Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 75
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
قَالَ
: بولے
الْمَلَاُ
: سردار
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
اسْتَكْبَرُوْا
: تکبر کیا (متکبر)
مِنْ
: سے
قَوْمِهٖ
: اس کی قوم
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں سے
اسْتُضْعِفُوْا
: ضعیف (کمزور) بنائے گئے
لِمَنْ
: ان سے جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
مِنْهُمْ
: ان سے
اَتَعْلَمُوْنَ
: کیا تم جانتے ہو
اَنَّ
: کہ
صٰلِحًا
: صالح
مُّرْسَلٌ
: بھیجا ہوا
مِّنْ
: سے
رَّبِّهٖ
: اپنا رب
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اِنَّا
: بیشک ہم
بِمَآ
: اس پر جو
اُرْسِلَ بِهٖ
: اس کے ساتھ بھیجا گیا
مُؤْمِنُوْنَ
: ایمان رکھتے ہیں
کہا ان سرداروں نے جنہوں نے تکبر کیا صالح (علیہ السلام) کی قوم میں سے ان لوگوں سے جو کمزور خیال کئے جاتے تھے اور جو ان میں سے ایمان لائے تھے کیا تم جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) خدا کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم تو اس چیز پر ایمان رکھنے والے ہیں جس کے ساتھ اس (صالح علیہ السلام) کو بھیجا گیا ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں حضرت صالح (علیہ السلام) کا ابتدائی ذکر ہوا اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کی طرف ان کے خاندان کے فرد کو نبوت و رسالت دے کر مبعوث فرمایا اور انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تمام انبیاء کے دستور کے مطابق صالح (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے قوم کو توحید کا درس دیا اور کفر و شرک سے منع کیا پھر لوگوں کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) کو اونٹنی بطور نشانی اور معجزہ عطا کی آپ نے فرمایا اللہ کی اونٹنی ہے اس کو برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا یہ اللہ کی زمین میں چرتی رہے گی مگر تم کو پریشان نہیں کرے گی لہٰذا تم بھی اس سے تعرض نہ کرنا ورنہ خدا تعالیٰ کے غضب کا شکار بن جائو گے پھر اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کو احسانات یاد دلانے اور فرمایا کہ دیکھو قوم ہود کی تباہی کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں عروج عطا کیا تمہیں دولت صنعت و حرفت اور سلطنت عطا کی تم بیابانوں میں پہاڑوں کو تراش تراش کر علیشان مکان بناتے ہو اور ان کو نقش و نگار سے مزین کرتے ہو یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ان امور کا سلیقہ بتایا اب اس کی نعمتوں کی ناقدری نہ کرنا اور زمین میں شرو فساد کا بازار گرم نہ کرنا۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی عبادت کی دعوت دیں کفر اور شرک سے منع کریں اور ان کے عقیدے اور عمل کی اصلاح کریں بعض اوقات لوگ رسومات باطلہ میں مبتلا ہوتے ہیں تو بنی کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ قوم کو ایسی قبیح رسومات سے نجات دلائے شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انبیاء کی بعثت کا ایک اہ مقصد رفع التظالم من بین الناس ہوتا ہے یعنی وہ لوگوں کے درمیان ظلم و زیادتی کو ختم کرتے ہیں فان تظالمھم یضیق علیھم کیونکہ اگر وہ ایک دوسرے پر ظلم کریں تو ان پر تنگی واقع ہوجاتی ہے تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی اپنی بعثت کا پورا پورا حق ادا کیا اور لوگوں کو ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ متکبرین اور مستضعفین میں مکالمہ صالح (علیہ السلام) کی تقریر کے جواب میں قال الملا الذین استکبر من قومہ آپ کی قوم کے سربرآوردہ لوگ جنہوں نے تکبر کیا وہ کہنے لگے للذین استضعفو ان لوگوں سے جو کمزور خیال کیے جاتے تھے یعنی جو لوگ مال و دولت اور جاہ و اقتدار کی وجہ سے مغرور ہوچکے تھے انہوں نے غریب اور کمزور لمن امن منھم مگر اہل ایمان لوگوں سے یوں