Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 107
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ
فَاَلْقٰى : پس اس نے ڈالا عَصَاهُ : اپنا عصا فَاِذَا ھِىَ : پس وہ اچانک ثُعْبَانٌ : اژدھا مُّبِيْنٌ : صریح (صاف)
اس پر (موسی علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈال دیا سو وہ دفعۃ ایک صاف اژدہا بن گیا،144 ۔
144 ۔ یہ خیال رہے کہ مصر قدیم میں سانپ ایک مقدس جانورسمجھا جاتا تھا جیسے ہندوستان میں گائے بلکہ ہندوستان میں تو خود سانپ بھی مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندوؤں میں سانپ کی پوجا کا دن ” ناگ پنچمی “ بڑے دھوم سے منایا جاتا ہے۔ (آیت) ” ثعبان “۔ کہتے ہیں ایک بڑے اور موٹے قسم کے سانپ یا اژدرکو۔ الحیۃ الضخم الذکر وھو اعظم الحیات (قرطبی) الثعبان الحیۃ الضخمۃ الذکر فی قول جمیع اھل اللغۃ (کبیر) عصائے موسوی جسامت کے لحاظ سے ایسا ہی ہوگا۔ باقی جہاں اس کی تیز رفتاری کا اظہار مقصود ہے وہاں قرآن مجید اس کے لیے جان لایا ہے۔ امکان اس کا بھی ہے کہ وہی عصا کہیں ثعبان بن جاتا ہو اور کہیں۔ جان۔ توریت میں یہ واقعات درج ہیں مگر حسب معمول بڑے خلط ملط کے ساتھ، ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” ثعبان مبین “۔ یعنی اژدر بھی ایسا جس کے اژدر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ ای حیۃ لا لبس فیھا (قرطبی) لایشک فیہ انہ ثعبان (کشاف) یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ تبدیل حقیقت ہوجاتی تھی خیالی قصہ نہ تھا (تھانوی (رح)
Top