Al-Qurtubi - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں ؟ سن لو کہ یہی بیوقوف ہیں لیکن نہیں جانتے
آیت نمبر 13 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذا قیل لھم، ھم ضمیر سے مراد منافقین ہیں۔ یہ مقاتل وغیرہ کا قول ہے امنوا کما امن الناس یعنی تم بھی محمد ﷺ اور آپ کی شریعت کی تصدیق کرو جیسا کہ مہاجرین نے تصدیق کی اور اہل یثرب میں سے مختلف لوگوں نے تصدیق کی۔ امنوا میں الف قطعی ہے۔ تو کہتا ہے یؤ من، کاف نصب کے مقام پر ہے کیونکہ یہ مصدر محذوف کی صفت ہے یعنی ایمانا کا یمان الناس۔ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے : قالوا انؤمن کما امن السفھاء یعنی اصحاب محمد ﷺ ۔ یہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ منافقین نے السفھاء سے اہل کتاب کے مؤمنین مراد لئے۔ یہ منافقین کا قول ہے۔ وہ پوشیدہ اور استہزاء کے طور پر یہ کہتے تھے : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ اور مومنین کو اس پر آگاہ فرمایا دیا۔ اور ثابت فرمایا کہ بیوقوفی، عقلوں کا نرم ہونا، بصیرت کا فاسد ہونا، ان کی اپنی ذوات میں ہے اور ان کی صفت ہے بتایا کہ یہی بیوقوف ہیں دلوں پر چڑھی ہوئی میل کی وجہ سے جانتے نہیں ہیں، کلبی نے ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ یہود کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی جب یہود کو کہا گیا کہ ایمان لاؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے یعنی عبد اللہ بن سلام اور اس کے ساتھی تو انہوں نے کہا : کیا ہم ایمان لائیں جیسے السفھاء ایمان لائے یعنی جہال اور ناسمجھ۔ کلام عرب میں السفہ کا معنی ہے خفت اور رقت، کہا جاتا ہے۔ ثوب سفیہ جب کپڑے کی بنائی اچھی نہ ہو یا پرانا اور باریک ہو۔ تسفھت الریح الشجر ہوا نے درخت کو جھکا دیا۔ ذوالرمہ نے کہا : مشین کما افتزت رماح تسفھت اعالیھا مر الریاح النواسم وہ عورتیں چلیں جیسے نیزے حرکت کررہے ہوں ہلکی پھلکی ہوا کے چلنے نے ان کے اوپر والے حصوں کو جھکادیا۔ تسفھت الشیء کسی چیز کو حقیر سمجھنا۔ السفہ، حلم (دانشمندی) کی ضد ہے۔ کہا جاتا ہے : ان السفہ ان یکثر الرجل شرب الماء فلا یروی۔ سفاہیت ہے کہ آدمی زیادہ پانی پیے اور سیر نہ ہو۔ السفھاء کے دونوں ہمزوں میں چار وجوہ جائز ہیں۔ عمدہ وجہ یہ ہے کہ پہلے ہمزہ کو ثابت کرے اور دوسرے کو واؤ سے بدل دے۔ یہ اہل مدینہ کی قرأت ہے اور ابو عمر و کی قرأت سے معروف ہے اور اگر تو چاہے تو دونوں میں تخفیف کرے۔ پہلے تو ہمزہ اور واؤ کے درمیان پڑھے اور دوسرے کو خالص واؤ کے ساتھ پڑھے۔ اگر تو چاہے تو پہلے تخفیف کے اور دوسرے کو ثابت رکھے۔ اگر تو چاہے تو دونوں کو ثابت رکھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولکن لا یعلمون یہ ولکن لا یشعرون۔ کی مثل ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ علم، معلوم کی معرفت کو کہتے ہیں جیسا کہ وہ معلوم ہے تو کہتا ہے : علمت الشیء اعلمہ علماً عرفتہ۔ عالمت الرجل فعلمتہ اعلمہ (لام کے ضمہ کے ساتھ) یعنی میں علم کے ساتھ اس پر غالب آیا۔
Top