خطاب کیا اتعلمون ان صلحاً مرسل من ربہ کیا تم جانتے ہو کہ حضرت صالح (علیہ السلام) واقعی اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں قالو تو ایمان والوں نے کہا انا بما ارسل بہ مومنون بیشک ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو صالح (علیہ السلام) کو دے کر بھیجا گیا ہے ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ فلاح اور کامیابی صالح (علیہ السلام) کے پروگرام میں ہی ہے اور وہ پروگرام یہی ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ ہر نبی کے دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ اولین ایماندار غریب لوگ ہی ہوتے ہیں امیر لوگ اگر ایمان لائیں بھی تو بڑی دیر کے بعد ابتداء میں ظلم و ستم کانشانہ ہمیشہ غریب لوگ ہی بنتے رہے ہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد بھی ہے بدا الا سلام غریبا و سعود کما بدافطوبی الغرباء یعنی اسلام کی ابتداء ہمیشہ غریب لوگوں سے ہوئی اور آخر میں بھی یہ غربا تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا لہٰٰذا غرباء کے لیے خوشخبری ہے چناچہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے کمزور مگر اہل ایمان لوگوں سے ان کے ایمان کا امتحان لینا چاہا تو وہ کامیاب نکلے مگر سرداران قوم اپنی ضد پر اڑے رہے اور کہنے لگے قال الذین استکبرو وانا بالذی امنتم بہ کفرون قوم کے متکبرین نے کہا کہ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔ کفر کا معنی انکار کرنا ہے مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرنے سے کفر لازم آتا ہے اگر کوئی شخص دن کے کسی جزو توحید ، رسالت ، قیامت ، ملائکہ یا کتب سماویہ وغشرہ کا انکار کردے تو وہ کافر ہوجائے گا کفر کا معنی حق بات کو چھپا دینا بھی ہوتا ہے کسان کو بھی عربی زبان میں کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے کو زمین میں چھپا دیتا ہے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ ان الذین ستروا الحق عناداً جو عناد کی وجہ سے حق کو چھپا دیتے ہیں وہ کافر ہیں اور شرک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کا مانتے ہوئے اس کی صفات مختصہ میں کسی مخلوق کو شریک کرلے وہ بھی کافروں کی طرح ناپاک ہوجاتا ہے منافق کی تعریف یہ ہے کہ وہ زبان سے اقرار کرتا ہے مگر دل سے انکار کرتا ہے الور لمحد وہ شخص ہوتا ہے جو دین میں کج روی اختیار کرتا ہے خدا کی صفات کے ایسے معانی بیان کرتا ہے جو نہ اللہ کی مراد ہوتے ہیں نہ اس کے رسول کی اور نہ باقی اہل ایمان ایسا سمجھتے ہیں۔ اونٹنی کا قتل اب قوم نے اللہ کی نشانی اونٹنی کو قتل کرنے کی سازش کی سورة نمل میں موجود ہے وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط یفسدون فی الارض والا یصلحون شہر میں غنڈہ قسم کے نو آدمی رہتے تھے ان کا کا ہی فتنہ فساد برپا کرنا تھا ان میں ایک سرکردہ آدمی قداربن سالف تھا حضور ﷺ نے اس کی مثال مکہ کے ابورمعہ سے دی جو کہ بڑا شرپسند آدمی تھا تو قدار اونچے خاندان کافرد تھا پورا خاندان اور قبیلہ اس کی پشت پر تھا مالدار ہونے کے باوجود ناجائز طریقے سے مال پر قبضہ کرلینا اس کا معمول تھا شہر میں عنیزہ نامی ایک حسین و جمیل عورت رہتی تھی جس کی جوان اور خوبصورت لڑکیاں تھی عورت کے پاس بہت سی بھیڑ بکریاں تھیں جسے اللہ کی اونٹنی کی وجہ سے اپنے جانوروں کو پانی پلانے میں دقت پیش آتی تھی ادھر قدرا اس عورت اور اس کے مال پر قبضہ کرنا چاہتا تھا چناچہ ان دونوں میں یہ طے ہوا کہ اگر قدار اونٹنی کو قتل کر ڈالے تو عورت اپنی جس لڑکی سے چاہے اس کا نکاح کردے گی قدار نے اس کا ذکر اپنے ساتھیوں سے کیا اور وہ پروگرام کے مطابق اونٹنی کی گزرگاہ میں چھپ کر بیٹھ گئے پھر جب اونٹنی اس درے سے گزری تو قدار نے آگے بڑھ کر اس پر تلوار سے حملہ کیا اور اس کے پائوں کاٹ ڈالے جب وہ اونٹنی گر پڑی تو اس کے باقی ساتھی بھی آگئے اور انہوں نے اونٹنی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ یہاں پر اسی بات کو ذکر کیا گیا ہے فعقر وا الناقۃ ان لوگوں نے اونٹنی کے پائوں کاٹ ڈالے وعتواعن امر ربھم اور انہوں نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اللہ نے تو فرمایا تھا یہ نشانی ہے اس کو بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا مگر انہوں نے اللہ کے حکم کی کچھ پروا نہ کی اور اونٹنی کو قتل کردیا بلکہ صالح (علیہ السلام) کو بھی ڈرانا دھمکانا شروع کردیا چونکہ آپ کے ساتھ کافی لوگ تھے اس لیے وہ کھلم کھلا آپ کو ایذا نہ پہنچا سکے ایک موقع پر آپ مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ منکرین نے حملہ کردیا مگر آپ بچ گئے۔ عذاب الٰہی کا نزول جب صالح (علیہ السلام) نے قوم کو اونٹنی کے قتل پر سخت سرزنش کی اور عذاب الٰہی کی پیش گوئی کی تو کہنے لگے وقالو یصلح ائتنا بما تعدنا ان کنت من المرسلین اگر تو واقعی رسولوں میں سے ہے تو وہ چیز لے آ جس سے تو ہمیں ڈراتا ہے اتنے بےباک ہوچکے تھے کہ خود عذاب کا مطالبہ کرنے لگے سورة ہود میں موجود ہے صالح (علیہ السلام) نے کہا تمتعوا فی دارکم ثلثۃ ایام ذلک وعد غیر مذوب تین دن تک فائدہ اٹھا لو پھر یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہوگا اور تم پر عذاب نازل ہوجائے گا فرمایا پہلے دن تمہارے چہروں پر زردی چھا جائے گی دوسرے دن سرخ ہوجائیں گے اور تیسرے دن سیاہ پھر چوتھے دن تم خدا کی گرفت میں آجائو گے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا یہ جمعرات کا دن تھا پھر جمعہ اور ہفتہ بھی گزر گئے اور اتوار کے روز علی الصبح ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا جو دو قسم کا تھا فرمایا فاخذ تھم الرجفۃ ایک تو انہیں زلزلے نے آپکڑا فرشتے نے ایسی خوفناک چیخ ماری کہ لوگوں کے دل اور جگر پھٹ گئے اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچا سوائے ان لوگوں کے جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لاچکے تھے فرمایا فاصبحو فی دارھم جثمین پس وہ ہوگئے اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل گرے پڑے جب زبردست زلزلہ آیا تو زمین پر گر پڑے دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ رہی اور ساتھ ہی خوفناک چیخ سنائی دی اور وہ وہیں ہلاک ہوگئے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام طائف کے سفر پر گئے تو راستے میں ایک قبر پر سے گزرے جس پر آتے جاتے لوگ پتھر مارتے تھے آپ نے صحابہ ؓ سے دریافت کیا کہ کیا تمہیں معلوم ہے ایسا کیوں ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا یہ قوم ثمود کے ایک آدمی ابو رغال کی قبر ہے جب اس قوم پر عذاب آیا تو یہ شخص حرم مکہ میں تھا جس کی وجہ سے عذاب سے تو بچ گیا مگر جب وہ طائف جانے کے لیے حرم سے باہر نکلا تو اس مقام پر اس شخص کو ویسی ہی چیخ سنائی دی جیسی اس کی قوم پر آئی تھی اور یہ یہیں ہلاک ہوگیا آپ نے فرمایا کہ اس کی ایک خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی لاش کے ساتھ اس کی سونے کی چھڑی بھی دفن کردی گئی تھی چناچہ صحابہ ؓ نے وہاں پر کھدائی کی تو لاش تو گل سڑ کر ختم ہوچکی تھی البتہ سونے کی چھڑی مل گئی بہرحال اس عذاب میں پوری قوم ثمود نیست و نابود ہوگئی اور صرف وہی لوگ بچے جو صالح (علیہ السلام) کے متبعین میں شامل ہوچکے تھے۔ قتل ناقہ اور شہادت علی ؓ شاہ عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ پہلی امتوں میں قدار ابن سالف بڑا بدبخت آدمی تھا جس نے اللہ کی نشانی اور معجزے اونٹنی کو تلوار سے قتل کیا اور اس امت میں بڑا بدبخت وہ شخص ہوگا جو تیرے سر پر تلوار چلا کر تیری داڑھی کو رنگین کرے گا چناچہ ایسا ہی ہوا حضرت علی ؓ صبح کی نماز کے لیے کوفے کی جامع مسجد کی طرف نکلے ۔ مسجد کے دروازے کے قریب عبدالرحمن بن ملجحم خارجی چھپا ہوا تھا اس نے تلوار سے حضرت علی ؓ کے سر پر وار کیا جس سے سر سے خون نکلا اور داڑھی مبارک رنگین ہوگئی اونٹنی کے قتل اور حضرت علی ؓ کی شہادت میں اس لحاظ سے بھی مماثلت پائی جاتی ہے کہ اونٹنی کے قتل کی وجہ بھی عنیزہ نامی عورت تھی اور حضرت علی ؓ پر وار کرنے کے لیے بھی قطامہ نامی عورت نے عبدالرحمن کو ابھارا تھا شاہ عبدالعزیز صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ انسانی جذبات میں سے سب سے خسیس جذبہ شہوت کا ہوتا ہے یہ دونوں واقعات اسی جذبہ کی تسکین کی خاطر رونما ہوئے۔ حضرت علی ؓ کے قتل کو خوارج بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں چناچہ عمران بن قطان خارجی شاعر کہتا ہے۔ یاضربۃ من تقی ما اراد بھا الالیبلغ ذی العرش رضوانا انی لا ذکرہ حینا فاحسبہ او فی البریۃ عنداللہ میرانا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے حضرت علی ؓ کے سر پر تلوار سے وار کیا وہ اللہ کا قرب تلاش کررہا تھا جب میں اس کا ذکر کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بہت اچھا کیا ہے۔ مگر حضرت علی ؓ کی شہادت سے وہ خلافت راشدہ ختم ہوگئی جسے حضور ﷺ نے علیٰ منہاج النبوۃ فرمایا تھا۔ اہل ایمان کی علیحدگی جب ساری قوم ہلاک ہوگئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ کے چار ہزار یا چھ ہزار ساتھی وہاں سے چل دیے ان میں ایک مالدار آدمی بھی تھا جو اہل ایمان کی خدمت کیا کرتا تھا مگر اس کی بیوی اس سلوک کو پسند نہیں کرتی تھی چناچہ اس نے علیحدگی اختیار کرلی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگیا اور عذاب الٰہی سے بچ گیا فرمایا فتولی عنھم پھر صالح (علیہ السلام) وہاں سے پلٹے اور اپنی ہلاک شدہ قوم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا وقال یقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربی اے میری قوم ! میں نے تو تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا بیس سال تک تمہیں وعظ کرتا رہا میں نے تبلیغ کا پورا پورا حق ادا کردیا ونصحت لکم اور تم سے پوری پوری خیر خواہی کی بعض اوقات ایسی بات تاسف کے طور پر کی جاتی ہے کہ دیکھو ! میں نے تمہیں کتنا سمجھایا ہر طرح سے تمہیں بچانے کی کوشش کی مگر تم نے میری ایک نہ مانی اور آج تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہو اللہ کا ہر نبی اپنی امت کے لیے ناصح امین ہوتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ اس کی قوم عذاب کا شکار ہو مگر قوم کی بدقسمتی کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی قوم عذاب کا شکار ہو مگر قوم کی بدقسمتی کہ وہ نبی کی تکذیب کرکے سزا میں مبتلا ہوجاتی ہے دنیا میں جو بھی خیر خواہی کی بات کو ٹھکراتا ہے وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتا ہے قرآن میں عبرت کے لیے بہت سے واقعات مذکور ہیں آگے آرہا ہے فنظر کیف کان عاقبۃ المجرمین دیکھو ! مجرمین کا کیسا برا حشر ہوا۔ سمع موتیٰ حضرت صالح (علیہ السلام) کا یہ خطاب اپنی نافرمان ہلاک شدہ قوم سے تھا مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) بیان القرآن کے حاشے پر لکھتے ہیں کہ اس آیت کے ظاہری الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اس کی مثال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل سے بھی ملتی ہے جنگ بدر کے خاتمے پر آپ نے کفار کے مدفن (قلیب) پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا اے ابوجہل ، اے عتبہ اے شیبہ اے فلاں ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ، کیا تم نے بھی خدا کے وعدے کو سچا پالیا ؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا حضور آپ ﷺ بےجان لاشوں سے خطاب کرتے ہیں فرمایا اللہ کی قسم اس وقت یہ تم سے زیادہ سنتے ہیں مگر جواب نہیں دے سکتے سماع موتیٰ کے مسئلہ میں امت میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض انکار کرتے ہیں مگر اکثر اس کے قائل ہیں تاہم سننے سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ چونکہ وہ سنتے ہیں اس لیے ان سے حاجتیں