Mutaliya-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 14
ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ١ؕ هٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
ذُوْقُوْا : تم چکھو فِتْنَتَكُمْ ۭ : اپنی شرارت ھٰذَا الَّذِيْ : یہ وہ جو كُنْتُمْ بِهٖ : تم تھے اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : جلدی کرتے
(اِن سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے
ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ ۭ [ تم لوگ چکھو اپنے عذاب کو ] ھٰذَا الَّذِيْ [ یہ وہ ہے ] كُنْتُمْ بِهٖ [ تم لوگ جس کی ] تَسْتَعْجِلُوْنَ [ جلدی مچاتے تھے ] نوٹ۔ 1: پچھلی سورة (ق) میں ان لوگوں کو جواب دیا گیا ہے جو قرآن کے اس دعوے کو بعید از امکان قرار دیتے تھے کہ لوگ مرنے کے بعد از سر نو زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے ۔ اس سورة میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر قرآن کے عذاب کے وعدے (دھمکی ) کو بھی ثابت کیا گیا ہے اور جزاء وسزا (بدلہ ) کو بھی ۔ استدلال کی بنیاد آفاق وانفس کے دلائل پر ہے۔ (تدبر قرآن ) یہاں جن مظاہر کائنات کی قسم کھائی ہے وہ یہ ہے کہ غبار اڑانے والی یعنی تیز وتند و ہوائیں جب چلتی ہیں تو بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔ پھر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جہاں جتنا حکم ہوتا ہے، پانی تقسیم کرتی ہیں ۔ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ عذاب کا وعدہ اور جزاء وسزا یقینی ہے ۔ اس قسم کا مطلب یہ ہے کہ جس نظم اور باقاعدگی کے ساتھ بارش کا یہ نظام تمہاری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے وہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ دنیا کوئی بےمقصد اور بےمعنی گھروندا نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے جس میں ہر کام کسی مقصد اور کسی مصلحت کے لیے ہورہا ہے ۔ اس نظام میں یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ انسان جیسی باشعور اور تمیز و تصرف کے اختیار والی مخلوق کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے اور اس سے کبھی کوئی باز پرس نہ ہو۔ جزاء وسزا کے تصور میں جس طرح بعث بعد الموت کا تصور از خود شامل ہے ، اسی طرح جزاء وسزا کی دلیل کے طور پر جس نظام کائنات کو بطور گواہ پیش کیا گیا ہے اسی طرح بعث بعد الموت کی دلیل بھی اس نظام میں از خود شامل ہے ۔ سورج کی شعاعیں روئے زمین کے ان تمام ذخائر آب پر اثر انداز ہوتی ہیں جن تک ان کی حرارت پہنچتی ہے ۔ اس عمل سے پانی کے بےحدوحساب قطرے اڑ جاتے ہیں اور اپنے مخزن میں باقی نہیں رہتے ۔ مگر وہ فنا نہیں ہوجاتے بلکہ بھاپ بن کر ایک ایک قطرہ ہوا میں محفوظ رہتا ہے ۔ پھر جب خدا کا حکم ہوتا ہے تو یہی ہوا ان قطروں کی بھاپ کو سمیٹ لاتی ہے، اس کو کثیف بادلوں کی شکل میں جمع کرتی ہے ، ان بادلوں کو لے کر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل جاتی ہے اور خدا کی طرف سے جو وقت مقرر ہے ٹھیک اسی وقت ایک ایک قطرے کو اسی شکل میں جس میں وہ پہلے تھا زمین پر واپس پہنچا دیتی ہے۔ یہ منظر جو آئے دن انسان کی آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مرے ہوئے انسان کے اجزاء جسم اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر جمع ہوسکتے ہیں اور انسان کو اسی شکل میں پھر اٹھا کر کھڑا کیا جاسکتا ہے جس میں وہ پہلے تھا ۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ) نوٹ۔ 2: یہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ مفعول کے ساتھ ما کا استعمال اسے غیر معین کرتا ہے ، جیسے مثلا ما کا مطلب ہے کوئی سی بھی مثال ۔ (دیکھیں آیت ۔ 2: 26، نوٹ ۔ 1) اسی طرح تمیز کے ساتھ بھی ما کا استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے قلیلا ما کا مطلب ہے بہت ہی تھوڑا ۔ گذشتہ متعدد آیات میں ہم نے اسی لحاظ سے ترجمہ کیا ہے، جیسے الاعراف کی آیات ۔ 3 اور ۔ 10 ۔ وغیرہ ۔ زیرمطالعہ آیت ۔ 17 میں گنجائش ہے کہ قلیلا من الیل ما میں ما کو قلیلا سے متعلق مانا جائے ۔ ایسی صورت میں آیت کا مطلب ہوجاتا ہے کہ رات میں بہت ہی تھوڑا سا سوتے تھے لیکن یہ مفہوم سورة المزمل سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ وہاں ہدایت ہے کہ رات میں قیام کرو سوائے تھوڑی سی (قلیلا) رات کے۔ اس کے آگے قلیلا کی وضاحت ہے کہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ ۔ اردو محاورہ میں اس کو یوں سمجھیں کہ لگ بھگ آدھی رات قیام کے لیے اور لگ بھگ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ ۔ اردو محاروہ میں اس کو یوں سمجھیں کہ لگ بھگ آدھی رات قیام کے لیے اور لگ بھگ آدھی رات سونے کے لیے پسندیدہ ہے یہ مفہوم قلیلا ما سے نہیں بلکہ قلیلا سے ادا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس آیت میں ہم نے ما کو زائدہ ماننے کو ترجیح دی ہے ۔
Top