Al-Qurtubi - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل ہی کھول دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور انجام یہ ہو کہ) ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ
آیت نمبر 29 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : ولاتجعل یدک مغلولۃً الی عنقک یہ مجاز ہے اور اس کے ساتھ اس بخیل کو تعبیر کیا گیا ہے جو اپنے دل سے اپنے مال میں سے کوئی شے نکالنے کی قدرت نہیں رکھتا، پس اس کی مثال اس طوق کے ساتھ بیان کی گئی جو تصرف بالید سے مانع ہوتا ہے۔ اور صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال بیان فرمائی کہ وہ ایسے دو آدمیوں کی طرح ہیں جن پر لوہے کے دو جنے ہوں اس حال میں کہ ان کے ہاتھ ان کے سینے اور ان کی ہنسلی کی جانب جکڑے ہوئے ہوں پس صدقہ کرنے والا جب بھی کوئی صدقہ دیتا ہے تو وہ (جبہ) اس سے کھل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے پوروں کو ڈھانپ لیتا ہے اور اسکے (چلنے کے) اثر (نشان) مٹا دیتا ہے، ختم کردیتا ہے۔ اور بخیل کو اس طرح بنایا ہے کہ جب بھی صدقہ کا قصد اور ارادہ کرتا ہے تو وہ (جبہ) اور سکڑ جاتا ہے اور پر حلقہ اپنی جگہ کو مضبوطی سے پکڑلیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان فرمایا : پس میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی انگلیاں اس طرح اپنے گریبان میں ڈال کر یہ بیان کرتے ہوئے دیکھا ہے پس اگر تو آپ کو اسے وسیع (کھلا) کرتے ہوئے دیکھتا اور تو وسیع نہ کرتا (تو تجھے تعجب ہوتا۔ ) مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : ولا تبسطھا کل البسط مال کو ختم کرنے کے لئے کھلے ہاتھ کے ساتھ مثال بیان فرمائی، پس اگر ہتھیلی کو بند کر کیا جائے تو جو کچھ اس میں ہوتا ہے وہ اسے روک لیتی ہے، اور اسے بالکل کھول دینا اسے ختم کردیتا ہے جو اس میں ہوتا ہے۔ یہ سارے کا سارا خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے اور مراد آپ کی امت ہے، اور ایسا قرآن کریم میں کثرت سے آیا ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ جب ان کے سردار ہیں اور ان کے رب کے پاس ان کے لئے واسطہ ہیں تو پھر آپ کی ذات کے ساتھ ان کو تعبیر کیا گیا ہے اور یہ اس بارے میں عربوں کی عادت جاریہ کے مطابق ہے۔ اور یہ بھی کہ حضور ﷺ کوئی چیز دوسرے دن کے لئے ذخیرہ نہ کرتے تھے، اور فاقہ کشتی کرتے تھے حتیٰ کہ بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے۔ اور بہت سے صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام اموال کردیتے تھے، اور حضور نبی کریم ﷺ ان پر کوئی سختی نہیں کرتے تھے اور نہ انہیں منع کرتے تھے اس لئے کہ ان کا یقین صحیح اور ان کی بصیرت مضبوط اور پختہ تھی۔ بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خرچ کرنے میں افراط سے منع فرمایا ہے، اور اس آدمی کو اپنا سارا مال نکالنے سے منع فرمایا ہے جس کے بارے اپنے ہاتھ سے نکالے گے مال پر حسرت و درماندگی کا خوف ہو، اور رہاوہ جس کو اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر وثوق ہو اور اس نے خرچ کیا ہے اس پر ثواب جزیل کا یقین ہو تو وہ اس آیت کی مراد نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہ خطاب صرف حضور نبی کریم کی ذات کے ساتھ خاص ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو خرچ کرنے کی کیفیت کی تعلیم دی ہے اور آپ کو میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت جابر اور حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے : ایک بچہ حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی : میری ماں اس اس طرح لا آپ سے سوال کررہی ہے (یعنی فلاں فلاں چیز مانگ رہی ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا :” آج تو ہمارے پاس کوئی شے نہیں ہے “۔ اس نے کہا : پس وہ آپ کو کہتی ہے اپنی قمیص مجھے پہنادو۔ پس آپ ﷺ نے اپنی قمیص مبارک اتاری اور وہ اسے دے دی اور خود گھر میں ننگے بیٹھ گئے۔ اور حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے : پس حضرت بلال ؓ نے نماز کے لئے اذان کہی اور رسول اللہ ﷺ کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرنے لگے، اور دل مشغول ہوگئے، تو ان میں سے بعض اندر آئے دیکھا تو آپ ننگے بدن (یعنی قمیص کے بغیر) تھے، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہ سب خیر اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کے بارے ہے، اور رہا فساد کے لئے خرچ کرنا تو وہ قلیل ہو یا کثیر سب حرام ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اس آیت نے ان امور میں ساری دولت خرچ کرنے سے منع کیا ہے جن میں مومنین کیطرف سے پہلے مطالبہ ہوتا ہے، اسلئے کہ جو اس کے بعد آئے وہ اس شے سے محروم نہ رہے یا پھر منفق اپنے اہل و عیال کو محروم نہ کر دے۔ اور اسی طرح کسی حکیم اور دانا کا قول ہے : میں نے کبھی کوئی فضول خرچی نہیں دیکھی مگر یہ کہ وہ اپنے ساتھ کوئی حق ضائع کرنے والی ہوتی ہے۔ اور یہ آیت فقاہت حال سے متعلقہ آیات میں سے ہے پس اس کا حکم نہیں بیان کیا جاسکتا مگر لوگوں میں سے ایک ایک شخص کے اعتبار سے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ قولہ تعالیٰ : فتقعد ملو مًاامحسورًا ابن عرفہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے آپ نہ فضول خرچی کریں اور نہ اپنا مال ضائع کریں کہ آپ درماندہ ہو کر اور نفقہ و تصرف سے بالکل کٹ کر باقی رہ جائیں، جیسے تھکا ماندہ اونٹ ہوتا ہے، اور یہ وہ ہے جس کی قوت ختم ہوجائے اور اس کے سبب اس کے لئے اٹھنا، چلنا ممکن نہ رہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ینقلب الیک البصر خاسئا وھو حسیر۔ (ملک) (لوٹ آئے گی تیری طرف (تیری) نگاہ ناکام در انحالی کہ وہ تھکی ماندی ہوگی۔ ) یعنی آنکھ تھکی اور کٹی ہوگی۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : یعنی ورنہ تم اپنے کئے پر نادم ہو کر بیٹھ جاؤ گے، پس انہوں نے اسے حسرت سے بنایا ہے، اور اس میں بہت بعد اور دوری ہے، کیونکہ الحسرۃ سے فاعل حسر اور حسران آتا ہے اور محسور نہیں آتا۔ اور الملوم سے مراد وہ ہے جس پر مال ضائع کرنے کی وجہ سے ملامت کی جاتی ہو، یا اسے وہ ملالت کرتا ہے جسے وہ دیتا نہیں۔
Top