے اپنا فرض پورا کردیا تم پر حجت تمام کردی مگر تم ہمیشہ میری بات کو ٹھکراتے رہے جس کا نتیجہ تمہاری تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہ نکلا۔
Top