Al-Qurtubi - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم (پیروان محمد سے) تو ہنسی کیا کرتے ہیں
آیت نمبر 14 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا یہ آیت منافقین کے ذکر میں نازل ہوئی۔ اصل میں لقوا، لقیوا تھا۔ ضمہ کو قاف کی طرف نقل کیا گیا اور یاء کو التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کیا گیا۔ محمد بن سمیقع یمانی نے لا قوا الذین آمنوا پڑھا ہے۔ اصل میں لا قیوا تھا۔ یاء کا ما قبل فتحہ تھا۔ اس لئے وہ الف سے بدل گئی پھر دو ساکن لام اور واؤ جمع ہوئے تو الف التقائے ساکنین کی وجہ سے حذف ہوگیا پھر واؤ کو ضمہ کے ساتھ حرکت دی گئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ لاقوا میں واؤ کو کیوں ضمہ دیا گیا اور لقوا میں حذف کیوں کیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لقوا میں جو واؤ ہے اس سے پہلے ضمہ تھا۔ اگر واؤ کو ضمہ کی حرکت دی جاتی تو زبان پر اس کا تلفظ ثقیل ہوتا پس اس کے ثقل کی وجہ سے اسے حذف کیا گیا اور لا قوا میں حرکت دی گئی کیونکہ اس سے پہلے فتحہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذا خلوا الی شیطینھم قالوا انا معکم اگر کہا جائے کہ خلوا کا صلہ الی کیوں ذکر ہوا جبکہ معروف یہ ہے کہ اس کا صلہ باء ہوتا ہے، اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہاں خلوا بمعنی ذھبوا اور انصرفوا ہے۔ فرزدق کا قول ہے : کیف ترانی قالبا مجنی اضرب امری ظھرہ لبطن قد قتل اللہ زیاداً عنی (1) تو مجھے اپنے ڈھال پھیرنے والا کیسے دیکھتا ہے، میں اس کی پیٹھ پر اس کے بطن کے لئے مارتا ہوں اللہ تعالیٰ نے زیاد کو میری طرف سے قتل کردیا ہو جب صرف کے قائم مقام رکھا تو اس کا صلہ ذکر کیا۔ بعض علماء نے کہا : الی بمعنی مع ہے۔ اس قول میں ضعف ہے۔ بعض علماء نے کہا : الی بمعنی باء ہے (2) ۔ اس کا خلیل اور سیبویہ نے انکار کیا ہے۔ بعض علماء نے کہا : اس کا معنی ہے واذا خلوا من المؤ منین الی شیاطینھم۔ اس صورت میں الیٰ اپنے اصل معنی میں ہوگا۔ الشیاطین، شیطان کی جمع مکسر ہے۔ اس کے اشتقاق اور اس کے معنی کے متعلق قول اعوذ باللہ کے تحت گزر چکا ہے۔ یہاں شیطان سے کون مراد ہیں ؟ اس کے متعلق مفسرین کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس اور سدی نے کہا : یہ کفر کے سردار ہیں (3) ۔ کلبی نے کہا : یہ جنوں کے شیاطین ہیں۔ اکثر مفسرین نے کہا : یہ کاہن لوگ ہیں۔ الشیطنۃ کا لفظ وہ ہے جس کا معنی ہے ایمان اور خیر سے دور ہونا۔ جو کچھ ذکر کیا گیا ہے یہ سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما نحن مستھزءون۔ یعنی ہمیں جس کی طرف بلایا جاتا ہے ہم اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ بعض علماء نے اس کا معنی کیا ہے : ہم تمسخر کرتے ہیں۔ الھزء کا معنی ہے تمسخر کرنا اور دل بہلانا۔ کہا جاتا ہے : ھذء بہ واستھذاً ۔ راجز نے کہا : قد ھذئت منی ام طیسلہ قالت اراہ معدما لا مال لہ ام طیسلہ نے مجھ سے تمسخر کیا۔ اس نے کہا : میں اسے مفلس دیکھتی ہوں، اس کے پاس کوئی مال نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : استہزاء کا معنی انتقام لینا ہے جیسا کہ ایک شاعر نے کہا : قد استھزء وامنھم بالغی مدجج سراتھم وسط الصحاصح جثم انہوں نے ان سے دو ہزار ہتھیار بندوں کے ساتھ انتقام لیا۔ ان کے سردار چٹیل زمین کے درمیان اپنی زمین کو لاز پکڑے ہوئے تھے۔
Top