Al-Qurtubi - Al-Israa : 30
اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب يَبْسُطُ : فراخ کردیتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کا وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں سے خَبِيْرًۢا : خبر رکھنے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بیشک تمہارا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور (جس کی روزی چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے، وہ اپنے بندوں سے خبردار ہے اور (ان کو) دیکھ رہا ہے
آیت نمبر 30 تا 31 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اس آیت کے بارے میں سورة الانعام میں بحث گزر چکی ہے، والحمدللہ۔ اور الإملاق سے مراد فقر و افلاس اور ملکیت کا نہ ہونا ہے۔ أملق الرجل یعنی اس کے لئے سوائے ملقات کے کچھ باقی نہیں رہا اور ملقات سے مراد بڑے بڑے ہموار اور چکنے پتھر ہیں ہذلی نے شکاری کا وصف بنان کرتے ہوئے کہا ہے : أتیح لھا أقیدر ذو حشیف إذا سامت علی الملقات ساما ملقات کا واحد ملقۃ ہے۔ اور أقیدر، اقدا کی تصیغر ہے، مراد چھوٹے قد کا آدمی ہے۔ اور الحشیف من الشیاب سے مراد پرانا کپڑا ہے۔ اور سامت کا معنی مرت (وہ گزری) ہے، مراد شمرنے کہا ہے : املق لازم اور متعدی دونوں طرح ہے، املق جب کوئی محتاج ہوجائے، اور أملق الدھر مابیدہ (زمانے نے اس کے ہاتھ میں جو تھا اسے ختم کردیا۔ ) اوس نے کہا ہے : واملق ما عندی خطوب تنبل مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : خطاً خا کے کسرہ، طا کے سکون اور ہمزہ کے ساتھ جمہور کی قرات ہے۔ اور ابن عامر نے خطاً خا اور طا کے فتحہ اور ہمزہ مقصورہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور یہی ابوجعفر یزید کی قرأت ہے۔ اور یہ دونوں قرأتیں خطی سے ماخوذ ہیں جب کوئی آدمی جان بوجھ کر گناہ کرے۔ ابن عرفہ نے کہا ہے : کہا جاتا ہے خطی فی ذنبہ خطاجب وہ اسمیں گنہگار ہو، اور أخطاً جب کوئی راستے پر چلے چاہے بالارادہ چلے یا بغیر ارادہ کے۔ فرمایا : اور خطی أخطأ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اور ازہری نے کہا ہے : کہا جاتا ہے خطی یخطا خطئا جب کوئی خطا اور غلطی کا قصد کرے جیسا کہ أثم یاثم اثما ہے۔ اورأخطاجب وہ ارادہ قصد نہ کرے، اخطاء وخطا۔ شاعر نے کہا ہے : دعینی إنما خطئی وصوبی علی وان ما أھلکت مال اس میں خطبئ بالقصد غلطی کرنے کے معنی میں ہے۔ اور الخطا اسم الاخطاء کے قائم مقام ہوتا ہے، اور یہ صواب کی ضد ہے اور اس میں دو لغتیں ہیں، ایک قصر اور یہی جید اور عمدہ ہے، اور دوسری مد کے ساتھ اور یہ قلیل ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے خطاخا کے فتحہ، طا کے سکون اور ہمزہ کے ساتھ مروی ہے۔ اور ابن کثیر نے اسے خا کے کسرہ، طا کے فتحہ اور ہمزہ کی مد کے ساتھ پڑھا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : میں اس قرأت کی کوئی وجہ اور دلیل نہیں پاتا، اسی وجہ سے ابوحاتم نے اسے غلط قرار دیا ہے۔ ابوعلی نے کہا ہے : یہ خاطایخاطی سے مصدر ہے، اگرچہ ہم ضاطا تمہیں پاتے، لیکن ہم نے تخاطا پالیا ہے، اور یہ خاطا کا مطاوع ہے، پپس اس پر انہوں نے ہماری راہنمائی کی ہے۔ اور اسی سے شاعر کا قول ہے : تخاطات النبل أحشاءہ وأخر یومی فلم أعجل اور مھاۃ (حسن) کے وصف میں کسی دوسرے نے کہا ہے : تخاطأہ القناص حتی وجدتہ وخرطومہ فی منقع الماء راسب اور جوہری نے تخاطأہ بمعنی أخطأہ کیا ہے۔ اور اوفی بن مطرمازنی نے کہا ہے : ألا أبلغا خلتی جابرا بان خلیلک لم یقتل تخاطأت النبل أحشاءہ وأخر یومی فلم یعجل اور حسن نے خطاء کا اور طا کے فتحہ اور ہمزہ کو مد کے ساتھ پڑھا ہے، ابوحاتم نے کہا ہے : یہ لغت میں معروف نہیں ہے پس یہ غلط ہے، جائز نہیں ہے۔ اور ابوالفتح نے کہا ہے : الخطا اخطات سے ہے جیسا کہ عطاء اعطیت سے ہے، اور یہ اسم بمعنی مصدر ہے، اور یہ اسم بمعنی مصدر ہے، اور حسن سے بھی خطئی خا کے فتحہ کے ساتھ اور طا کی تنوین کے ساتھ بغیر ہمزہ کے مروی ہے۔
Top