Al-Qurtubi - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیے جاتا ہے کہ شرارت و سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں
آیت نمبر 15 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ یستھزیء بھم یعنی اللہ تعالیٰ ان سے انتقام لے گا اور انہیں سزا دے گا اور ان سے تمسخر کرے گا اور انہیں ان کے تمسخر کی سزا دے گا۔ سزا کو گناہ کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ جمہور علماء کا قول ہے۔ اور عرب اپنے کلام میں اس قسم کی ترکیب کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ عمرو بن کلثوم کا قول ہے : الا لا یجھلن احد علینا فنجھل فوق جھل الجاھلینا (1) خبردار ! کوئی ہم پر (حملہ کر کے) جہالت کا مظاہرہ نہ کرے ورنہ ہم زمانہ جاہلیت کی جہالت سے زیادہ جہالت کا مظاہرہ کریں گے۔ اس نے اپنے غلبہ کو جہل سے تعبیر کیا۔ حالانکہ کوئی صاحب عقل جہالت پر فخر نہیں کرتا۔ یہ اس نے کلام کو ملانے کے لئے جہل کا لفظ استعمال کیا ہے پس یہ زبان پر خفیف ہوجائے گا حالانکہ اس کے لفظ اور اس کے اس مفہوم کے درمیان مخالفت ہے۔ عرب جب ایک لفظ کو کسی لفظ کے مقابلہ میں جواب اور جزا ذکر کرتے ہیں تو اس لفظ کی مثل ذکر کرتے ہیں، اگرچہ وہ لفظ اس کے معنی کے مخالف ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں قرآن وسنت میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وجزؤا سیئۃ سیئۃ مثلھا (الشوریٰ : 40) اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ اور فرمایا فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدٰی علیکم (البقرہ : 194) تو جو تم پر زیادتی کرے تو تم اس پر زیادتی کرو لیکن اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی ہو۔ جزاء، سیئۃ (برائی) نہیں ہوتی اور قصاص (بدلہ) اعتدا نہیں ہوتا ہے کیونکہ قصاص تو ثابت حق ہوتا ہے۔ اسی طرح فرمایا ومکروا ومکر اللہ (آل عمران : 54) اور یہودیوں نے (مسیح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی) خفیہ تدبیر کی اور (مسیح کو بچانے کے لئے) اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ انھم یکیدون کیدا۔ واکیدا کیداً ۔ (الطارق) یہ لوگ طرح طرح کی تدبیریں کر رہے ہیں اور میں بھی تدبیر فرما رہا ہوں۔ اسی طرح فرمایا : انما نحن مستھزءون۔ اللہ یستھزئ بھم (البقرہ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ مکر ہے نہ استہزاء ہے اور نہ کید ہے بلکہ یہ ان کے مکر اور استہزا کی جزا ہے اور ان کے کید کی جزا ہے۔ اسی طرح فرمایا : یخدعون اللہ وھو خادعھم (النساء : 142) وہ دھوکا دے رہے ہیں اللہ کو اور اللہ تعالیٰ سزا دینے والا ہے انہیں (اس دھوکہ بازی کی) فیسخرون منھم سخر اللہ منھم (التوبہ : 79) تو یہ ان کا بھی مذاق اڑاتے ہیں اللہ تعالیٰ سزا دے گا انہیں اس مذاق کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان اللہ لا یمل حتی تملو (1) ولا یسأم حتی تساموا (2) یعنی اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا حتیٰ کہ تم اکتا جاؤ گے اور وہ ملول نہیں ہوتا حتیٰ کہ تم ملول ہوجاؤ گے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس حدیث میں حتیٰ بمعنی واؤ ہے یعنی اور تم اکتا جاؤ گے۔ بعض علماء نے فرمایا : اور تم اکتا جاؤ گے۔ بعض نے فرمایا : وہ تم سے تمہارے اعمال کا ثواب ختم نہیں کرے گا حتی کہ تم عمل چھوڑ دو گے۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایسے افعال کرے گا جو انسان کے خیال میں استہزا، دھوکہ اور مکر ہوں گے۔ جیسا کہ روایت ہے کہ آگ جم جائے گی جس طرح گھی کا تلچھٹ جم جاتا ہے۔ وہ اس آگ پر چلیں گے اور وہ انہیں نجات گمان کریں گے۔ پھر وہ انہیں دھنسا دے گی (3) ۔ کلبی نے ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا (البقرہ : 14) سے مراد اہل کتاب ہیں، منافق لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا اور ان کے استہزا کا ذکر فرمایا ہے۔ وہ جب اپنے شیطانوں کے پاس جاتے ہیں یعنی کفر کے رؤساء کے پاس جاتے ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ تو کہتے ہیں : ہم تمہارے ساتھ تمہارے دین پر ہیں۔ ہم تو محمد ﷺ کے اصحاب سے تمسخر کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں انہیں اس تمسخر کی سزا دے گا ان کے لئے، جنت سے جہنم کا دروازہ کھولا جائے گا پھر انہیں کہا جائے گا : ادھر آؤ پس وہ آئیں گے تو وہ جہنم میں چلے جائیں گے اور مومنین اپنے پلنگوں پر بیٹھے انہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ جب وہ دروازے پر پہنچیں گے تو اسے بند کردیا جائے گا پھر مومنین انہیں دیکھ کر ہنسیں گے، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی مراد ہے، اللہ یستھزئ بھم۔ یعنی آخرت میں اللہ انہیں اس استہزاء کی سزادے گا جب ان پر دروازے بند ہوں گے تو مومنین ان پر ہنسیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے : فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون۔ علی الارائک ینظرون۔ ) المطففین) یعنی مومنین دوزخیوں کو دیکھ رہے ہوں گے : ھل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون۔ (المطففین) کیوں کچھ بدلہ ملا کفار کو (اپنے کرتوتوں کا) جو وہ کیا کرتے تھے۔ ایک قوم نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور استہزاء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان دنیوی نعمتوں کے ذریعے آہستہ آہستہ دوزخ کی طرف لے جا رہا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لئے دنیا میں احسان ظاہر کرتا ہے جبکہ عذاب آخرت ان سے چھپائے ہوئے ہے۔ پس وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ان پر حتمی عذاب کا فیصلہ کرچکا ہے۔ یہ انسان کی سوچ میں گویا استہزا، مکر اور دھوکہ ہے۔ اس تاویل پر نبی کریم ﷺ کا ارشاد دلالت کرتا ہے : اذا رأیتیم اللہ عزوجل یعطی العبد ما یجب وھو مقیم علی معاصیہ فانما ذلک منہ استدراج۔ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اس کی خواہش کے مطابق عطا فرمایا رہا ہے جبکہ وہ اس کی نافرمانی پر قائم ہے تو یہ اس کی طرف سے استدراج ہے، پھر اس آیت سے یہ مفہوم نکلتا ہے : فلما نسوا ما ذکر وا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شیء حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخذتھم بغتتۃ فاذاھم مبلسون۔ فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العلمین۔ پھر جب انہوں نے بھلا دیں وہ نصیحتیں جو انہیں کی گئی تھیں۔ کھول دئیے ہم نے ان پر دروازے ہر چیز کے یہاں تک کہ جب وہ خوشیاں منانے لگے اس پر جو انہیں دیا گیا تو ہم نے پکڑ لیا انہیں اچانک اب وہ ناامید ہو کر رہ گئے۔ تو کاٹ کر رکھ دی گئی جڑ اس قوم کی جس نے ظلم کیا تھا اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو پروردگار ہے سارے جہاں والوں کا۔ بعض علماء نے سنستدرجھم من حیث لا یعلمون۔ (اعراف) کی تفسیر میں فرمایا : جب وہ کوئی گناہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ایک نعمت عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویمدھم یعنی ان کے لئے مدت لمبی کردیتا ہے اور انہیں مہلت دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا : انما نملی لیزدادوا اثماً (آل عمران :178) (صرف اس لئے ہم انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ وہ اور زیادہ گمراہی کریں) ۔ اس کی اصل زیادت ہے۔ یونس بن حبیب نے کہا : کہا جاتا ہے شر کے لئے مدّ اور خیر کے لئے امد استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وامددنکم باموال وبنین (الاسراء : 6) (اور ہم مسلسل تمہیں دیتے رہیں گے مال اور بیٹوں سے) اور فرمایا : وامددنھم بفاکھۃ ولحم مما یشتھون۔ (الطور :22) (اور ہم مسلسل دیتے رہیں گے انہیں (ایسے) میوے اور گوشت جو وہ پسند کریں گے) ۔ اخفش سے حکایت کیا گیا ہے کہ مددت لہ بو لا جاتا ہے جب تو اسے ترک کر دے اور امددتہ بالا جاتا ہے جو تو اسے عطا کرے۔ فراء اور لحیانی سے مروی ہے کہ مددت اس صورت میں استعمال ہوتا ہے جس کی زیادت اس کی مثل سے ہو۔ کہا جاتا ہے : مد النھر اور قرآن میں ہے والبحر یمدہ من بعدہ سبعۃ بحر (لقمان :27) (اور سمندر سیاہی بن جائے اور اس کے علاوہ سات سمندر) اور امددت اس صورت میں استعمال ہوتا ہے جب اس میں زیادتی اس کے غیر سے ہو جیسے تیرا قول امددت الجیش بمدد میں نے لشکر کی کمک کے ساتھ مدد کی۔ اسی سے ہے : یمددکم ربکم بخمسۃ الف من الملئکۃ (آل عمران :125) (مدد کرے گا تمہاری تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے) وامد الجرح (زخم میں پیپ پڑگئی) کیونکہ پیٹ زخم کے علاوہ ہے یعنی اس میں پیپ پڑگئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فی طغیانھم یعنی کفرو گمراہی میں۔ طفیان کی اصل حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انا لما طغا الماء (الحاقہ : 11) یعنی پانی بلند ہوا اور چڑھ گیا اور فرشتوں نے جو مقدار متعین کی تھی اس سے تجاوز کر گیا اور اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے فرمایا : انہ طغی۔ (طہ) یعنی اس نے دعویٰ میں اسراف کیا کہ جب اس نے کہا : انا ربکم الاعلیٰ ۔ (النازعات) (میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ) ۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لمبی عمر کے ساتھ ڈھیل دی حتیٰ کہ ان کی سرکشی میں اضافہ ہوگیا۔ پس وہ ان کے عذاب میں اضافہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یعمھون مجاہد نے فرمایا : یعنی وہ کفر میں متحیر ہیں اور بھٹک رہے ہیں۔ اہل لغت نے بیان کیا کہ عمہ الرجل یعمہ عموھا وعمھا فھو عمہ وعامہ کا معنی ہے آدمی حیران ہوگیا۔ کہا جاتا ہے : رجل عامہ وعمہ متردد اور حیران شخص۔ اس کی جمع عمہ ہے۔ عرب کہتے ہیں : ذھبت ابلہ العمھی۔ جب معلوم نہ ہو کہ اونٹ کہا چلا گیا۔ العمی آنکھ کے (اندھے پن) کے لئے استعمال ہوتا ہے اور العمہ دل کے اندھے پن کے لئے استعمال ہوتا ہے اور قرآن حکیم میں ہے : فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور۔ (الحج) (حقیقت تو یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں ) ۔
Top