Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 107
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ
فَاَلْقٰى : پس اس نے ڈالا عَصَاهُ : اپنا عصا فَاِذَا ھِىَ : پس وہ اچانک ثُعْبَانٌ : اژدھا مُّبِيْنٌ : صریح (صاف)
موسیٰ نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈالی تو وہ اسی وقت صریح اژدھا ہوگیا
فَاَلْقٰى عَصَاہُ فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ۝ 107 لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ثعب قال عزّ وجل : فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف/ 107] ، يجوز أن يكون سمّي بذلک من قوله : ثَعَبْتُ الماء فَانْثَعَبَ ، أي : فجّرته وأسلته فسال، ومنه : ثَعَبَ المطر، والثُّعْبَة : ضرب من الوزغ وجمعها : ثُعَبٌ ، كأنّه شبّه بالثعبان في هيئته، فاختصر لفظه من لفظه لکونه مختصرا منه في الهيئة . ث ع ب ) ثعب ( ف) ثعبا ۔ الماء کے معنی ہیں اس نے پانی پہا یا فانثعب اس کا مطاوع ہے جس کے معنی ہیں چناچہ وہ بہ نکلا۔ اسی سے ثعب المطر ہے ( جس کے معنی بارش کا بہتا ہوا پانی یا برساتی نالہ کے ہیں ) اور ہوسکتا ہے کہ آیت کریمہ :۔ فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف/ 107] تو وہ امی وقت صریح اژدہا بن گئی ۔ میں ثعبان ( اژدھا ) بھی ثعبت الماء کے محاورہ سے ماخوذ ہو سانپ بھی چونکہ زمین پر اس طرح چلتا ہے ۔ جیسے پانی بہ رہا ہے ہوتا ہے اسلئے اسے ثعبان کہا گیا ہو ۔ نعبۃ خبیث قسم کا گرکٹ ثعب یہ بھی چونکہ شکل و صورت میں سانپ کے مشابہ ہوتا ہے اس لئے اسے ثعبۃ کہا جاتا ہے اور جسم میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کے لفظ میں اختصار کرلیا گیا ۔
Top