Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 91
وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَۙ
وَبُرِّزَتِ : اور ظاہر کردی جائے گی الْجَحِيْمُ : دوزخ لِلْغٰوِيْنَ : گمراہوں کے لیے
اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی
وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَ۝ 91ۙ برز البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك . ( ب رز ) البراز کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ { وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا } ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔ جحم الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما . ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى [ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد ﷺ ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے
Top