Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 29
یَسْئَلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍۚ
يَسْئَلُهٗ : مانگتے ہیں اس سے مَنْ : جو بھی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں كُلَّ يَوْمٍ : ہر روز هُوَ فِيْ شَاْنٍ : وہ نئی شان میں ہے
آسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب اسی سے مانگتے ہیں وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے
یسئلہ من فی السماوات۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آسمانوں میں جو ہے وہ رحمت کا سوال کرتا ہے اور زمین میں جو کوئی ہے وہ رزق کا سوال کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس اور ابو صالح نے کہا : اہل آسمان مغفرت کا سوال کرتے ہیں وہ رزق کا سوال نہیں کرتے اور اہل زمین دونوں چیزوں کا سوال کرتے ہیں ابن جریج نے کہا : ملائیکہ اہل زمین کے لئے رزق کا سوال کرتے ہیں۔ دونوں سوال اہل زمین کے لئے ہیں وہ سوال آسمان والوں کی جانب سے ہو یا اہل زمین کی جانب سے ہو۔ حدیث میں ہے ” فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جس کے چار چہرے ہیں ایک چہرہ انسان کے چہرہ کی طرح ہے وہ اللہ تعالیٰ سے انسانوں کے لئے رزق کا سوال کرتا ہے، ایک چہرہ شیر کے چہرے جیسا ہے وہ درندوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے رزق کا سوال کرتا ہے ایک چہرہ بیل کے چہرے جیسا ہے جو چوپائوں کے لئے رزق کا سوال کرتا ہے اور ایک چہرہ گدھ کے چہرے جیسا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے پرندوں کے لئے رزق کا سوال کرتا ہے۔ “ ابن عطا نے کہا : انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عبادت پر قوت کا سوال کیا : یہ نئی کلام ہے یا سوال کی ظرف کے طور پر منصوب ہے پھر نئی کلام کی حضرت ابو درداء ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے کہ سے مراد ہے اس کی یہ شان ہے کہ وہ گناہ بخش دیتا ہے تکلیفوں کو دور کرتا ہے ایک قوم کو عزت سے نوازتا ہے اور دوسرے کو پست کرتا ہے “ (1) حضرت ابن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان : کا معنی یہ نقل کیا ہے ” وہ گناہ بخش دیتا ہے اور وہ مصیبت کو دور کردیتا ہے اور دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہے۔ “ (2) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کی شان یہ ہے کہ وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے، وہ عزت دیتا ہے، اور ذلت دیتا ہے وہ رزق دیتا ہے اور رزق روک لیتا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے دنیا و آخرت میں اس کی شان کا ارادہ کیا، ابن بحر نے کہا : تمام زمانہ دو دن ہیں ان دونوں میں سے ایک دنیا کے ایام کی مدت ہے اور دوسرا یوم قیامت ہے (3) دنیا کے دنوں میں اس کی شان (اس کا عمل) یہ ہے آزمانا امرونہی کے ساتھ امتحان لینا۔ زندہ کرنا، موت دینا، عطا کرنا اور روک لیا قیامت کے دن اس کا یہ کام ہوگا جزا دینا، حساب کرنا، ثواب دینا اور عذاب دینا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد دنیا کے دنوں میں سے ہر دن اپنے عمل کے بارے میں خبر دینا۔ یہ تو ظاہر ہے۔ لغت میں شان سے مراد عظیم کام ہے اس کی جمع شنون ہے یہاں شان سے مراد جمع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (غافر 67) کلبی نے کہا : اس کا عمل یہ ہے مقادیر کو ان کے اوقات کی طرف لے جاتا ہے۔ عمرو بن میمون نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بارے میں فرمایا : اس کا عمل یہ ہے وہ زندہ کو موت دیتا ہے، رحموں میں جو چاہتا ہے اسے قرار دیتا ہے، ذلیل کو عزت دیتا ہے او عزیز کو ذلت دیتا ہے ایک امیر نے وزیر سے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بارے میں سوال کیا تو وہ اس کا معنی نہیں پہچانتا تھا وزیر نے کل تک مہلت مانگی پریشان ہو کمر گھر کی طرف چلا گیا اس کے حبشی غلام نے پوچھا : کیا معاملہ ہے : وزیر نے اسے بتایا غلام نے اسے کہا : امیر کے پاس واپس جائیے میں اس کے سامنے اس کی وضاحت کروں گا۔ بادشاہ نے اسے بلا لیا عرض کی : اے امیر : اس کا عمل یہ ہے وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے بیمار کو شفا دیتا ہے اور صحت مند کو مریض کردیتا ہے آسودہ کو آزماتا ہے اور مصیبت زادہ کو عافیت عطا کرتا ہے، ذلیل کو عزت دیتا ہے اور عزتز کو ذلت دیتا ہے، غنی کو فقیر کرتا ہے اور فقیر کو غنی کرتا ہے۔ امیر نے اس سے کہا : تو نے میری تکلیف کو رفع کیا اللہ تعالیٰ تیری تکلیف کو رفع فرمائے پھر امیر نے وزیر کی خلعت اتارنے کا حکم دیا اور غلام کو پہنا دی۔ اس نے عرض کی : اے میرے آقا : یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔ حضرت عبداللہ بن طاہر سے مروی ہے اس نے حسین بن فضل کو بلایا اسے کہا : تین آیات ایسی ہیں جنہوں نے مجھے پریشان کردیا ہے میں نے تجھے بلایا ہے تاکہ تو میرے لئے ان کی وضاحت کر دے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (المائدہ) یہ بات ثابت ہے کہ ندم توبہ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (الرحمن 29) یہ صحیح ہے کہ قلم اس بارے میں خشک ہوچکا ہے جو قیامت تک ہونا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (النجم) یہ کئی گنا کا کیا مفہوم ہے ؟ حسن بن فضل نے جواب دیا یہ جائز ہے کہ اس امت میں شرمندگی توبہ نہ ہو اور اس امت میں شرمندگی توبہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایسے خصائص کے ساتھ خاص کیا ہے جن میں دوسری امتیں شریک نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : قابیل کا شرمندہ ہونا ہابیل کے قتل پر نہ تھا بلکہ اس کے اٹھانے پر شرمندہ ہوا تھا۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا تعلق ہے وہ ایسے امور ہیں جن کو وہ ظاہر فرماتا ہے وہ ایسے امور نہیں جن کا وہ آغاز کرتا ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا تعلق ہے۔ اس کا معنی ہے عدل کے اعتبار سے تو اس کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرے اور میری یہ شان ہے کہ میں ایک کے بدلہ میں بطور فضل ہزار دوں عبداللہ اٹھا اور اس کے سر کو چوما اور اس کے لئے خراج میں سے وظیفہ جائز قرار دیا۔
Top