طلب کرنے لگیں یا وہ کوئی جواب دے سکتے ہیں یہ تو ایسے ہی ہے جیسے قبرستان میں جاکر مردوں کو سلام کرتے ہیں السلام علیک یا ھل القبور امام ابن کثر (رح) نے حضور کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ قبرستان جائو تو یوں کہا کرو السلام علیکم دار قوم مومنین وانا انشاء اللہ بکم لاحقون یغفر اللہ لسنا ولکم سلام ہو تم پر اے مومن قوم کی بستی کے رہنے والو ! اور ہم بھی انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اللہ ہمیں اور تمہیں معاف کرے بہرحال حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی مردوں سے اسی طرح کلام کیا جس طرح زندوں سے کیا جاتا ہے۔ ماضی بمقابلہ حال انبیاء (علیہم السلام) کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کے استھ ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کرے سابقہ ادوار میں محدود وسائل کے باوجود مسلمانوں نے خیر خواہی کے بڑے بڑے کام انجام دیے ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھا ہے کہ میں ہنولولو شہر میں گیا تو وہاں پر 22 مدرسے مردوں کے اور 13 عورتوں کے تھے جو نہایت کامیابی سے چل رہے تھے اس شہر میں کوئی عورت ایسی نہیں تھی جو حافظ قرآن نہ ہو آٹھویں صدی میں مسلمانوں نے اتنا کام کیا دمشق میں عورتوں کے دومسند تھے دو عورتیں خود محدث تھیں اور علم حدیث پڑھاتی تھیں ان مدرسوں میں ہزاروں آدمی تعلیم حاصل کرتے تھے مگر آج وہ چیز کہاں ہے آج کا مولوی شرپسند بن چکا ہے چند حدیثیں پڑھ کر وعظ کرنے لگتا ہے نہ کوئی تعلیم ، نہ تحقیق ، نہ اخلاق ، نہ دیانت ، محض لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے آج اہل ثروت مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ساری دولت اپنے عیش و آرام کے لیے خرچ کی جارہی ہے نہ کوئی مدرسہ نہ یونیورسٹی ، نہ ہسپتال ، الاماشاء اللہ ، تاہم اکثریت دین سے بیگانہ نہ ہوچکی ہے اس وقت دنیا عجیب مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان کی اکثریت بشمول مسلمان شیطانی پارٹی کے ممبر ہیں ہر قسم کا شرو فساد عیاشی اور بدمعاشی ان میں پائی جاتی ہے بےایمانی ، تجارتی بدیانتی ، وہ کون سا برا کام ہے جو مسلمانوں میں نہیں پایا جاتا کیا خیر خواہی کا یہی تقاضا ہے ؟ یہ تو انبیاء کا مشن تھا جسے بھلا دیا گیا ہے کوئی پھٹے پرانے کپڑوں والا آجاتا تو حضور ﷺ بےچین ہوجاتے لوگوں کو اکٹھا کرکے خطبہ ارشاد فرماتے کہ لوگو ! صدقہ کرو ، یہ بھی تمہارے بھائی ہیں ان کو لباس مہیا کرو آپ کے توجہ دلانے پر ہر شخص حسب توفیق ضرورت مند کی خدمت کرتا ہے۔ بہرحال حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مردہ لوگوں سے خطاب فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے رب کا پیغام تم تک پہنچا کر خیر خواہی کا پورا پورا حق ادا کردیا تھا مگر تم نے میری بات نہ مانی اور آج عذاب کا شکار ہوچکے ہو اگر تم میری بات مان جاتے تو اس دنیا میں بھی سرخرو ہوجاتے اور آخرت کے دائمی عذاب سے بھی بچ جاتے مگر افسوس کہ تم اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن گئے اور آخرت میں بھی دائمی عذاب کے مستحق ٹھہرے میں نے تو خیر خواہی کا حق ادا کردیا ولکن لاتحبون النصحین۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم خیر خواہی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے فرعون کے واقعہ میں بھی ایسا ہی آتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو ہر چن دسمجھانے کی کوشش اور ان کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کی مگر قوم نہ مانی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم غرق ہوگئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی فرمایا کہ اے میری قوم میں نے اپنا فرض پورا کردیا تم پر حجت تمام کردی مگر تم ہمیشہ میری بات کو ٹھکراتے رہے جس کا نتیجہ تمہاری تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہ نکلا۔
Top