Al-Qurtubi - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اس نے آدم کو (سب چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا اگر سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ
آیت نمبر 31 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعلم ادم الاسماء کلھا، علم بمعنی عرف (پہچان کرانا) ہے اور یہاں تعلیم سے مراد اپنا علم ضروری الہام کرنا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ علم فرشتے جبریل کے واسطہ سے ہو جیسا کہ آگے آئے گا۔ اس کو علم مجہول کا صیغہ بھی پڑھا گیا ہے۔ پہلا لفظ زیادہ ظاہر ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ علماء صوفیہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کے تعلیم حق دینے کے ساتھ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ان اسماء کو جانا اور اللہ تعالیٰ کے یاد کرانے کے ساتھ انہوں نے یاد کیا اور جو اللہ تعالیٰ نے آدم سے عہد کیا تھا وہ بھول گئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس میں ان کے نفس کے سپرد کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولقد عھدنا الی ادم من قبل فنسی ولم نجد لہ عزماً ۔ (طہٰ ) اور ہم نے حکم دیا تھا آدم کو اس سے پہلے (کہ وہ اس درخت کے قریب نہ جائے) سو وہ بھول گیا اور نہ پایا ہم نے (اس لغزش میں) اس کا کوئی قصد۔ ابن عطا نے کہا : اگر حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے ان اسماء کا علم منکشف نہ کیا جاتا تو ملائکہ کی نسبت حضرت آدم (علیہ السلام) خبر دینے سے زیادہ عاجز ہوتے۔ یہ واضح ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی کنیت ابو البشر ہے۔ بعض نے فرمایا : ابو محمد ہے، حضرت محمد ﷺ کی کنیت خاتم الانبیاء بیان کی جاتی ہے یہ سہیلی کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جنت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی کنیت ابو محمد تھی، زمین میں ابو البشر تھی، اس کی اصل دو ہمزوں کے ساتھ ہے (أأدم) کیونکہ یہ افعل کے وزن پر ہے مگر دوسرے ہمزہ کو لین کردیا، جب اس کو حرکت دینے کی طرف تو حجت پکڑے گا تو تو اسے واؤ بناوے گا تو جمع میں او ادم کہے گا کیونکہ یاء میں اس کی اصل معروف نہیں ہے عام طور پر اس میں واو رکھی جاتی ہے یہ اخفش سے مروی ہے۔ اس کے مادہ اشتقاق میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ ادمۃ الارض وادیمھا سے مشتق ہے جس کا معنی زمین کی سطح ہے، انسان اس سے پیدا ہوا اسی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ الادمۃ سے مشتق ہے، جس کا معنی گندمی رنگ ہے۔ الادمۃ میں اختلاف ہے۔ ضحاک نے کہا : اس سے مراد گندمی رنگ ہے۔ نضر نے کہا : یہ سفید رنگ ہے آدم (علیہ السلام) سفید تھے اور یہ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے ناقۃٌ دماء، جب اونٹنی سفید ہو۔ اس اشتقاق پر اس کی جمع ادمٌ اور اوادم ہوگی جیسے حمر اور احامر ہے، کسی بھی طرح منصرف نہیں اور الادمۃ سے مشتق ہو تو اس کی جمع ادمون ہوگی۔ اس قول والوں پر اس کو منصرف بنانا لازم ہوگا۔ میں کہتا ہوں : صحیح یہ ہے کہ یہ ادیم الارض سے مشتق ہے۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا : آدم کو آدم اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ زمین کی سطح سے پیدا کیا گیا ہے انسان کو انسان اس لئے کہا جاتا ہے کہ کیونکہ یہ بھولا تھا۔ ابن سعد نے اسے طبقات میں ذکر کیا ہے۔ سدمی نے ابو مالک سے اور ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، مرہ الہمدانی نے حضرت ابن مسعود سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے قصہ میں روایت کیا ہے، فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جبریل (علیہ السلام) کو زمین کی طرف بھیجا تاکہ اس کی مٹی لے آئے۔ زمین نے کہا : میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ سے کچھ کمی کرے یا مجھے عیب لگائے۔ جبریل واپس آگئے اور مٹی نہ لے آئے۔ جبریل نے عرض کی : یا اللہ ! اس نے تیری پناہ مانگی تو میں نے اسے پناہ دے دی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میکائیل کو بھیجا۔ زمین نے اس سے بھی پناہ چاہی تو انہوں نے پناہ دے دی۔ وہ بھی واپس آگئے اور اسی طرح کہا جس طرح جبریل نے کہا۔ پھر ملک الموت کو بھیجا۔ زمین نے اس سے پناہ مانگی تو ملک الموت نے کہا : میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں واپس جاؤں اور اس کا امر نافذ نہ کروں پس ملک الموت نے زمین کی سطح سے مٹی لی اور اسے مختلف جگہوں سے لیا کسی ایک جگہ سے نہ لیا، سرخ، سفید اور سیاہ مٹی سے لیا، اسی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کی اولاد کے رنگ مختلف ہیں۔ اسی وجہ سے آدم کو آدم کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کی سطح سے لئے گئے تھے (1) ۔ ملک الموت مٹی لے کر اوپر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا : تجھے رحم نہ آیا جب زمین نے تیری بارگاہ میں تضرع وزاری کی۔ فرمایا : میں نے تیرا معاملہ اس کے قول سے زیادہ سخت دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو آدم کی اولاد کی ارواح قبض کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پھر مٹی کو تر کیا حتیٰ کہ وہ لیس دار مٹی بن گئی، الازب اس مٹی کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے، پھر اس مٹی کو چھوڑ دیا گیا حتیٰ کہ اس میں بدبو پیدا ہوگئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : من حما مسنون۔ (ص) فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سجدین۔ (الحجر) (میں پیدا کرنے والا ہوں بشر کو کیچڑ سے پس جب میں اس کو سنوادوں اور پھونک ماروں اس میں اپنی (طرف سے خاص) روح تو تم گر پڑنا اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے) ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دست قدرت سے پیدا فرمایا تاکہ ابلیس ان پر بڑائی نہ جتلائے۔ فرمایا : کیا تو اس پر بڑائی جتلاتا ہے جسے میں نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے اور میں اس کی وجہ سے فخر نہیں کرتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بشر بنایا، وہ جمعہ کے دن کی مقدار سے چالیس سال تک مٹی کا جسم رہا۔ پھر ملائکہ اس کے پاس سے گزرے تو وہ اس سے ڈر گئے، جب انہوں نے اسے دیکھا سب سے زیادہ ڈرنے والا ابلیس تھا وہ اس کے پاس سے گزرتا تھا تو اسے مارتا تھا، جسم سے آواز پیدا ہوتی تھی جس طرح ٹھیکری سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے فرمایا : من صلصال کالفخار۔ (الرحمٰن) شیطان کہتا : اللہ تعالیٰ نے اسے کس امر کے لئے پیدا کیا ہے ابلیس اس آدم کے ڈھانچہ کے منہ سے داخل ہوتا اور اس کی دبر سے نکل جاتا۔ ابلیس نے ملائکہ سے کہا : اس سے مت ڈرو یہ کھوکھلا ہے۔ اگر مجھے اس پر مسلط کیا گیا تو میں اسے ہلاک کر دوں گا۔ کہا جاتا ہے : ابلیس جب فرشتوں کے ساتھ آدم کے ڈھانچہ کے پاس سے گزرتا تو کہتا : کیا تم نے ملاحظہ کیا اسے جس کے مشابہہ تم نے کوئی مخلوق نہیں دیکھی۔ اگر اسے تم پر فضیلت دی جائے اور تمہیں اس کی اطاعت کا حکم دیا جائے تو تم ایسا کرو گے ؟ فرشتوں نے کہا : ہم اپنے رب کے حکم کی اطاعت کریں گے۔ ابلیس نے اپنے دل میں سوچا اگر اسے مجھ پر فضیلت دی گئی تو میں اس کی اطاعت نہیں کروں گا۔ اگر مجھے اس پر فضیلت دی گئی تو میں اسے ہلاک کردوں گا۔ جب وہ وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے آدم میں روح پھونکنے کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے کہا : جب میں اس میں اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے لئے سجدہ کرنا۔ جب اس میں روح پھونکی گئی اور روح آدم کے سر میں داخل ہوئی تو آدم نے چھینک ماری۔ فرشتوں نے اسے کہا : تم کہو الحمد للہ، آدم نے کہا : الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رحمک ربک (تیرا رب تجھ پر رحم فرمائے) جب روح آدم (علیہ السلام) کی آنکھوں میں پہنچی تو آدم (علیہ السلام) نے جنت کے پھلوں کو دیکھا۔ جب روح آدم کے پیٹ میں داخل ہوئی تو آدم کو کھانے کا شوق ہوا۔ پس وہ روح کے قدموں تک پہنچنے سے پہلے جلدی کرتے ہوئے جنت کے پھلوں کی طرف لپکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا خلق الانسان من عجل (الانبیاء : 37) فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون۔ الا ابلیس ابی ان یکون مع السجدین۔ (الحجر) (پس سر بسجود ہوگئے فرشتے سارے کے سارے سوائے ابلیس کے اس نے انکار کیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو) ۔ ترمذی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اسی (مٹی کی) مٹھی سے پیدا فرمایا جو اس نے تمام زمین سے بھری تھی، پس بنو آدم زمین کی قدر پر پیدا ہوئے، بعض سرخ، بعض سفید اور بعض سیاہ پیدا ہوئے اور بعض گندمی رنگ پیدا ہوئے، کچھ نرم مزاج، کچھ سخت مزاج، کچھ خبیث اور کچھ نیک۔ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے (1) ۔ ادیم جمع ہے آدم کی۔ شاعر نے کہا : الناس اخیاف وشتی فی الشیم وکلھم یجعھم وجہ الادم لوگ مختلف رنگوں میں ہیں اور خصائل میں بھی مختلف ہیں، سب کو زمین کی سطح جمع کرتی ہے۔ پس آدم، ادیم اور الأدم سے مشتق ہے نہ کہ الادمۃ سے مشتق ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔ ہو سکتا ہے دونوں سے مشتق ہو، اس مسئلہ کی مزید وضاحت تخلیق آدم کے قصہ میں سورة انعام میں آئے گی۔ ادم، یہ غیر منصرف ہے، ابو جعفر نحاس نے کہا : ادم معرفہ ہونے کی صورت میں غیر منصرف ہے اس پر نحویوں کا اجماع ہے کیونکہ افعل کے وزن پر یہ معرفہ ہے اور بصریوں کے نزدیک اس کو منصرف ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں مگر دو علتیں، اگر تو اسے نکرہ بنا دے اور یہ نعت نہ ہو۔ خلیل اور سیبویہ اسے غیر منصرف بناتے ہیں۔ اخفش سعید اسے منصرف بناتا ہے کہ یہ نعت ہے اور یہ فعل کے وزن پر ہے اگر نعت نہ ہو تو منصرف ہوگا۔ ابو اسحاق زجاج نے کہا : قول تو سیبویہ کا ہے۔ وہ نعت اور غیر میں فرق نہیں کرتے، کیونکہ یہ بعینہ وہی ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ نے فرمایا الأسماء کلھا، الاسماء سے یہاں مراد عبارات ہیں۔ کبھی اسم بولا جاتا ہے اور مراد مسمیٰ ہوتا ہے جیسے تیرا قول یدٌ قائم۔ الاسد شجاعٌ۔ کبھی نام سے مراد ذات ہوتی ہے جیسے تیرا قول اسد کے تین حرف میں پہلی صورت میں اسم بولا گیا ہے مراد مسمّی ہے، دوسری صورت میں مسمی مراد نہیں ہوتا کبھی لغت میں ذات کے قائم مقام عبارت ہوتی ہے اس طرح کا استعمال اکثر ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعلم ادم الاسماء کلھا یہ مشہور تاویلات پر ہے۔ اسی سے نبی کریم ﷺ کا قول ان اللہ تسعۃ وتسعین اسماً ۔ (2) کبھی یہ ذات کے قائم مقام ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : ذات، نفس، عین اسمٌ یہ سب ہم معنی ہیں۔ اکثر اہل علم نے سبح اسم ربک الاعلیٰ ۔ (الاعلیٰ ) اور تبرک اسم ربک (الرحمٰن : 78) اور ان ھی الا اسماء سمیتموھا (النجم :23) میں اسم کو ذات پر محمول کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: وہ اسماء جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سکھائے ان کے معنی میں اہل تاویل نے اختلاف کیا ہے۔ حضرات ابن عباس، عکرمہ، قتادہ، مجاہد، ابن جبیر نے کہا : علمہ اسماء جمیع الاشیاء کلھا جلیلھا وحقیرھا۔ (3) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام بڑی چھوٹی اشیاء کے اسماء سکھا دئیے۔ لوگوں نے برتنوں کے نام اور کوڑے کے نام کا ذکر کیا تو حضرت ابن عباس نے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے تمام چیزوں کے اسماء سکھائے۔ میں کہتا ہوں : یہ معنی مرفوع حدیث میں بھی مروی ہے اور لفظ کلھا بھی اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ کلھا یہ احاطہ اور عموم کے لئے وضع کیا گیا ہے، بخاری میں حضرت انس کی حدیث ہے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مومنین قیامت کے روز جمع ہوں گے اور کہیں گے : اگر ہم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سفارش طلب کریں۔ پس لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور انہیں کہیں گے : انت ابو الناس خلقک اللہ بیدہ واسجدلک ملائکتہ وعلمک اسماء کل شیءٍ ، آپ لوگوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا، تیرے سامنے ملائکہ کو سجدہ کرا یا، تجھے ہر چیز کا نام سکھایا (1) ۔ الحدیث۔ ابن خویز منداد نے کہا : اس آیت میں دلیل ہے کہ لغت توقیفی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام اور تفصیلی اسماء سکھائے۔ اسی طرح حضرت ابن عباس نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ہر چیز کا نام بتایا حتیٰ کہ پیالے اور دودھ دوھنے کے برتن کا نام بھی بتایا۔ شیبان نے حضرت قتادہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنی مخلوق کے اسماء بتائے جبکہ ملائکہ کو نہ بتائے۔ چیز کا نام بتایا اور ہر چیز کی منفعت اس کی جنس کی طرف پھیری۔ نحاس نے کہا : یہ کچھ اس باب کے متعلق مروی ہے اس میں سے بہتر یہی قول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اجناس کے اسماء بھی سکھائے اور ان کے منافق بھی بتائیے۔ یہ چیز اس طرح اور یہ اس کام کے لئے ہے۔ طبری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو فرشتوں کے اسماء اور ان کو اپنی اولاد کے اسماء سکھائے۔ طبری نے اس قول کو پسند کیا ہے اور اس قول کی وجہ سے اسے ترجیح دی ہے : ثم عرضھم علی الملئکۃ۔ ابن زید نے کہا : حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کے اسماء سکھائے۔ ربیع بن خثیم نے کہا : خاص فرشتوں کے اسماء سکھائے۔ قتبی نے کہا : جو کچھ زمین میں پیدا فرمایا ان کے اسماء سکھائے۔ بعض علماء نے فرمایا : اجناس اور انواع کے اسماء سکھائے (2) میں کہتا ہوں : پہلا قول زیادہ صحیح ہے جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ ذکر کریں گے۔ مسئلہ نمبر 4: اہل تاویل کا اختلاف ہے کہ کیا ملائکہ پر اشخاص کے نام پیش کئے تھے یا صرف اسماء پیش کئے تھے بغیر اشخاص کے۔ حضرت ابن مسعود وغیرہ نے فرمایا : اشخاص کو پیش کیا گیا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : عرضھم (انہیں پیش کیا) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : انبئونی باسماء ھؤلاء (ان کے اسماء بتاؤ) عرب کہتے ہیں : عرضت الشیء فاعرض میں نے چیز کو ظاہر کیا تو وہ ظاہر ہوگئی۔ اسی سے ہے عرضت الشیء للبیع میں نے چیز کو بیع کے لئے پیش کیا۔ حدیث پاک میں ہے : انہ عرضھم امثال الذر انہوں نے چیونٹیوں کی مثال میں پیش کیا (3) ۔ حضرت ابن عباس وغیرہ نے فرمایا : اسماء کو پیش کیا۔ حضرت ابن مسعود کے حرف میں ہے : عرضھن۔ انہوں نے ضمیر اسماء کی طرف لوٹائی اشخاص کی طرف نہیں، ھن ضمیر مؤنث کے ساتھ خاص ہے، اور حضرت ابی کے حرف میں ہے : عرضھا۔ مجاہد نے کہا : اصحاب الاسماء کو پیش کیا جنہوں نے کہا : اسماء سے مراد المسمیات ہے تو انہوں نے ابی کی قرأت عرضھا کو بنیاد بنایا۔ اور جنہوں نے عرضھم پڑھا انہوں کہا : لفظ اسماء اشخاص پر دلالت کرتا ہے اس لئے اسماء کے لئے عرضھم کہنا جائز ہے اور ھؤلاء میں اسماء کے اشخاص کی طرف اشارہ مراد ہے لیکن اگرچہ وہ غائب تھے پس وہ حاضر تھا جو ان میں سے تھا ایک سبب کی وجہ سے اور وہ ان کے اسماء تھے۔ ابن عطیہ نے کہا : وہ بات جو ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اسماء سکھائے اور ان اجناس کے ساتھ ان پر اسماء پیش کئے پھر ان چیزوں کو لائ کہ پر پیش کیا اور ان سے ان چیزوں کے اسماء پوچھے، جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے سیکھ لئے تھے۔ پھر حضرت آدم (علیہ السلام) نے انہیں بتایا اس چیز کا یہ اسم ہے اس چیز کا یہ اسم ہے۔ الماوردی نے کہا : اصح یہ ہے کہ ذوات کو پیش کیا گیا تھا پھر ان چیزوں کے پیش کرنے کے زمانہ میں دو قول ہیں۔ (1) ان چیزوں کو تخلیق کرنے کے بعد انہیں پیش کیا۔ (2) اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے دلوں میں ان کی تصویریں ڈال دیں پھر انہیں پیش کیا۔ مسئلہ نمبر 5: اس میں اختلاف ہے کہ سب سے پہلے عربی زبان کس نے بولی۔ حضرت کعب الاحبار سے مروی ہے کہ سب سے پہلے جس نے عربی اور سریانی کتاب اور باقی کتب جس نے وضع کیں اور تمام زبانوں کے ساتھ کلام کی وہ حضرت آدم (علیہ السلام) تھے۔ یہ حضرت کعب الاحبار کے علاوہ علماء کا بھی قول ہے۔ اگر کہا جائے کہ حضرت کعب احبار سے بہتر وجہ مروی ہے، فرمایا : جس نے سب سے پہلے عربی بولی وہ حضرت جبریل (علیہ السلام) تھے انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان پر عربی ڈالی تھی اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سام کی زبان پر ڈالی تھی اسے ثوربن زید نے خالد بن معدان سے انہوں نے حضرت کعب سے روایت کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، فرمایا : جس نے واضح عربی زبان سب سے پہلے بولی وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے وہ اس وقت دس سال کے تھے۔ یہ بھی مروی ہے کہ سب سے عربی یعرب بن قحطان نے بولی۔ اس کے علاوہ بھی روایات ہیں۔ ہم کہیں گے : صحیح یہ ہے کہ سب سے پہلے انسانوں میں سے عربی بولنے والے حضرت آدم (علیہ السلام) تھے۔ قرآن اس کی شہادت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعلم ادم الاسماء کلھا۔ اور لغات ساری اسماء ہیں۔ پس یہ اس کے تحت داخل ہیں، سنت میں بھی اس طرح آیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام اسماء سکھائے حتیٰ کہ پلیٹ اور پیالہ کا نام بھی سکھایا اور پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے سب سے پہلے عربی بولی تو اس میں احتمال ہے کہ یہ مراد ہو کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے سب سے پہلے حضرت اسماعیل نے عربی بولی۔ اسی طرح اس قول کے علاوہ جو اقوال ہیں وہ بھی اس پر محمول ہوں گے کہ مذکور شخص نے اپنے قبیلہ سے پہلے عربی بولی۔ اس کی دلیل وہی ہے جو میں نے ذکر کردی ہے۔ اسی طرح جبریل نے فرشتوں میں سے سب سے پہلے عربی بولی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو عربی سکھائی اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان سے یہ جاری فرمائی جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھؤلاءِ ۔ یہ لفظ مبنی برکسرہ ہے تمیم اور بعض قیس اور اسد قبیلہ کی لغت میں ھؤلاء میں قصر ہے۔ اعشی نے کہا : ھؤلا ثم ھؤلا کلا اعطیہ ت نعالا محذوۃً بمثال (1) یہ لوگ پھر یہ لوگ یقیناً تو نے ان کو مثال کے ساتھ سلے ہوئے جوتے دئیے۔ عربوں میں سے بعض اسے ھولاء پڑھتے ہیں الف اور ہمزہ حذف کردیتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان کنتم صدقین یہ شرط ہے اور اس کا جواب محذوف ہے۔ تقدیر کلام اس طرح ہے : ان کنتم صادقین ان بنی آدم یفسدون فی الارض فانبئونی یعنی اگر تم سچے ہو کہ بنی آدم زمین میں فساد برپا کریں گے تو پھر مجھے بتاؤ۔ یہ مبرد کا قول ہے صدقین کا معنی عالمین ہے یعنی اگر تم جاننے والے ہو۔ اسی وجہ سے ملائکہ کے لئے اجتہاد جائز نہیں ہے۔ فرشتوں نے کہا : سبحانک۔ تیری ذات پاک ہے۔ یہ نقاش نے بیان کیا ہے۔ اس نے کہا : اگر ان پر خبر دینے میں صرف سچ شرط نہ ہو تو پھر ان کے لئے اجتہاد جائز ہوتا جس طرح اس شخص کے لئے جائز تھا جسے اللہ تعالیٰ نے سو سال موت دی پھر پوچھا کم لبثت اس پر اصابت شرط نہیں تھی۔ فرمایا : اس نے صحیح بات نہ پائی تو اس پر سختی نہ فرمائی یہ واضح ہے اس میں کسی قسم کا خفا نہیں۔ طبری اور ابو عبید نے حکایت کیا ہے کہ بعض مفسرین نے کہا : ان کنتم کا معنی ہے اذ کنتم۔ طبری اور ابو عبید نے کہا : یہ غلط ہے (2) ۔ انبئونی کا معنی ہے : مجھے خبر دو ۔ النبأ خبر کو کہتے ہیں اسی سے النبی (ہمزہ کے ساتھ) ہے اس کا بیان آگے آئے گا انشاء اللہ مسئلہ نمبر 7: بعض علماء نے فرمایا : خبر دینے کے امر سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ تکلیف مالا یطاق جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ وہ نہیں جانتے۔ محققین اہل تاویل کہتے ہیں : یہ تکلیف کی جہت سے امر نہیں ہے یہ تقریر اور توقیف کی جہت سے ہے۔ تکلیف مالا یقاق پر تفصیلی کلام آگے آئے گا کیا تکلیف مالا یطاق واقع ہوا ہے یا نہیں۔ یہ تفصیلی گفتگو انشاء اللہ سورت کے آخر میں آئے گی۔
Top