Al-Qurtubi - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے، اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
آیت نمبر 30 اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے : واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ اس میں سترہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واذ قال ربک للملئکۃ اذ اور اذا دونوں حرف توقیت ہیں اذ ماضی کے لئے ہے اور اذا مستقبل کے لئے ہے کبھی یہ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ المبرد نے کہا : اذ جب مضارع کے ساتھ آئے تو اس کا معنی ماضی ہوتا ہے جیسے واذ یمکربک (الانفال :30) (واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ) اس کا معنی اذ مکروا ہے اور واذ قلت ہے یعنی مضارع کو ماضی کے معنی میں کردیتا ہے اور جب اذا ماضی پر داخل ہو تو اسے مستقبل کے معنی میں کردیتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فاذا جاءت الطامۃ (النازعات :34) فاذا جاءت الصاخۃ۔ (عبس) اذا جاء نصر اللہ (نصر :1) ان سب میں جاء بمعنی یجیی ہوجائے گا۔ معمر بن المثنی ابو عبیدہ نے کہا : اذ زائدہ ہے تقدیر یہ ہے وقال ربک۔ اور اس نے اسود بن یعفر کے قول سے استشہاد کیا ہے۔ فاذ وذالک لا مھاہ لذکرہ والدھر یعقب صالحاً بفسادٍ اس قول کا زجاج، نحاس اور تمام مفسرین نے انکار کیا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ غلطی ہے کیونکہ (اذ) اسم ہے اور یہ ظرف زمان ہے یہ ایسے حروف میں سے نہیں ہے جو زائد کئے جاتے ہیں۔ الزجاج نے کہا : یہ ابو عبیدہ کی طرف سے ایک جرم ہے (1) ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں اور دوسری چیز کی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے۔ تقدیر یوں ہے : وابتداً خلقکم اذ قال۔ تمہاری تخلیق کا آغاز کیا جب اس نے کہا۔ پس یہ اس محذوف سے ہے جس پر کلام دلالت کرتا ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا : فان المنیۃ من یخشھا فسوف تصادفہ اینما موت اس کے لئے بھی ہے جو موت سے ڈرتا ہے موت اسے ملے گی جہاں بھی چلا جائے گا۔ اس شعر میں اینما کے بعد ذھب محذوف ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ (اذ) فعل مقدر کے متعلق ہو۔ تقدیر اس طرح ہو : اذکر اذ قال۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد اعبدوا ربکم الذی خلقکم (البقرہ :21) کی طرف لوٹا یا گیا ہے۔ معنی یہ ہے کہ وہ جس نے تمہیں پیدا کیا جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور خطاب فرشتوں کے لئے ثابت ہے اور ازل سے ہے اس شرط کے ساتھ کہ ان کا وجود بھی ہو اور ان کی سمجھ بھی ہو، یہ مسئلہ تمام اللہ کے اوامر، نواہی اور مخاطبات میں ہے۔ یہ شیخ ابو الحسن اشعری کا قول ہے۔ اس کو ابو المعالی نے پسند کیا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب الاسنیٰ فی شرح اسماء اللہ الحسنیٰ وصفات اللہ العلی میں اس کا ذکر کیا ہے۔ رب مالک، سردار، مصلح اور جابر کے لئے استعمال وہتا ہے اس کا بیان گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے للملئکۃ اس کا واحد ملک ہے۔ ابن کیسان وغیرہ نے کہا : ملک بروزن فعل یہ الملک سے مشتق ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : یہ مفعل کے وزن پر لاک سے مشتق ہے جس کا معنی بھیجنا ہے۔ الالو کۃ، المالکۃ، المألکۃ ان کا معنی پیغام رسانی ہے۔ لبید نے کہا : وغلام ارسلتہ امہ بالوک فبذلنا ما سأل ابلغ النعمان عنی مألکاً اننی قد طال حبسی وانتظاری لڑکے کو اس کی ماں نے پیغام دے کر بھیجا تو ہم نے وہ سب خرچ کیا جو اس نے مانگا۔ کہا جاتا ہے : یہ کہا جاتا ہے : الکنی یعنی مجھے بھیج۔ اس بنا پر اس کی اصل مالک ہوگی ہمزہ، فعل کا فاکلمہ ہے پھر لوگوں نے اسے عین کلمہ سے قلب کردیا اور ملاک پھر تسہیل کی اور کہا : ملک۔ بعض علماء نے کہا : اس کی اصل ملأک ہے اور یہ ملک یملک سے مشتق ہے جسے شمأل، شمل سے مشتق ہے ہمزہ زائدہ ہے۔ یہ ابن کیسان سے بھی مروی ہے شعر میں اصل پر آیا ہے۔ شاعر نے کہا : فلست لانس ولکن لملأک تنزل من جو السماء یصوب تو انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے جو آسمان کی فضا سے اتر ہے جو بارش برساتا ہے۔ نضر بن شمیل نے کہا : عربوں کے ہاں الملک کا اشتقاق نہیں ہے۔ الملائکۃ میں ہا جمع کی تانیث کی تاکید ہے، اس کی مثل صلادمہ ہے اور الصلادم ہے (سخت گھوڑے) اس کا واحد صلدم ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ۃ مبالغہ کے لئے ہے جیسے علامہ اور نسابہ کے آخر میں ۃ مبالغہ کے لئے ہے۔ ارباب معانی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو خطاب فرمایا یہ مشورہ کے لئے نہیں تھا بلکہ ان میں جو حرکات، عبادت، تسبیح اور تقدیس کی رؤیت موجود تھی اس کا ظاہر کرنا تھا۔ پھر فرشتوں کو انسانوں کا جو قیم (باپ) تھا اس کی طرف لوٹا یا اور فرمایا : اسجدوا لادم (اعراف : 11) (آدم کے لئے سجدہ کرو) ۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انی جاعل فی الارض خلیفۃ یہاں جاعل بمعنی خالق ہے یعنی میں پیدا کرنے والا ہوں۔ طبری نے یہ ابوروق سے بیان کیا ہے اسی وجہ سے یہ ایک مفعول کی طرف متعدی ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ الارض سے مراد بعض علماء نے فرمایا : مکہ ہے۔ ابن سابط نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : زمین مکہ سے پھیلائی گئی اسی وجہ سے مکہ کو ام القریٰ کہا جاتا ہے۔ فرمایا : حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کی قبور زمزم، رکن اور مقام کے درمیان ہیں اور خلیفۃ کبھی فاعل کے معنی میں ہوتا ہے یعنی جو زمین میں ان سے پہلے فرشتوں میں تھے ان کے پیچھے آنے والا ہے، جیسا کہ مروی ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خلیفہ مفعول کے معنی میں ہو یعنی پیچھے لایا گیا جیسے ذبیحۃ بمعنی مفعولۃ (مذبوحۃ) استعمال ہوتا ہے۔ الخلف لام کے فتحہ کے ساتھ ہو تو نیکوکاروں میں سے جو پیچھے آئے اور لام کے سکون کے ساتھ ہو تو بروں میں جو پیچھے آئے، یہ معروف ہے۔ مزید بیان انشاء اللہ سورة اعراف میں آئے گا۔ خلیفۃ فاء کے ساتھ قراء کی قراءت ہے مگر حضرت زید بن علی سے مروی ہے کہ اس نے خلیفۃ قاف کے ساتھ پڑھا ہے، یہاں خلیفہ سے مراد حضرت ابن مسعود، ابن عباس اور تمام اہل تاویل کے نزدیک حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں وہی اللہ تعالیٰ کے احکام اور اوامرنافذ کرنے میں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں کیونکہ وہی زمین کی طرف پہلے رسول ہیں جیسا کہ حضرت ابو ذر کی حدیث میں ہے، انہوں نے کہا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا آدم (علیہ السلام) نبی مرسل تھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ اور یہ کہا جاتا ہے وہ کس کے لئے رسول تھے جبکہ زمین میں کوئی شخص تھا ہی نہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی طرف رسول تھے، آپ کی اولاد چالیس تھی جو بیس بطنوں میں پیدا ہوئے تھے، ہر بطن میں جوڑا جوڑا پیدا ہوا، پھر ان کے بچے پیدا ہوئے حتیٰ کہ بہت سے لوگ ہوگئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالاً کثیراً ونساءً (النساء :1) (پیدا فرمایا تمہیں ایک جان سے اور پیدا فرمایا اسی سے جوڑا اس کا اور ان کا دونوں سے مرد کثیر تعداد میں اور عورتیں (کثیر تعداد میں) ان پر اللہ تعالیٰ نے مردار، خون اور جنزیر کے گوشت کی تحریم نازل کی تھی اور آدم علہ السلام نو سوتیس سال زندہ رہے تھے۔ اہل تورات نے اسی طرح ذکر کیا ہے۔ حضرت وہب بن منبہ سے مروی ہے کہ وہ ہزار سال زندہ رہے تھے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 4: یہ آیت امام اور خلیفہ قائم کرنے میں اصل ہے ایسا خلیفہ اور امام جس کی بات سنی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے تاکہ اس کے ساتھ کلمہ مجتمع رہے اور اس کے ساتھ خلیفہ کے احکام نافذ ہوں۔ امام اور خلیفہ کے وجوب کے متعلق امت کے ائمہ کا کوئی اختلاف نہیں مگر وہ قول جو اصم (بہرہ) سے مروی ہے یہ شریعت سے بھی اصم (بہرہ) تھا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے اصم جیسا قول کیا اور اس کی رائے اور اس کے مذہب کی پیروی کی وہ شریعت میں (بہرہ) ہے۔ اصم کا قول ہے کہ دین میں خلیفہ واجب نہیں ہے بلکہ جائز ہے، جبکہ لوگ اپنا حج اور جہاد قائم کرتے ہوں، اپنے آپ میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوں اور حق کو اپنی طرف سے ادا کرتے ہوں، مال غنیمت، مال نے اور صدقات وغیرہ ان کے اہل اور مستحق لوگوں میں تقسیم کرتے ہوں اور جن لوگوں پر حدود واجب ہوں ان پر حدود جاری کرتے ہوں تو یہ ان کے لئے کافی ہے ان پر امام متعین کرنا واجب نہیں ہے جو ان تمام امور کا والی ہو۔ ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : انی جاعل فی الارض خلیفۃ (میں مقرر کرنے والا ہوں زمین میں ایک نائب) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یداؤد انا جعلنک خلیفۃ فی الارض (ص :26) (اے داؤد ہم نے مقرر کیا ہے آپ کو نائب زمین میں) اور فرمایا : وعد اللہ الذین امنوا منکم و عملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض (النور : 55) (وعدہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور نیک عمل کئے کہ وہ ضرور خلیفہ بنائے گا انہیں زمین میں ) ۔ یہ تمام آیات اور ان کے علاوہ آیات ہمارے دلائل ہیں۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین وانصار کے درمیان خلیفہ کے تعین میں اختلاف واقع ہونے کے بعد سیدنا صدیق اکبر کی تقدیم پر صحابہ کا اجماع ہوا حتیٰ کہ انصار نے کہا : ایک امیر ہمارا ہوگا ایک امیر تمہارا ہوگا، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور مہاجرین نے ان کی طرف سے یہ قول قبول نہ کیا۔ مہاجرین نے انہیں کیا : عرب صرف قریش میں سے صرف اس قبیلہ کی پیروی و اطاعت کریں گے اور مہاجرین نے انصار کے لئے حدیث بھی روایت کی، تو انصار نے اپنے قول سے رجوع کرلیا اور قریش کی اطاعت کی۔ اگر امامت کا فریضہ واجب نہ ہوتا نہ قریش میں نہ کسی دوسرے قبیلہ میں تو یہ مناظرہ اور تلخ گفتگو جائز نہ ہوتی، اور کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ خلافت کا امر واجب نہیں ہے نہ قریش میں اور نہ کسی دوسرے قبیلہ میں، تمہارے جھگڑنے کی کیا وجہ ہے ؟ اس امر میں لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں جو واجب نہیں ہے، پھر سیدنا صدیق اکبر ؓ کے وصال کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے حضرت عمر کو امامت کا عہدہ دیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ امر ہم پر اور تم پر واجب نہیں ہے۔ پس یہ خلافت کے وجوب کی دلیل ہے اور یہ دین کے ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کا قوام اور اجتماع ہے۔ رافضیوں نے کہا : خلیفہ کا قائم کرنا عقلاً واجب ہے اور نقلی دلائل، عقلی تقاضا کی تاکید کی بنا پر وارد ہیں اور رہی امام کی معرفت یہ نقل کی جہت سے پائی گئی ہے نہ کہ عقل کے تقاضا سے۔ یہ قول فاسد ہے کیونکہ عقل نہ کسی چیز کو ثابت کرسکتی ہے نہ منع کرسکتی ہے نہ اسے برا کہہ سکتی ہے۔ اس کی تحسین کرسکتی ہے، جب معاملہ اس طرح ہے تو ثابت ہوا کہ یہ شرع کی طرف سے واجب ہے نہ کہ عقل کی جہت سے۔ یہ واضح ہے۔ مسئلہ نمبر 5: جب یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ امامت کے وجوب کا طریق نقلی دلائل ہیں تو ہمیں بتاؤ کہ امام کی معرفت رسول اللہ ﷺ کی جہت سے نصوص کے ذریعے واجب ہے یا اہل حل وعقد کے اختیار کی طرف سے ہے یا اس شخص میں ائمہ کے خصال کے کمال کی وجہ سے ہے اور اس کا اپنی طرف سے دعویٰ کرنا کافی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ امامیہ وغیرہ کا نظریہ یہ ہے کہ امام کی معرفت کا راستہ صرف رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نص ہے، اس میں اختیار کا کوئی دخل نہیں، اور ہمارے نزدیک امام کی معرفت کا طریق غوروفکر اور اہل اجتہاد کا اجماع بھی اس کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ امام کی معرفت کا ذریعہ صرف نص ہے انہوں نے اپنے اس نظریہ کی بنیاد اپنے اصول پر رکھی ہے کہ قیاس، رائے اور اجتہاد باطل ہے اس کے ذریعے کسی چیز کی پہچان نہیں ہوتی۔ انہوں نے قیاس کو اصلاً اور فرعاً باطل قرار دیا ہے۔ پھر تین فرقوں کا اختلاف ہوا۔ ایک فرقہ دعویٰ کرتا ہے کہ نص حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت پر ہے، دوسرا گروہ دعویٰ کرتا ہے کہ نص حضرت عباس ؓ کی خلافت پر ہے اور تیسرا گروہ دعویٰ کرتا ہے کہ نص حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی خلافت پر ہے۔ کسی معین امام پر نص کے مفقود ہونے پر دلیل یہ کہ نبی کریم ﷺ اگر امت پر کسی معین امام کی طاعت کو اس طرح فرض کردیتے کہ اس سے عدول جائز نہ ہوتا تو آپ بتا دیتے کیونکہ غیر معین امام میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی پوری امت کو تکلیف دینا محال ہے اور ان کے لئے اس تکلیف کے علم کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جب علم واجب ہو تو پھر اس علم کی یہ صورتیں ہیں یا تو عقلی دلائل سے ہوگا یا خبر سے ہوگا۔ عقلی دلائل ایسے نہیں جو کسی شخص معین کی امامت کے ثبوت پر دلالت کریں اور خبر میں بھی کوئی ایسی خبر نہیں جو کسی معین امام کے ثبوت کے علم کو ثابت کرے کیونکہ وہ یا تو متواتر ہوگی جو علم ضروری یا استدلالی کو ثابت کرے گی یا خبر اخبار احاد میں سے ہوگی۔ اس کا طریق تواتر ہونا جائز نہیں جو علم ضروری یا علم استدلالی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہر مکلف اس معین کی اطاعت کے وجوب کا علم رکھتا اور اس کے دین سے ہوتا جیسا کہ ہر مکلف کو علم ہے کہ اللہ کے دین سے اس پر پانچ نمازیں، رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج واجب ہے لیکن معین خلیفہ کی طاعت کو ضرورۃً کوئی بھی نہیں جانتا تو یہ دعویٰ باطل ہوا اور اخبار احاد کے ساتھ معلوم ہونا بھی باطل ہے کیونکہ اس کے ساتھ علم کا وقوع محال ہے۔ اگر امام پر نص کی نقل کا رجوع واجب ہو کہ خواہ نص کیسی بھی ہو تو حضرت ابوبکر اور حضرت عباس ؓ کی امامت کا اثبات واجب ہوتا کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک قوم اس کی امامت پر صریح نص نقل کرتی ہے، جب نص کے ذریعے ایک وقت میں تینوں کا اثبات باطل ہے۔۔۔۔ جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔۔۔۔ اسی طرح ایک کا اثبات بھی باطل ہے، کیونکہ کوئی گروہ نص کی وجہ سے دوسرے سے اولیٰ نہیں ہے، جب نص کا ثبوت عدم طریق کی وجہ سے باطل ہوگیا تو اختیار اور اجتہاد ثابت ہوگیا۔ اگر کوئی ہٹ دھرم ہٹ دھری کرے اور نص کے ساتھ علم ضروری اور تواتر کا دعویٰ کرے تو اسے فوراً ان لوگوں کے دعویٰ کی نقیض پیش کرنی چاہئے جو حضرت ابوبکر کے بارے نص کے دعویدار ہیں انہیں ان اخبار کا مقابلہ پیش کرنا چاہئے جو اس سے زیادہ ہیں کہ وہ نص کے قائم مقام ہوجاتی ہیں۔ پھر امامیہ فرقہ کے علاوہ نص کی نفی میں لوگوں کی پختہ رائے میں شک نہیں، اور یہ نظریہ خلق کثیر کا اور جم غفیر کا ہے اور علم ضروری ایسا علم ہوتا ہے جس کی نفی پر وہ افراد اجتماع نہیں کرسکتے جن کی تعداد امام کے مخالفین کی تعداد کے دسویں حصہ سے کم ہوں۔ اگر علم ضروری کا اس طرح ناجائز ہوتا تو ایک گروہ کا بغداد اور چین کا انکار کرنا جائز ہوتا۔ مسئلہ نمبر 6: یہ ان احادیث کے رد میں ہے جن سے امامیہ فرقہ نے حضرت علی ؓ کی خلافت کے بارے میں نص ہونے پر حجت پکڑی ہے۔ 1۔ وہ کہتے ہیں : امت اس نص کے انکار کی وجہ سے کافر ہوگئی اور مرتد ہوگئی اس نے عناد کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے امر کی مخالفت کی ہے۔ ان نصوص میں سے ایک یہ ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : من کنت مولاہ فعل مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ (1) ۔ وہ کہتے ہیں : اس حدیث میں مولیٰ کا لفظ آیا ہے۔ لغت میں مولیٰ بمعنی اولیٰ ہے۔ جب آپ ﷺ نے فرمایا : فعلی مولاہ فاء تعقیب کے ساتھ ذکر فرمایا ہے تو معلوم ہوا کہ مولیٰ سے مراد یہ ہے کہ وہ زیادہ حقدار اور زیادہ مستحق ہیں۔ پس اس سے آپ کی امامت مراد ہونا ثابت ہوا۔ اور حضرت علی کی طاعت فرض ہے۔ دوسرا ارشاد بنی کریم ﷺ نے حضرت علی کو فرمایا : انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعد (2) ۔ تو میرے نزدیک اس طرح ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ہارون تھے لیکن میرے بعد نبی نہیں ہے۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں : حضرت ہارون (علیہ السلام) کا مقام و مرتبہ معروف ہے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نبوت میں شریک تھے جبکہ حضرت علی کے لئے نبوت تو نہیں ہے۔ حضرت ہارون، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی تھے حضرت علی،حضور ﷺ کے بھائی بھی نہیں تھے۔ حضرت ہارون، موسیٰ (علیہ السلام) کے خلیفہ تھے تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد خلافت ہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اہل تشیع کے دلائل ہیں جن سے انہوں نے حجت پکڑی ہے، ان دلائل کا ذکر انشاء اللہ اس کتاب میں آئندہ آئے گا۔ پہلی حدیث کا جواب یہ ہے کہ وہ حدیث متواتر نہیں ہے، اس کی صحت میں اختلاف ہے۔ ابو داؤد سبحستانی اور ابو حاتم رازی نے اس کی سند پر جرح کی ہے۔ ان دونوں حضرات نے اس کے بطلان پر نبی کریم ﷺ کے ارشاد سے استدلال کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مزینہ وجھینہ و غفار ومسلم موالی دون الناس کلھم لیس لھم مولی دون اللہ ورسولہ (1) مزینہ، جہینہ، غفار اور اسلم قبائل میرے موالی ہیں دوسرے تمام لوگوں کو چھوڑ کر، ان کا اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی مولیٰ نہیں ہے۔ ہمارے یہ علماء کہتے ہیں : اگر من کنت مولاہ فعلی مولاہ بھی فرمایا ہے تو ان دونوں خبروں میں سے ایک خبر جھوٹی ہوگی۔ دوسرا جواب : یہ ہے کہ خبر اگر صحیح ہو، ثقہ راوی نے ثقہ سے روایت کیا ہو تو پھر بھی اس میں حضرت علی ؓ کی خلافت پر دلیل نہیں۔ یہ حضرت علی ؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے وہ اس طرح کہ المولی بمعنی الولی ہو، خبر کا معنی یہ ہوگا : من کنت ولیہ فعلی ولیہ۔ (میں جس کا ولی ہوں، علی اس کا ولی ہے ) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فان اللہ ھو مولہ (التحریم : 4) یعنی اللہ تعالیٰ اس کا ولی ہے، اس حدیث سے مقصود لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ حضرت علی ؓ کا ظاہر، ان کے باطن کی طرح ہے۔ یہ حضرت علی ؓ کی عظیم فضیلت ہے۔ تیسرا جواب : یہ ہے کہ یہ خبر ایک خاص سبب پر وارد ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت اسامہ اور حضرت علی ؓ کا جھگڑا ہوا۔ حضرت علی نے حضرت اسامہ سے کہا : انت مولائ (تو میرا غلام ہے) حضرت اسامہ نے کہا : لست مولاک بل انا مولیٰ رسول اللہ ﷺ میں تمہارا غلام نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کا گلام ہوں۔ پس یہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ (2) جس کا میں مولی ہوں، علی اس کا مولیٰ ہے۔ چوتھا جواب : حضرت علی ؓ نے جب حضرت عائشہ ؓ کی تہمت کے واقعہ میں نبی کریم ﷺ سے کہا تھا حضور ! اس کے علاوہ عورتیں بہت ہیں (3) ۔ یہ بات حضرت عائشہ پر شاق گزری، منافقین کو موقع مل گیا، انہوں نے حضرت علی پر طعن کیا اور ان سے برأت کا اظہار کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ایسے لوگوں کی بات کا رد کر کے اور انہوں نے حضرت علی سے برأت اور ان پر طعن کیا تھا اس کو جھٹلاتے ہوئے یہ فرمایا : اسی وجہ سے صحابہ کی جماعت سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں منافقین کو حضرت علی کے بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے (1) ۔ رہی دوسری حدیث تو نبی کریم ﷺ نے بمنزلہ ہارون من موسیٰ سے خلافت مراد نہیں لی کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا وصال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد خلیفہ نہ تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون تھے، اگر انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ سے مراد خلافت ہوتی تو آپ فرماتے : انت منی بمنزلۃ یوشع من موسیٰ ۔ جب آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تو یہ دلیل ہے کہ خلافت مراد نہیں۔ آپ ﷺ نے یہ مراد لیا کہ میں اپنی زندگی اور عدم موجودگی میں اپنے اہل پر خلیفہ بناؤں گا جیسا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ان کی قوم پر خلیفہ تھے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے مناجات کے لئے نکلے تھے۔ یہ کہا گیا ہے کہ یہ حدیث ایک سبب خاص پر ارشاد فرمائی۔ وہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ جب غزوہ تبوک کی طرف تشریف لے گئے تو مدینہ طیبہ میں حضرت علی ؓ کو خلیفہ بنایا۔ منافقین نے یہ افواہ پھیلائی کہ آپ ﷺ نے اسے بغض اور ناراضگی کی بنا پر خلیفہ بنایا ہے۔ حضرت علی ؓ ، نبی کریم ﷺ سے ملے اور عرض کی کہ منافقین ایسا ایسا کہہ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : انہوں نے جھوٹ بولا ہے بلکہ میں نے تجھے اسی طرح اپنا خلیفہ بنایا ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کو خلیفہ بنایا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ ۔ (2) (کیا تجھے پسند نہیں کہ تو میری طرف سے ایسا ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے ہارون (علیہ السلام) تھے ) ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ آپ نے خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا تھا تو پھر حضرت علی ؓ کے ساتھ دوسرے کئی صحابہ بھی اس فضیلت میں شریک ہوجائیں گے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ہر غزوہ میں جاتے وقت کسی نہ کسی صحابی کو اپنا خلیفہ بنایا۔ ان میں سے ابن ام مکتوم اور محمد بن سلمہ وغیرہما صحابہ ہیں۔ اس خبر کا مدار حضرت سعد بن ابی وقاص پر ہے اور یہ خبر واحد ہے، اس کے مقابلہ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے لئے روایات مروی ہیں جو اس سے اولیٰ ہیں۔ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجا تو آپ ﷺ سے عرض کی گئی : حضور ! ابوبکر اور عمر کو کیوں نہیں بھیجا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ان دونوں سے استغناء نہیں کیونکہ ان کا میرے نزدیک اسی طرح مقام ہے جس طرح سر کے لئے کانوں اور آنکھوں کا ہے۔ فرمایا : وہ اہل زمین میں میرے وزیر ہیں۔ یہ بھی مروی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر اور عمر اسی طرح ہیں جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قریب حضرت ہارون کا مرتبہ تھا (3) ۔ یہ خبر ابتداءً وارد ہوئی ہے اور حضرت علی کی خبر ایک سبب پر وارد ہوئی۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر حضرت علی ؓ کی نسبت امامت کے زیادہ حق دار ہیں۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 7: اس میں اختلاف ہے کہ امام، امام کیسے ہوگا۔ اس کے تین طرق ہیں : 1۔ نص : اس کے متعلق اختلاف گزر چکا ہے۔ حنابلہ، اہل حدیث کی ایک جماعت حضرت حسن بصری، بکر بن اخت عبد الواحد، اس کے ساتھ اور خوارج کی ایک جماعت کا یہی نظریہ ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر کی خلافت پر اشارہ کے ساتھ نص فرمائی اور حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی خلافت پر نص فرمائی۔ جب خلیفہ بنانے والا کسی ایک شخص کی خلافت پر نص قائم کر دے جیسا کہ حضرت صدیق اکبر نے حضرت عمر کی خلافت پر نص قائم کی تھی یا کسی جماعت کے سپرد یہ کام کر دے جس طرح حضرت عمر نے کیا تھا تو یہ امام ہونے کا دوسرا طریقہ ہے، اور اس جماعت میں سے ایک کے چننے کا اختیار اس جماعت کے سپرد ہوگا جیسا کہ صحابہ کرام نے حضرت عثمان کی تعیین میں کیا تھا۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کے متعلق اہل حل وعقد کا اجماع ہوجائے۔ وہ اس طرح ہے مسلمانوں کے کسی شہر میں ایک جماعت ہو جب ان کا امام فوت ہوجائے اور ان کا امام نہ ہو اور نہ مرنے والے نے کسی کو خلیفہ بنایا، پھر جس شہر میں وہ امام موجود تھا اس شہر والے اپنے لئے کسی کو امام بنا دیں اس پر اجماع ہوجائے اور وہ لوگ اس سے خوش ہوں تو آفاق میں آگے پیچھے جہاں بھی مسلمان موجود ہیں ان کو اس امام کی طاعت میں داخل ہونا واجب ہے جبکہ وہ امام اعلانیہ فسق و فساد کرنے والا نہ ہو کیونکہ یہ دعوت ان کو محیط ہے اس کا قبول کرنا واجب ہے کسی کو اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ دو اماموں کے قائم کرنے میں کلمہ کا اختلاف ہے اور واضح فساد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزوں کی وجہ سے مومن کے دل میں کھوٹ اور نفاق نہیں ہوتا : (1) اللہ تعالیٰ کے لئے عمل میں اخلاص۔ 2۔ جماعت لزوم۔ 3۔ اپنے حکمرانوں سے خلوص کا اظہار کیونکہ مسلمانوں کی دعوت ان کے ذریعے محفوظ ہے۔ مسئلہ نمبر 8: اگر ایک شخص اہل حل وعقد میں سے کسی کو خلیفہ نامزد کر دے تو وہ ثابت ہوجائے گا اور دوسروں پر اس کو تسلیم کرنا لازم ہوجائے گا لیکن بعض لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : یہ خلیفہ نامزد اہل حل وعقد میں سے ایک جماعت کرے گی۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر کی بیعت کی تو کسی صحابی نے اس کا انکار نہ کیا، چونکہ یہ بھی ایک عقد ہے اس لئے کسی تعداد کی ضرورت نہیں جو اس کو منعقد کریں جس طرح کہ دوسری عقود ہیں۔ امام ابو المعالی نے کہا : جس کے لئے ایک شخص کے عقد کے ساتھ امامت منعقد ہوجائے تو امامت لازم ہوجائے گی، بغیر حدث اور تغیر امر کے اس کو معزول کرنا جائز نہیں۔ انہوں نے فرمایا : اس پر اجماع ہے۔ مسئلہ نمبر 9: اگر کوئی ایسا شخص عہدہ امامت پر غلبہ کرلے جس کو امامت کی اہلیت ہو اور وہ امامت قہر اور غلبہ سے حاصل کرلے تو کہا گیا ہے کہ یہ امامت کا چوتھا طریقہ ہے۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری سے پوچھا گیا : ہم پر اس شخص کے لئے کیا واجب ہے جو ہمارے شہروں پر غلبہ حاصل کرلے جبکہ وہ امام ہو ؟ حضرت عبد اللہ نے فرمایا : تم اس کو تسلیم کرو اور اپنے حق میں سے جو وہ مطالبہ کرے اسے ادا کرو اور اس کے افعال کا انکار کرو اور اس سے مت بھاگو۔ جب اس نے تجھے امر دین میں سے کسی راز کا امین بنایا ہے تو تم اسے افشا نہ کرو۔ ابن خویز منداد نے کہا : جو شخص خود بخود تخت خلافت پر کود پڑے جبکہ وہ خلافت کی صلاحیت رکھتا ہو جبکہ اس نے نہ کسی سے مشورہ کیا ہو، نہ اسے اختیار کیا گیا ہو اور لوگوں نے اس کی بیعت کرلی ہو تو اس کے لئے بیعت مکمل ہوگئی ہے۔ مسئلہ نمبر 10: امامت کی عقد پر شہادت میں اختلاف ہے۔ ہمارے بعض علماء نے کہا : گواہوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ شہادت تو قطعی نقلی دلیل کے ساتھ ثابت ہوتی ہے۔ یہاں کوئی قطعی نقلی دلیل نہیں ہے جو شہادت کے اثبات پر دلالت کرے۔ بعض علماء نے فرمایا : گواہوں کی ضرورت ہے۔ جس نے یہ کہا ہے انہوں نے اس طرح حجت پکڑی ہے کہ اگر امر امامت پر شہادت منعقد نہ ہوگی تو ہر شخص یہ دعویٰ کر دے گا کہ سراً اس کی امامت قائم ہوئی ہے اور یہ چیز فتنہ اور جنگ تک پہنچا دے گی۔ پس ثابت ہوا کہ شہادت معتبر ہے اس میں دو گواہ کافی ہیں، جبکہ جبائی کا قول اس کے مخالف ہے۔ اس نے کہا : چار گواہ ایک امام بنانے والا اور ایک امام بننے والا ہو کیونکہ حضرت عمر نے چھ آدمیوں کو مشورہ سونپا تھا۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ہمارے درمیان اور اس کے درمیان اختلاف نہیں ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی معتبر ہے اور جو زائد ہیں ان میں اختلاف ہے اور زیادتی پر کوئی دلیل قائم نہیں ہے۔ پس زیادتی کا اعتبار نہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر 11: امام کی شرائط۔ یہ گیا رہ ہیں : 1۔ امام کا تعلق قریش کے خاندان سے ہو کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : الائمۃ من قریش (1) (قریش میں سے ائمہ ہوں گے) اس میں اختلاف ہے۔ 2۔ وہ مسلمانوں کا قاضی بننے کی صلاحیت رکھتا ہو، اجتہاد کرنے والا ہو اور اسے حوادث میں دوسروں سے استفتاء کی ضرورت نہ ہو۔ یہ متفق علیہ ہے۔ 3۔ وہ دانشمند اور صاحب رائے ہو، جنگی امور، لشکروں کی تدبیر، سرحدوں کی حفاظت، ملت اسلامیہ کی حمایت، امت کو انتشار سے روکنے، ظالم سے انتقام لینے اور مظلوم کو اپنا حق دلانے کی قدرت رکھتا ہو۔ 4۔ وہ ایسا شخص ہو کہ حدود قائم کرنے میں اسے رقت لا حق نہ ہو اور گردنوں کو اڑانے اور جسم کو کاٹنے سے مت گھبرائے۔ ان سب پر دلیل صحابہ کرام کا اجماع ہے کیونکہ ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ یہ صفات اس شخص میں جمع ہوں کیونکہ یہ شخص قاضیوں اور دوسرے حکمرانوں کا والی ہوتا ہے اور اس کے خود فیصلہ کرنے اور حکم کرنے کی صلاحیت بھی ہو، خلفاء کے امور اور قاضیوں کے فیصلوں کی چھان بین کرسکتا ہو اور یہ امور صرف وہی بجا لا سکتا ہے جو عالم ہو اور علم میں پختہ ہو۔ 5۔ 6 : وہ آزاد ہو۔ امام کے آزاد ہونے اور اس کے مسلمان ہونے کی شرط میں کوئی خفا نہیں، اس کا مسلمان ہونا یہ چھٹی شرط ہے۔ 7۔ 8 : وہ مذکر ہو۔ اس کے اعضاء سلامت ہوں۔ اس پر اجماع ہے کہ عورت کا امام ہونا جائز نہیں اگرچہ اس کے قاضی ہونے کے جواز میں اختلاف ہے ان امور میں جس میں عورت کی شہادت جائز ہے۔ 9۔ 10 : وہ عاقل، بالغ ہو۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔ 11 : وہ عادل ہو کیونکہ امت میں کوئی اختلاف نہیں کہ فاسق کے لئے امت کی ذمہ داری جائز نہیں۔ ضروری ہے کہ وہ علم میں لوگوں سے افضل ہو کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : تمہارے ائمہ تمہارے سفارشی ہیں۔ غور کرو کس سے سفارش طلب کر رہے ہو (1) ۔ قرآن حکیم میں حضرت طالوت (علیہ السلام) کے وصف میں فرمایا : ان اللہ اصطفہ علیکم وزادہ بسطۃ فی العلم والجسم (البقرہ :247) (بےشک اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے اسے تمہارے مقابلہ میں اور زیادہ دی ہے کشادگی علم میں اور جسم میں ) ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے علم کا ذکر کیا ہے پھر اس چیز کا ذکر فرمایا جو قوت اور اعضاء کی سلامتی پر دلالت کرتی ہے۔ اصطفہ کا معنی ہے : اس نے اسے چن لیا۔ یہ نسب کی شرط پر دلیل ہے، اس کی شرائط میں گناہوں اور خطا سے معصوم ہونا نہیں ہے نہ اس کا عالم بالغیب ہونا ضروری ہے نہ اس کا افراد امت میں سب سے زیادہ بہادر اور گھوڑ سواری میں ماہر ہونا شرائط میں سے ہے اس کا صرف بنی ہاشم سے ہونا بھی شرط نہیں ہے کیونکہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی امامت پر اجماع ہے حالانکہ وہ بنی ہاشم میں سے نہ تھے۔ مسئلہ نمبر 12: فاضل کے ہوتے ہوئے فتنہ کے خوف سے مفضول کو امام بنانا جائز ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ امت کا امر درست نہ ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے تاکہ دشمن سے دفاع کرے، ملت بیضاء کی حمایت کرے، خلل کو رو کے اور حقوق ادا کرے، حدود کو قائم کرے، بیت المال کے لئے مال جمع کرے اور اسے مستحق لوگوں پر تقسیم کرے۔ جب افضل شخص کو مقرر کرنے پر جنگ، فساد اور ان امور کے ضیاع کا خوف ہو جن کے لئے امام مقرر کیا جاتا ہے تو یہ فاضل سے مفضول کی طرف عدول کرنے کا ظاہر عذر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر اور ساری امت کو مشورہ کے وقت معلوم تھا کہ ان چھ افراد میں فاضل اور منضول موجود تھے۔ حضرت عمر نے ان میں سے ہر ایک کے لئے اس ذمہ داری کی اجازت دی تھی جب مصلحت اس کا تقاضا کرتی تھی اس پر امت کا اجماع ہوا تھا کسی نے انکار نہیں کیا تھا۔ مسئلہ نمبر 13: جب امام مقرر کیا جائے پھر تقرر کے بعد فاسق ہوجائے تو جمہور علماء کا قول ہے کہ اس کی امامت ختم ہوجائے گی اور ظاہر معلوم فسق کی وجہ سے وہ معزول کردیا جائے گا کیونکہ یہ ثابت ہے کہ امام حدود کو قائم کرنے، حقوق ادا کرنے، یتیموں اور مجنونوں کے مال کی حفاظت کرنے اور ان دوسرے امور کی نگرانی کے لئے مقرر کیا جاتا ہے جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اور جس شخص میں فسق ہوگا وہ ان امور کو قائم نہیں کرسکے گا، ان کے قیام سے عاجز ہوگا۔ اگر ہم فاسق کی امامت جائز قرار دیں تو ان امور کا ابطال لازم آئے گا جن کے لئے اسے مقرر کیا جاتا ہے جن کے لئے وہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی ہوگا۔ دوسرے علماء نے فرمایا : امام معزول نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ کفر کرے یا نماز کا پڑھنا ترک کر دے یا نماز کی طرف بلانا ترک کر دے یا شریعت کا کوئی امر ترک کر دے کیونکہ حدیث عبادہ میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :“ ہم امامت میں اس کے اہل لوگوں سے نہیں جھگڑیں گے۔ فرمایا : مگر یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا ظاہر کفر دیکھو جس میں دلیل ہو ” (1) ۔ اور حضرت عوف بن مالک کی حدیث میں ہے اس وقت تک نہیں جب تک وہ تم میں نماز کو قائم کریں (2) ۔ ان دونوں حدیثوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ حضرت ام سلمہ سے مروی ہے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم پر امراء بنائے جائیں گے۔ جس نے ناپسند کیا وہ بری ہوگیا جس نے انکار کیا وہ سلامت ہوگیا لیکن جو ان سے راضی ہوا اور ان کی پیروی کی۔۔۔۔ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں۔ یعنی جس نے دل سے ناپسند کیا اور دل سے انکار کیا (3) ، اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 14: جب امام اپنے آپ میں ایسا نقص پائے جو اس کی امامت میں موثر ہوتا ہو تو اسے معزول ہوجانا واجب ہے، اور جب ایسا نقص نہ پائے تو کیا اس کو معزول ہونا چاہئے اور کسی غیر کی بیعت کر لینی چاہئے اس میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کی امامت ختم نہ ہوگی۔ بعض نے فرمایا : اسے معزول ہوجانا چاہئے۔ اس پر دلیل کہ امام جب اپنے آپ کو معزول کرے گا تو معزول ہوجائے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا قول اقیلونی اقیلونی، “ مجھ سے بیعت واپس لے لو۔۔۔۔ مجھ سے بیعت واپس لے لو ”۔ اور صحابہ نے کہا : ہم نہ تجھ سے بیعت واپس لیتے ہیں نہ ہم اس کا مطالبہ کرتے ہیں تجھے رسول اللہ ﷺ نے ہمارے دین کے لئے مقدم کیا تھا۔ پس کس کی مجال کہ تجھے ہٹائے۔ تجھ سے رسول اللہ ﷺ ہمارے دین کے لئے راضی ہوئے تو ہم آپ سے راضی نہ ہوں گے۔ اگر حضرت ابوبکر کے لئے ایسا کرنا جائز نہ ہوتا تو صحابہ کرام اس کا انکار کرتے اور حضرت ابوبکر سے کہتے تجھے یہ کہنا درست نہیں اور آپ کے لئے ایسا کرنا صحیح نہیں۔ جب صحابہ کرام اس پر قائم رہے تو معلوم ہوا کہ امام کے لئے ایسا کرنا جائز ہے چونکہ امام دوسروں کی نگرانی کرنے والا ہوتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس کا حکم حاکم کا حکم ہوا، اور وکیل جب اپنے آپ کو معزول کرسکتا ہے امام بھی امت کا وکیل اور اس کا نائب ہوتا ہے۔ جب وکیل، حاکم اور ہر نائب کے بارے میں اتفاق ہے کہ وہ اپنے آپ کو معزول کرسکتا ہے تو امام بھی اسی طرح ہوتا ہے اس کا بھی اس کی مثل ہونا واجب ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 15: جب ارباب حل وعقد کے اتفاق سے یا ایک آدمی کے ذریعے کسی امام کی امامت منعقد ہوجائے تو تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ حکم سننے اور اطاعت کرنے، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی اقامت پر بیعت کریں اور جو کسی عذر کی بناء پر بیعت سے انکار کرے تو اس کا عذر قبول کیا جائے گا اور جو بغیر عذر کے انکار کرے تو اس پر جبر کیا جائے گا، تاکہ مسلمانوں کی جمعیت کا شیرازہ بکھر نہ جائے۔ جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو پہلا خلیفہ ہوگا اور دوسرا قتل کیا جائے گا۔ اس کے قتل میں اختلاف ہے کیا یہ قتل۔۔۔۔ ہے یا معنی ہے۔ پس اس کا معزول کرنا اس کا قتل اور اس کی موت ہے۔ پہلا معنی ظاہر ہے (یعنی اسے قتل کیا جائے گا) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو (1) ۔ اس حدیث کو حضرت ابو سعید خدری نے روایت کیا ہے اور مسلم نے نقل کی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو کی حدیث میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جو ایک امام کی بیعت کرلے، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دے اور دل کا خلوص پیش کر دے تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہئے اگر اسے استطاعت ہے۔ اگر کوئی دوسرا امام آجائے تو وہ اس سے لڑے اور دوسرے امام کی گردن اتار دے (2) اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ حضرت عرفحہ کی حدیث میں ہے، اس کو تلوار سے مارو خواہ کوئی بھی ہو (3) ۔ یہ دو امام مقرار نہ ہونے پر بڑی واضح دلیل ہے کیونکہ یہ چیز نفاق، مخالفت، انتشار، فتنوں کے ظہور اور نعمتوں کے زوال کا باعث بنتی ہے لیکن اگر قطر بہت دور ہوں اور علاقے جدا جدا ہوں جیسے اندلس اور خراسان تو پھر ہر علاقہ کے لئے علیحدہ امام جائز ہے جیسا کہ مزید بیان آئندہ آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 16: اگر کوئی شخص عادل امام کے خلاف خروج کرے تو لوگوں پر اس سے جنگ کرنا واجب ہے۔ اگر امام فاسق ہو اور خروج کرنے والا عدل کو ظاہر کرنے والا ہو پھر بھی لوگوں کو مناسب نہیں کہ وہ اس خروج کرنے والے کی نصرت میں جلدی کریں حتیٰ کہ جو وہ وعدل ظاہر کرتا ہے وہ واضح ہوجائے یا پہلے امام کے معزول کرنے پر سارے لوگ متفق ہوجائیں۔ یہ اس لئے کہ ہر شخص جو اس قسم کا معاملہ طلب کرتا ہے وہ اپنی طرف سے صلاح کا نعرہ لگاتا ہے حتیٰ کہ جب غالب آجاتا ہے تو پھر اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آتا ہے جو اس کے ظاہری صلاح کے خلاف ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 17: ایک زمانہ میں اور ایک شہر (ملک) میں دو یا تین اماموں کا قیام بالکل جائز نہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ امام ابو المعالی نے کہا : ہمارے اصحاب عالم کی دونوں طرفوں میں دو شخصوں کی امامت کی ذمہ داری کے عدم جواز کا نظریہ رکھتے ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا : اگر دو شخصوں کے لئے امامت کی عقد پر اتفاق ہوجائے تو یہ اس کے قائم مقام ہوگا کہ ایک عورت کے دو ولیوں نے دو خاوندوں سے نکاح کردیا جبکہ ہر ایک کو دوسرے عقد کا شعور نہ تھا۔ فرمایا : میرے نزدیک اس میں یہ ہے کہ دو شخصوں کے لئے امامت کی عقد قریبی علاقوں میں تو جائز نہیں اس پر اجماع ہے ہاں جب دونوں اماموں کے درمیان بہت زیادہ دوری ہو تو پھر اس میں احتمال کی گنجائش ہے۔ استاذ ابو اسحاق نے ان دو سلطنتوں میں دو اماموں کا تقرر جائز قرار دیا جو ایک دوسرے سے بہت دور ہوں تاکہ لوگوں کے حقوق اور احکام معطل نہ ہوں۔ کر امیہ فرقہ بغیر تفصیل کے دو امام مقرر کرنے کا نظریہ رکھتے ہیں۔ انہیں پھر ایک شہر میں بھی اس کی اجازت دینا لازم آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں : حضرت علی ؓ اور حضرت امیر معاویہ دونوں امام تھے۔ انہوں نے کہا : جب دو شہروں یا دو طرفوں میں دو امام ہوں گے تو ہر ایک اپنے علاقہ کے معاملات پر زیادہ کنٹرول کرے گا اور اس کے معاملات زیادہ نگرانی سے چلائے گا۔ دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب ایک زمانہ میں دو نبیوں کی بعثت جائز ہے اور یہ چیز نبوت کے ابطال تک نہیں پہنچاتی تو امامت بدرجہ اولیٰ جائز ہوگی اور یہ چیز امامت کے ابطال تک نہیں پہنچائے گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جائز ہوتا اگر اس سے شرع نے منع نہ کیا ہوتا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فاقتلوا لا۔۔۔ منھما۔ (1) “ دونوں اماموں میں سے جو دوسرا ہے اسے قتل کردو ”۔ امت کا اتفاق اسی پر رہا ہے۔ حضرت معاویہ ؓ کا مسئلہ انہوں نے اپنے لئے امامت کا دعویٰ نہیں کیا تھا وہ شام کی ولایت کے مدعی تھے کہ پہلے ائمہ نے انہیں شام کی حکمرانی دی تھی۔ اس پر دلیل ان کے دور میں ائمہ کا اجماع ہے کہ امام ایک ہے، ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں امام ہوں اور میرا مخالف بھی امام ہے۔ اگر وہ کہیں عقل اسے محال قرار نہیں دیتی اور نقل میں کوئی چیز اس سے مانع نہیں تو ہم کہیں گے : نقلی دلائل میں سے قوی ترین دلیل اجماع ہے اور وہ اس کے منع کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ ملائکہ وہی کچھ جانتے ہیں جو انہیں بتایا گیا، اور وہ اللہ تعالیٰ کے قول سے سبقت نہیں لے جاتے اور یہ تمام ملائکہ کے بارے میں ہے کیونکہ لا یسبقونہ بالقول (الانبیاء :27) کا ارشاد ان کی مدح کے لئے ذکر کیا گیا ہے، پھر انہوں نے کیسے کہا اتجعل فیھا من یفسد فیھا اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے جب انہوں نے خلیفہ کا لفظ سنا تو وہ سمجھے کہ بنی آدم میں کچھ لوگ فساد کریں گے کیونکہ خلیفہ کا مقصود اصلاح اور ترک الفساد ہوتا ہے لیکن انہوں نے تمام لوگوں پر معصیت کا حکم لگا دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ان میں سے بعض فساد کریں گے اور بعض فساد نہیں کریں گے۔ پس ان کے دلوں کو خوش کرنے کے لئے فرمایا : انی اعلم اور اس چیز کو ثابت فرمایا کہ اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اسماء کا علم سکھایا اور ان کے لئے اپنے پوشیدہ علم سے پردہ اٹھایا۔ بعض علماء نے فرمایا : ملائکہ نے دیکھا اور جان لیا تھا جو کچھ جنوں نے فساد برپا کیا تھا اور خونریزی کی تھی۔ یہ اس طرح ہے کہ زمین میں آدم کی تخلیق سے پہلے جن رہتے تھے، انہوں نے فساد کیا اور خونریزی کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ابلیس کو ملائکہ کے لشکر میں بھیجا۔ پس اس نے انہیں قتل کیا اور بعض کو سمندروں اور پہاڑوں پر بھگا دیا۔ پس اس وقت شیطان کو عزت ملی تو فرشتوں نے محض استفہام کی جہت سے اتجعل فیھا کہا۔ کیا یہ خلیفہ پہلے جنوں کے طریقہ پر ہوگا یا نہیں ؟ یہ احمد بن یحییٰ ثعلب کا قول ہے۔ ابن زید وغیرہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ خلیفہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے کچھ لوگ زمین میں فساد کریں گے اور خون ریزی کریں گے تو انہوں نے یہ قول کیا (2) ۔ انہوں نے یا تو گنہگار کو خلیفہ بنانے پر تعجب کرتے ہوئے یہ سوال کیا یا اس اعتبار سے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین میں خلیفہ بنا رہا ہے اور جس پر یہ انعام کیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا۔ بڑی تعجب کی بات ہے یا اس کام کو بہت بڑا سمجھتے ہوئے یہ سوال کیا کہ اسے خلافت بھی ملے گی اور وہ نافرمان بھی ہوگا۔ حضرت قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ جب وہ زمین میں مخلوق پیدا کرے گا تو وہ فساد برپا کریں گے اور خونریزی کریں گے۔ انہوں نے یہ سوال کیا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انی جاعل فی الارض خلیفۃ، کیا یہ وہی ہے جس کے متعلق انہیں بتایا یا کوئی اور ہے۔ یہ قول بہتر ہے یہ عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔ فرمایا : ہمیں معمر نے قتادہ سے روایت کر کے اتجعل فیھا من یفسد فیھا کی تفسیر میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ زمین میں جب مخلوق ہوگی تو وہ اس میں فساد برپا کرے گی اور خون ریزی کرے گی۔ اسی وجہ سے انہوں نے اتجعل فیھا من یفسد فیھا کلام میں ان کے مذہب پر حذف ہے معنی یہ ہے کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں جو ایسا ایسا کرے گا تو فرشتوں نے کہا : کیا زمین میں تو اسے خلیفہ بنانے والا ہے جس کے بارے میں ہمیں بتایا تھا یا کوئی اور ہے۔ پہلا قول بہت بہتر ہے کیونکہ اس میں علم کا استخراج اور استنباط الفاظ کے مقتضیٰ سے ہے اور یہ نہیں ہو سکتا مگر علماء سے جوان دونوں اقوال کے درمیان حسن ہے۔ اس میں غوروفکر کر۔۔۔۔۔ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے سوال کرنا کہ تم نے میرے بندوں کو کیسے چھوڑا (1) ۔۔۔۔ جیسا کہ مسلم وغیرہ میں ثابت ہے۔۔۔۔۔ یہ تو ان کی توبیخ کرنے کے لئے ہے جنہوں نے کہا تھا : اتجعل فیھا، اور اپنی ازلی معلومات کا اظہار ہے کیونکہ انہیں فرمایا انی اعلم ما لا تعلمون (بےشک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے من یفسد فیھا، من تجعل کا مفعول ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے اور فیھا دوسرے مفعول کے قائم مقام ہے۔ یفسد لفظ کے اعتبار سے ہے غیر قرآن میں معنی کے اعتبار سے یفسدون بھی جائز ہے۔ قرآن حکیم میں ہے : ومنھم من یستمع الیک (الانعام :25) یہ لفظ کے اعتبار سے ہے معنی کے اعتبار سے یستمعون ہے۔ (ویسفک) یہ معطوف ہے اس میں دو وجہیں جائز ہیں۔ اسید نے اعرج سے روایت کیا کہا انہوں نے ویسفک الدماء، پڑھا ہے یعنی مضارع کو منصوب پڑھا ہے اور واو کے ساتھ اسے استفہام کا جواب بنایا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : الم اک جارکم وتکون بینی وبینکم المودۃ والاخاء کیا میں تمہارا پڑوسی نہ تھا اور میرے اور تمہارے درمیان محبت وبھائی چارہ نہ تھا۔ السفک کا معنی انڈیلنا (بہانا) ہے سفکت الدم اسف کہ سفکاً ۔ میں نے خون کو بہایا اسی طرح آنسو بہانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ابن الفارس اور جوہری کا قول ہے۔ السفاک، کا معنی السفاح ہے جو کلام پر قادر ہو۔ مہدوی نے کہا : السفک صرف خون بہانے کے لئے استعمال ہوتا ہے کبھی کلام کی نثر کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : سفک الکلام جب وہ کلام کرے۔ الدماء کا مفرد دم ہے، لام کلمہ محذوف ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کی اصل دمی ہے۔ بعض نے فرمایا : دمی ہے اور کوئی اسم دو حرفوں پر نہیں آتا مگر اس سے حرف حذف کیا گیا ہوتا ہے۔ دم سے محذوف یا ہے اور کبھی اصل پر بھی بولا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا : فلو أنا علی حجر ذبحنا جری الدمیان بالخبر الیقین اگر ہم اس پتھر پر ہوتے تو ہم ذبح کئے جاتے، یقیناً دونوں طرف سے خون جاری ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ونحن نسبح بحمدک (یعنی ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں ) ۔ ان صفات سے جو تیری شان کے لائق نہیں، السبیح کا معنی تعظیم کے طور پر ہر نقص سے پاکیزگی بیان کرنا ہے۔ اسی سے اعشی کا قول ہے : اقول لما جاء فی فخرہ سبحان من علقمہ الفاخر میں کہتا ہوں : جب میرے پاس اس کا فخر آیا، میں علقمہ فخر کرنے والے سے برأت کرتا ہوں۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے مروی ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سبحان اللہ کی تفسیر پوچھی تو آ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی ہر نقص اور عیب سے پاکیزگی بیان کرنا، یہ السبح سے مشتق ہے جس کا معنی چلنا اور جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان لک فی النھار سبحا طویلاً ۔ (المزمل) (بےشک دن میں مصروفیت ہے) پس سبحان اللہ کہنے والا اللہ کی ہر نقص اور عیب سے پاکیزگی بیان کرنے میں چلنے والا ہے نحن میں کلام گزر چکی ہے نون کو نون میں ادغام کرنا جائز نہیں تاکہ دو ساکن جمع نہ ہوں۔ مسئلہ : اہل تاویل کا فرشتوں کی تسبیح میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس نے فرمایا : فرشتوں کی تسبیح ان کی نماز ہے (1) ، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلولا انہ کان من المسبحین۔ (الصافات) یعنی اگر وہ نمازیوں میں سے نہ ہوتا۔ بعض علماء نے فرمایا : ان کی تسبیح، ذکر کے ساتھ آواز کو بلند کرنا ہے۔ مفضل نے یہی کہا ہے اور جریر کے قول سے استشہاد کیا ہے۔ قبح الا لہ وجوہ تغلب کلما سبح الحجیج وکبروا اھلالا تغلب کے چہروں کو اللہ تعالیٰ نے قبیح کیا جب حاجیوں نے بلند آواز سے ذکر کیا اور تلبیہ کہا۔ حضرت قتادہ نے کہا : ان کی تسبیح سبحان اللہ ہے (2) عرف کے مطابق لغت میں یہ صحیح ہے کیونکہ حضرت ابو ذر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا کلام افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جو ملائکہ کے لئے چنا ہے (یا اپنے بندوں کے لئے چنا ہے) سبحان اللہ وبحمدہ، اس کو مسلم نے نقل کیا ہے (3) ۔ حضرت عبد الرحمن بن قرط سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جس رات سیر کرائی گئی آپ نے اوپر والے آسمانوں میں یہ تسبیح سنی : سبحان العلی الا علی سبحانہ وتعالیٰ ۔ اس کو بیہقی نے ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بحمدک یعنی ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کو ملاتے ہیں۔ الحمد کا معنی ثنا (تعریف) ہے پہلے گزر چکا ہے، یہ بھی احتمال ہے کہ بحمدک دو کلاموں کے درمیان جملہ معترضہ ہو۔ گویا انہوں نے کہا : ہم تیری تسبیح و تقدیس بیان کرتے ہیں پھر تسلیم کی جہت پر معترض کلام ذکر کی یعنی تو اس کی طرف ہدایت میں محمود ہے (4) ۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ونقدس لک یعنی ہم تیری تعظیم کرتے ہیں اور ہم تیری بزرگی بیان کرتے ہیں اور ہم تیرے ذکر کو ان خرافات سے پاک کرتے ہیں جو ملحد تیرے بارے میں کہتے ہیں۔ یہ مجاہد اور ابو صالح وغیرہما کا قول ہے۔ ضحاک وغیرہ نے کہا : ہم تیری رضا چاہتے ہوئے اپنے نفسوں کو تیرے لئے پاک کرتے ہیں۔ بعض علماء نے کہا جن میں قتادہ بھی ہیں : نقدس لک اس کا معنی ہے ہم نماز پڑھتے ہیں اور التقدیس کا معنی نماز ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ ضعیف ہے (1) ۔ میں کہتا ہوں بلکہ اس کا معنی صحیح ہے کیونکہ نماز تعظیم، تقدیس اور تسبیح پر مشتمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ رکوع اور سجود میں کہتے تھے : سبوح قدوس رب الملائکہ والروح۔ (2) یہ حضرت عائشہ نے روایت کی ہے اور مسلم نے نقل کی ہے۔ قدس کی بنا پر جیسے بھی بنائی جائے اس کا معنی پاک کرنا ہی ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ادخلوا الارض المقدسۃ (المائدہ : 21) یعنی پاک زمین پر داخل ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الملک القدوس (الحشر :23) یعنی طاہر۔ اس کی مثل ہے بالواد المقدس طوی۔ (النازعات) بیت المقدس کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ مکان ہے جس میں انسان گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے لوٹے کو قدس کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے وضو کیا جاتا ہے اور طہارت حاصل کی جاتی ہے۔ اسی سے القادوس ہے۔ حدیث پاک میں ہے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو پاک نہیں فرمایا جو ضعیف کے لئے قوی سے مواخذہ نہیں کرتی (3) ۔ ابن ماجہ نے اسے سنن میں نقل کیا ہے۔ القدس پاکیزگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ شاعر کا قول ہے : فادرکنہ یا خذن بالسا والنسا کما شبرق الولدان ثوب المقدس کتوں نے بیل کو پنڈلیوں اور رانوں سے اس طرح پکڑ لیا ہے جیسے نصاریٰ کے بچے اپنے راہب کے کپڑوں کو تبرک کے لئے کاٹ لیتے ہیں۔ نماز بندے کو گناہوں سے پاک کرنے والی ہے، نمازی نماز میں اکمل حالات میں داخل ہوتا ہے نماز افضل عمل ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انی اعلم مالا تعلمون، اعلم میں دو تاویلیں ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ فعل مضارع ہے۔ بعض نے فرمایا : اسم بمعنی فاعل ہے جیسے کہا جاتا ہے : اللہ اکبر بمعنی کبیر جیسا کہ شاعر نے بھی کہا ہے : لعمرک ما ادری وانی لاوجل علی أینا تعدو المنیۃ اول تیری عمر کی قسم ! میں نہیں جانتا اور مجھے خوف ہے موت ہم میں سے کس پر پہلے آتی ہے۔ اگر اعلم فعل ہو تو ما اعلم کی وجہ سے محل نصب میں ہوگا اور میم کا میم میں ادغام بھی جائز ہے، اگر تو اسے عالم کے معنی میں اسم بنائے تو (ما) اضافت کی وجہ سے محل جر میں ہوگا۔ ابن عطیہ نے کہا : نحویوں کے اجماع کی وجہ سے اس کو منصرف بنانا صحیح نہیں۔ اختلاف افعل میں ہے جب اس کے ساتھ نام رکھا جائے اور یہ نکرہ ہو۔ سیبویہ اور خلیل اس کو غیر منصرف بناتے ہیں اخفش اسے منصرف بناتا ہے (1) ۔ مہدوی نے کہا : اعلم میں تنوین مقدر کرنا جائز ہے جب تو اسے عالم کے معنی میں مقدر کرے، اور ما کو اس کی وجہ سے نصب ہوگی۔ یہ حواج بیت اللہ کی مثل ہوگا۔ جوہری نے کہا : نسوۃ حواج بیت اللہ اضافت کے ساتھ جب وہ حج کریں اور اگر وہ حج نہ کریں تو تو کہے گا حواج بیت اللہ۔ بیت کو تو نصب دے گا کیونکہ حواج میں تنوین کا ارادہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مالا تعلمون اس ارشاد کی تاویل میں علماء تاویل کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : ابلیس (لعنۃ اللہ علیہ) نے غرور کیا اور اس میں تکبر داخل ہوا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان کا خازن بنایا اور اسے عزت بخشی تو وہ دل میں اعتقاد رکھنے لگا کہ اسے فضیلت حاصل ہے (2) ۔ اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف سے معصیت اور کفر کو حقیر جانا۔ فرشتوں نے کہا : ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک فرشتے نہیں جانتے تھے کہ ابلیس کے نفس میں اس کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : انی اعلم ما لا تعلمون قتادہ نے کہا : جب فرشتوں نے کہا : اتجعل فیھا اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ جن کو وہ خلیفہ بنا رہا ہے ان میں انبیاء، فضلاء اور طاعت شعار بھی ہیں تو فرمایا : انی اعلم ما لا تعلمون۔ (3) میں کہتا ہوں : اس معنی کا بھی احتمال ہے میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے، اس میں سے جو پہلے ہوچکا ہے اور جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا۔ یہ عام ہے۔
Top